مضامین

علماء کرام سے اس قدر بدگمانی آخر کیوں ؟

ذکی نور عظیم ندوی۔لکھنؤ

علم سے مراد چیزوں کی حقیقت اور ان کی صحیح جانکاری ہے۔ کسی بھی چیز سے واقفیت رکھنے والے کو اس کا واقف کار ،جانکار اور عالم کہا جا سکتا ہے،لیکن عصر حاضر میں لفظ ’’عالم ‘‘ سے عمومی طور پر دینی وشرعی علوم و معارف سے واقف شخص مراد لیا جاتا ہے ۔ اس کی جمع ’’علماء‘‘ آتی ہے جس سے یوں تو دینی و شرعی علوم سے واقف تمام افراد مراد ہوتے ہیں لیکن سماجی پس منظر میں اس لفظ کا استعمال عام طور پر دینی علوم و معارف سےوابستہ ان افراد کے لئے سمجھا جاسکتا ہےجن کو کسی حد تک قوم میں اعتبار اور سماجی قبولیت حاصل ہے۔

وطن عزیز بھارت میں اس وقت مسلمان ہر میدان میں پسماندگی سے گزر رہے ہیں۔وہ سرکاری و غیر سرکاری ہر سطح پر تعلیمی، معاشی، کاروباری، سیاسی، سماجی ، غرض ہر اعتبار سے ہر میدان میں پسماندگی ہی نہیں بلکہ درماندگی اور محتاجی کی انتہا کو پہونچ گئے ہیں ۔ صورت حال کےسنجیدہ جائزہ اور اس کے حقیقی اسباب و وجوہ کو جاننے اور اس کی تلافی کے بغیر حالات میں تبدیلی و بہتری کا امکان مشکل ہوتا ہے، لیکن جب اس پر غور و خوض کیا جاتا ہے یا اس کے پیچھےکار فرما اسباب و وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس وقت نہایت ہی حیرت ناک، غیر معقول اور افسوسناک رویہ اور صورت حال سامنے آتی ہے کہ اسلام مخالف اور غیر مسلم حلقوں کےساتھ ساتھ مالی اعتبار سے کسی قدر مستحکم ، سماجی اعتبار سے کسی قدر قابل ذکر، تعلیمی وانتظامی طور پر کسی مقام اور حیثیت کے حامل، صوبائی اور ملکی اعتبار سے کسی منصب تک کسی طرح پہونچ جانے والے بعض مسلم دانشور اور انٹلکچول بھی نہ جانے کیوں بغیر کسی سنجیدہ غور و فکر اس کا سارا الزام علماءکے سر منڈھ دیتے ہیں ۔

جہاں تک غیر مسلم حلقوں یا اسلام مخالف طبقہ کا تعلق ہے تو ان کا مقصد اسلام میں تحریف، اسلامی تعلیمات مسخ کرنا، اس میں شکوک و شبہات پیدا کرکے مسلمانوں کودین سے بدگمان اور دور کرنا ہے، وہ دین کی گہرائی سےواقف علماء کرام کو اپنا حریف اور رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ علماء ہی ہیں جو ہر طرح کی منمانی اور آزاد خیالی کے بجائے اسلام اور اس کی تعلیمات کو اسلام کے حقیقی مصادر و مآخذ ( قرآن و احادیث )کی روشنی اور طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق سمجھ کر اس کو واضح اور عام کرنےاور اس کے خلاف ہرطرح کی سازش ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

لیکن سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب خود مسلم طبقہ کے بعض افراد علماء پر الزام لگاتے ، ان سے بدگمانی پیدا کرتے یا ان کو مسلمانوں کی ہر طرح کی پسماندگی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ غالبا وہ تقدیر سےملنے والے چند مواقع، کسی فن میں کسی قدرکمال و امتیاز ، کچھ مالی وتعلیمی حیثیت ، انتظامی پوسٹ اور منصب ، سیاسی و سماجی اثر و رسوخ کو اللہ کے دین کی منمانی اور آزادانہ تشریح کا لائسنس سمجھ بیٹھے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ دینی معاملات میں بغیر کسی گہری معلومات، اصول و قواعد، خود ساختہ آزادی سے ہم جو کہیں وہی دین کی سچی اور حقیقی تشریح بن جائے اور ہمیں ’’Boss‘‘ کا رتبہ حاصل ہو اور علماء جنھوں نے پوری زندگی دین کی حقیقت اور باریکیاں اصل مصادر کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے میں گزار دی ان کو اور دیگر تمام لوگوں کو ماتحتوں کی طرح ’’Yes sir‘‘ کے علاوہ کچھ کہنے کی اجازت نہ ہو۔

میں نہیں کہتا علماء معصوم ہیں، ان سے غلطیاں نہیں ہوتیں ، یقینا ان میں بعض بےعمل ہوسکتے ہیں ، بعض کے قول و عمل میں تضاد ہو سکتا ہے ، بعض فرائض میں بھی کوتاہ ہو سکتے ہیں، بعض سے کسی موقع پر حق سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے، بعض کے اندر قوت فیصلہ کی کمی ہو سکتی ہے، بعض کے مالی معاملات پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہے، بعض منصب اور عہدہ کےطلب گار ہوسکتے ہیں، بعض طبقاتی نظام اور اونچ نیچ سے متأثر ہو سکتے ہیں، بعض تملق و چاپلوسی کی وجہ سےدھوکہ کھا سکتے ہیں، بعض اصحاب ثروت اور مال و جاہ سے مرعوب ہو سکتے ہیں، بعض غیر ضروری طور پر بزرگی کا ڈھونگ کر سکتے ہیں، بعض مصلحتوں کے نام پر بر وقت فیصلوں میں تاخیر کر سکتے ہیں، بعض غیر ضروری طور پر بڑبولے پن تو بعض ضرورت کے باوجود خاموشی کو ترجیح دے سکتے ہیں، بعض غیر ضروری مسلکی عصبیت اور اس میں شدت پسندی کے شکار ہو سکتے ہیں، بعض ملت کے بجائےمتعلقین اور اہل خانہ کے لئے زیادہ فکر مند ہوسکتے ہیں، بعض سے جرأتمندانہ اور بروقت فیصلہ لینے یا نہ لینے میں چوک ہو سکتی ہے، بعض عہدوں سے چمٹنے والے مل سکتے ہیں، بعض قابل اور اہل افراد کی ناقدری کر سکتے ہیں، لیکن علماء کرام اجتماعی طور پر دین کی غلط، منمانی اور شتر بے مہار کی طرح آزاد تشریح ہر گز نہیں کرسکتے۔

دین اتنا بھی آسان نہیں کہ صرف مسلمان گھر میں پیدا ہوکر مسلمان نام رکھ کر کچھ مالی اور سماجی حیثیت رکھنے والا شخص دین کا ترجمان بن جائے اور پوری زندگی اسلام اور اس کی تعلیمات کے لئے وقف کرنے والے علماء اجتماعی طور پر بھی غلط قرار دئے جائیں۔ یاد رکھئے دین اور اس کی تعلیمات سرسری ترجمہ سے نہیں سمجھی جاسکتیں۔ اس کے لئے متعلقہ موضوع پرصریح اور غیر صریح قرآنی آیتیں ، کتب حدیث میں وارد حدیثیں ، اس کے تعلق سے نبی اکرم ؐاور صحابہ کرام کا عمل، قرآن و حدیث اور عربی زبان کے اصول و قواعدکی صحیح جانکاری،اس کےبارے میں فقہائے کرام کی فہم و آراء ، اس میں جمع و تطبیق کی صلاحیت اور ضرورت و حاجت اور اضطرار کی ان تفصیلات سے واقف ہونا ضروری ہے جس سے احکام میں تبدیلی کی تفصیلات واضح ہوسکیں ۔

کسی عظیم عہدہ پر فائز غیر مسلم یا بڑا تعلیم یافتہ مسلمان یا بڑے سے بڑے معتبر عالم بلکہ تمام علماء کرام کی باتیں بھی اگر قرآن اور صحیح احادیث کے خلاف ہوں تو قابل قبول نہیں، علماء ان حقائق کو جانتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ آزاد نہیں، حلال وحرام اور جائز و ناجائز کا فیصلہ ان کے اختیار میں نہیں بلکہ یہ خالص اللہ کا فیصلہ ہے۔ اس کا اختیار تو انبیاء کو بھی نہیں۔ اسی لئے اللہ نے سورہ تحریم میں نبی اکرم ؐسے دو ٹوک انداز میں کہ دیا کہ اے نبی آپ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو کیسے حلال کرسکتے ہیں؟ یعنی یہ انسانی اختیار میں نہیں کہ کسی کی خواہش اور مطالبہ پر دین کی منمانی تشریح کی جائے بلکہ اصول و قواعد کی پابندی ضروری ہے۔ لہذا علماء پر انگلی اٹھانا ،انہیں مورد الزام قرار دینا یا عمومی ملی پسماندگی کا ذمہ دار بتانا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا ۔

اگردانشوران ملت اور انٹلکچولس ملت کو چہار طرفہ پسماندگی سے نکالنے کے لئے واقعی سنجیدہ اور فکر مند ہیں تو کسی پر الزام تراشی کے بجائے اس کے لئے منظم اورمنصوبہ بند نظام بنا کر پہلے علماء سے اس کی شرعی حیثیت معلوم کرلیں اور پھر اپنےسماجی ،سیاسی، تعلیمی اورانتظامی تجربات ، مالی حیثیت اور اثرو رسوخ سےمنصوبہ کو اس طور پر عملی جامہ پہنائیں کہ امت کا کھو یا وقاربحال ہو سکے۔ اور سعودی عرب کی طرح دینی ومذہبی امور کی ذمہ داری علماء اور مشائخ کو دے کر ملکی، تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور دیگر امور کی ذمہ داری دانشوران ملت اور اصحاب جاہ ومنصب اداکریں۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button