جنرل نیوز

حضرت امام حسین رضہ کے عمل سے صبر و رضا، استقامت اور قربانی کے عظیم رویوں نے جنم لیا: مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری 

حضرت امام حسین رضہ کے عمل سے صبر و رضا، استقامت اور قربانی کے عظیم رویوں نے جنم لیا: مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

حیدرآباد 2جولائی(پریس ریلیز )خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے ماہ محرم الحرام کے موقع پر قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ غم حسین رضہ امت مسلمہ کے ایمان کا حصہ ہے اسے کسی ایک مسلک کیلئے مختص کرنا درست نہیں ہے۔ حضرت امام حسین امن سلامتی اور محبت کے رجل عظیم ہیں جبکہ یزید بدی، دہشت گردی، ظلم اور استحصال کا نمائندہ تھا۔

 

حضرت امام حسین رضہ نے ظلم سے سمجھوتہ نہ کرنے کا عظیم درس دیا، کربلا کے میدان سے حسینیت اور یزیدیت کے مثبت اورمنفی دو نظریات کا اجراء ہوا اور قیامت تک یزیدی فکر کے نمائندے شکست سے دو چار ہوتے رہیں گے۔ حضرت امام حسین رضہ نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے قیامت تک کی انسانیت کو پیغام دیا کہ اصولوں پر قربان ہوجانے والا ابد تک زندہ رہتا ہے اور وقت کا آمر بظاہر جیت کر بھی ہار جاتا اور قیامت تک لعنت اسکا مقدر بنادی جاتی ہے

 

۔مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کہا کہ یزیدنے اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی جو امام حسین رضہ کو گوارہ نہ ہوا اور انہوں نے اپنے خاندان کی قربانی دے کر اسلام کو ہمیشہ کیلئے زندہ کردیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسین کے عمل سے صبر و رضا، استقامت اور قربانی کے عظیم رویوں نے جنم لیا اور آج ساری انسانیت ان مثبت رویوں سے فیضیاب ہورہی ہے

 

۔ حضرت امام حسین رضہ آج غیر مسلموں کیلئے بھی اتنے ہی معزز ہیں جتنے مسلمانوں کیلئے، ایسا اس لیے ہے کہ انہوں نے اپنے عمل سے انسانیت کا سر فخر سے بلند کردیا۔: یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا افضل ترین, عمل ہے کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے۔

 

ویسے تو یوم عاشورہ کے روزے کے حوالے سے بہت سی روایات ملتی ہیں، مگر اختصار کی خاطر چند احادیث درج ذیل ہیں:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں احضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے یہود کو دیکھا کہ عاشورے کا روزہ رکھتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ عرض کی کہ یہ اچھا دن ہے، اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کا روزہ رکھا۔ : یہ بات ذہن میں رہے کہ شہدائے کربلا کا ہر سال سوگ نہیں منایا جاتا ہے بلکہ ان کی یاد میں غم کا اظہار کیا جاتا ہے

 

۔ غم کا یہ اظہار رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہما جوکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور رسول اللہ ﷺ کی چچی ہیں، ان سے مروی ہے کہ :ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور (امام حسین علیہ السلام) کو آپ کی گود میں دے کر ذرا دوسری طرف متوجہ ہوگئی اور پھر (مڑ کر آپ کی طرف نظر اٹھائی تو) کیا دیکھتی ہوں کہ:رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کو کیا ہوا ہے؟

 

آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت (میں سے ایک جماعت) میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی۔ میں نے پوچھا: کیا اِس بیٹے کو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، مجھے اس قتل گاہ کی زمین میں سے کچھ مٹی دی جو سرخ تھی

 

۔مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے واقعہ کربلا کی خبر دیتے ہوئے آنسو بہائے، اس لیے آج بھی شہدائے کربلا کی یاد تازہ کی جاتی ہے، ان کی مظلومانہ شہادت پر غمگین ہوا جاتا ہے، آنسو بہائے جاتے ہیں اور ان کی شہادت کے مقاصد کو بیان کیا جاتا ہے جس میں سے کوئی شے بھی غیرشرعی یا ممنوع نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button