مضامین

ڈاکٹر علامہ یوسف عبد اللہ قرضاوی- تیری جدائی سے ہے عالم سوگوار

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 عالم اسلام کی ممتاز اور با اثر شخصیت ، یوروپین کونسل اینڈ ریسرچ کے سر براہ، الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے سابق صدر، اخوان المسلمین کے سر گرم رکن وقائد، رابطہ عالم اسلامی کے سابق رکن ، مجمع البحوث الاسلامیہ مصر، مجلس الامناء لمنظمۃ الدعوۃ الاسلامیہ افریقہ، مجلس الامناء لمرکز الدراسات الاسلامیہ آکسفورڈ کے رکن، الرقابۃ الشرعیۃ لمصرف قطر کے صدر، ھیئۃ الشرعیہ العالمیۃ للزکوٰۃ کویت کے نائب صدر، نامور مفسر، عظیم محدث مشہور فقیہ؛ بلکہ عصر حاضر کے مجتہد ، داعیٔ اسلام، استاذ الاساتذہ،مفکر اسلام عربی کے بڑے شاعرعلامہ یوسف عبد اللہ قرضاوی کا عیسوی سال کے اعتبار سے ۹۶ اور ہجری سال کے اعتبار سے سو سال کی عمر میں ۲۶؍ ستمبر ۲۰۲۲ء کو دوحہ قطر میں انتقال ہو گیا، پس ماندگان میں چار بیٹیاں الہام، سہام، علا ، اسماء اور تین بیٹے محمد، عبد الرحمن اور اسامہ پہلی بیوی اسعاد عبد الجواد ام محمد اور ایک لڑکا دوسری بیوی عائشہ اسماء جزائری سے ہے، جنازہ کی نماز دوسرے دن بعد نماز عصر دوحہ کی جامع الامام محمد بن عبد الوہاب المعروف جامع الدولۃ میں ہوئی، نماز جنازہ کی امامت شیخ محمد حسن ولد الدود شفقیطی نے کی، پچاس ہزار سے زائد لوگوں کی موجودگی میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین ابوہامور  قبرستان میں ہوئی، نماز جنازہ میں قطر کے حکمراں، ولی عہد، وزراء کے علاوہ شیخ محی الدین علی القراداغی ، حماس کے مرکزی قائد اسماعیل ہنیہ، خالد مشعل، آبا صوفیا ترکی کے خطیب علی الارباس، وزیر اوقاف ترکی اور اخوانی قائدین نے شرکت کی، جنازہ کی نماز دوبار ان کی قبر پربھی ادا کی گئی، دنیا کے مختلف ممالک میں غائبانہ نماز جنازہ کا بھی اہتمام کیا گیا، علامہ کی موت سے موت العالِم موت العالَم کا منظر سامنے آگیا۔
 علامہ یوسف القرضاوی کی ولادت مصر کے محافظۃ الغربیۃ کے ایک گاؤں صفط تراب مرکز کے المحلۃ الکبری میں ۹؍ ستمبر ۱۹۲۶ء کو ہوئی، دو سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، پرورش وپرداخت چچا کے زیر سایہ وسر پرستی ہوئی، نو (۹) بر س کی عمر میں آپ نے حفظ قرآن کی تکمیل کی،  جامعۃ الازہر یونیورسٹی کے کلیۃ الاصول سے ۱۹۵۳ء میں اصول دین میں گریجویشن اور ۱۹۵۴ء میں کلیۃ اللغۃ العربیۃ سے امتیازی نمبرات سے بی ایڈ اور ۱۹۵۸ء میں عرب انسٹی ٹیوٹ آف ہایر عرب اسٹڈیز سے زبان وادب میں ڈپلومہ کی سند پائی، علوم القرآن پر ماجسٹریٹ اور فقہ الزکوٰۃ پر زبردست مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،جس کا عنوان تھا، ’’دور الزکوٰۃ فی علاج المشکلات الاقتصادیۃ وشروط نجاحھا‘‘ وہ امام ابن تیمیہ ، حسن البنا شہید، محمد غزالی اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے افکار واقدار اور دعوت وتبلیغ کے منہج اور طریقہ کار سے متاثر رہے اور پوری زندگی اسی نہج پر کام کرنے میں صرف کر دیا، وہ مشہور اخوانی رہنما تھے اس لیے انہیں پہلی بار ۱۹۴۹ء میں جیل کی صعوبتیں بھی بر داشت کرنی پڑیں، اس کے بعد یہ سلسلہ دراز ہونے لگا، صرف جمال عبد الناصر کے دور حکومت میں انہیں تین بار قید کیا گیا، رہائی کے بعد ۱۹۶۱ء میں قطر تشریف لائے یہاں کی حکومت نے نہ صرف آپ کا استقبال کیابلکہ قطر کی شہریت بھی تفویض کر دی، چنانچہ کم وبیش زندگی کے باسٹھ(۶۲) سال آپ نے یہاں گذارے، اس دور میں برطانیہ، اسرائیل اور فرانس میں آپ کی آمد ورفت پر پابندی رہی۔ انہوں نے مصری وزارت کے مذہبی اموردعوۃ والارشاد اور محکمۂ اوقاف میں خدمات انجام دیں، قطر اور جزائر کی یونیورسیٹوں میں بھی تدریس اور محاضرات کے فرائض انجام دیے، ۱۹۷۷ء میں آپ نے قطر یونیورسیٹی میں کالج آف شرعیۃ اینڈ اسلامک اسٹڈیز قائم کیا، مرکز سیرت نبوی کو وجود بخشا ، وہ اس کالج کے ڈین بھی رہے، ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۱ء میں اسلامک یونیورسٹی اور اکیڈمک کونسل الجزائر کے صدر کی حیثیت سے کام کیا۔
 آپ دعوت وتذکیر کے ساتھ تحقیق وتصنیف کے بھی مرد میداں تھے، اسلامی قانون اور فقہ ان کا خاص موضوع تھا، انہوں نے ایک سوستر سے زائد کتابیں تصنیف کیں ان میں فقہ الزکوٰۃ ، الحلال والحرام فی الاسلام، فقہ الجہاد، فتاویٰ معاصرۃ، فقہ الطھارۃ، فقہ الصیام، فقہ الغناء والموسیقی، فقہ اللہو والترویح ، الاجتہاد فی الشریعۃ الاسلامیۃ ، کیف نتعامل مع القرآن العظیم، کیف نتعامل مع السنۃ النبویۃ بین الجحود والتطرف، ترشید الصحوۃ الإسلامیۃ ابن الخلل  ان کی آپ بیتی ابن القریۃ والکتاب وغیرہ مشہور ومعروف ہیں۔
فنی اور موضوعاتی اعتبار سے ان کی کتابوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے عقیدۃ الملل والنحل پر ۱۵،  فقہ العبادات پر ۱۰، فقہ الاسرۃ والمجتمعات پر ۵، فقہ المعاملات المالیۃ والاقتصاد الإسلامی پر ۸، فقہ الجنائی پر ۳، السیاسۃ الشرعیہ پر ۱۶، الفقہ العالم۵، اصول فقہ پر ۸، فتاویٰ پر ۶، فقہ الاخلاق پر ۹، علوم قرآنی اور تفسیر پر ۹، سنۃ نبویہ اور متعلقات پر ۸، فقہ الامۃ والدعوۃ پر ۲۶، عاملین اسلام پر ۱۰، ھموۃ الاسلامیہ پر ۱۲، تاریخ پر ۱۱، شعر وادب اور متعلقات پر ۱۵، خطبہ جمعہ (۱۰؍ اجزائ) مجموعۂ محاضرات پر ۳۳، کتابیں تصنیف کیں۔
مولانا بدر الحسن قاسمی مقیم کویت نے لکھا ہے ’’عصر حاضر کے اسلوب میں ان کی تصنیف وتالیف کا اللہ تعالیٰ نے خاص سلیقہ عطا فرمایا تھا، چنانچہ ان کی تصنیفات میں فکر کی بالیدگی، استدلال کی قوت، تعبیر کی عمدگی، زبان کا زور اور اسلوب نگارش کی سحر آفرینی ساری خصوصیتیں ایسی ہیں، جو پڑھنے والے کو اپنا اسیر بنا لیتی ہیں اور لوگ ان کے گرویدہ اور عقیدت کیش ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ ان میں علمی مواد کے ساتھ فکری انحراف کا علاج بھی ہے اور خود اسلام پسند حلقوں میں جو فکری بے اعتدالی اور انتہا پسندی محسوس ہوتی ہے، اس کا بھر پور تدارک بھی ہے۔‘‘
 آپ عربی زبان وادب کے نامور ادیب اور بہترین شاعر تھے،ا نہوں نے قید وبند کے زمانہ میں شاعری کی، ان کی شاعری کا مجموعۃ ملحمۃ الابتلاء کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔
 علامہ یوسف قرضاوی کی جرأت وبے باکی ضرب المثل تھی، وہ اقبال کے ’’نگاہ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ کے سچے مصداق تھے، ان کو دیکھ کر ایمان میں تازگی، قلب میں فرحت وسرور کی کیفیت پیدا ہوتی تھی، بلکہ کہنا چاہیے کہ اللہ یاد آجاتا تھا، ان کی تقریروں کو سن کر غیرت ایمانی شعلہ فروزاں ہوجاتی تھی، وہ عابد شب بیدار اور دین کے مجاہد تھے، انہیں امت کی فکر دامن گیر تھی، انہیں امت مسلمہ سے یہ شکوہ تھا کہ وہ کام نہیں کرتے، وہ ٹرینیں اور ہوائی جہاز استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کو اپنے یہاں بنانے کی فنی اور پیشہ وارانہ مہارت نہیں پیدا کرتے، ہم پیشہ وارانہ مہارت میں پیچھے ہیں، حالاں کہ پیشہ وارانہ مہارت بھی ہمارے فرائض میں سے ایک فرض ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارا اسلام عقیدہ میں جبر ، عبادت میں شکلیت، سلوک میں سلبیت ، فکر میں سطحیت ، فقہ میں ظاہریت اور زندگی میں مظہریت سے بچاتا ہے، جب کہ ہمارا اسلام عقیدہ میں توحید، عبادت میں اخلاص، اخلاق میں خیر، شریعت میں عدل اور روابط میں اخوت کو ایمانی واسلامی روح قرار دیتا ہے، وہ دین، فکر اورسیاسی مخالفین سے مکالمات پر زور دیتے تھے۔اور فلسطین کے تناظر میں خود کش حملوں کو جائز ٹھہراتے تھے۔ وہ عرب کے دیگر علماء کی طرح تصویر کشی کو جائز سمجھتے تھے، ان کے نزدیک اسلام قبول کرنے والی عورت کو حالات کے نارمل ہونے تک غیر مسلم شوہر سے میاں ، بیوی کا رشتہ بحال رکھنے کی اجازت تھی، چاہے اس میں دسیوں سال لگ جائیں، وہ یورپ میں سودی قرض کے جواز کے قائل تھے، وہ عورتوں کے دودھ بینک سے بچوں کو دودھ پلانے کی اجازت دیتے تھے، اہل علم ومفتیان کرام کو ان کے اس قسم کے فتووں سے اتفاق نہیں تھا، وہ اسے ان کے تفردات پر محمول کرتے تھے، ان کی مشہور کتاب الحلال والحرام میں بھی اس قسم کی باتیں کثرت سے ہیں، جن کے جواب میں اہل علم نے الگ الگ کتابیں تصنیف کی ہیں۔
 ان کی علمی وعملی خدمات کے اہل علم قائل تھے، ان کے استاذ محمد غزالی انہیں امام العصر کہتے تھے، اور فرماتے کہ وہ مجھ سے بہت آگے نکل گیے ، وہ میرے شاگرد تھے، لیکن اب میں ان کا شاگرد ہوں، مولانا ابو الحسن علی ندوی کی رائے تھی کہ وہ بڑے عالم محقق اور بڑے مربی ہیں، شیخ الحسن الددوکی رائے تھی کہ وہ ہمارے زمانہ میں علم کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اول وارث ہیں، مصطفیٰ زرقاء انہیں حجۃ العصر اور مسلمانوں پر اللہ کی نعمت قرار دیتے تھے، محمد عمارۃ، قرضاوی کو مستقل فکری دبستان، فکری منصوبہ ساز اور فقیہ الامۃ قرار دیتے  ہیں، شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی نظر میں وہ علامہ ، مرشد اور بڑے فقیہہ تھے، وقت کے ان جلیل القدر علماء ومشائخ کی آراء سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی علمی ، فکری، عملی عبقریت وعظمت ان حضرات کی نگاہ میں کس قدر تھی۔
انہیں ان کی علمی اور اسلامی خدمات پر ایک درجن سے زائد ایوارڈ ملے، جن میں جائزۃ البنک الاسلامی لعام ۱۹۹۰ء ، جائزۃ الملک فیصل العالمیۃ فی الدراسات الإسلامیۃ ۱۹۹۴، جائزۃ العطاء التعلیمی التمیز من رئیس الجامعۃ الإسلامیۃ ملیشیا ۱۹۹۶، جائزۃ السلطان حسن ابلقیۃ سلطان برونائی فی الفقۃ الإسلامی  ۱۹۹۷، جائزۃ سلطان العویس فی الإنجاز الثقافی والعلمی ۱۹۹۹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 علامہ سے میری ایک دید وشنید تھی اور دوسری باضابطہ ملاقات، دید وشنید، دار العلوم دیو بند کے صد سالہ اجلاس میں ہوئی تھی، میں ان دنوں عربی ششم کا طالب علم تھا اور طالب علموں کے مقدر میں صد سالہ اجلاس میں دور کا جلوہ ہی آیا تھا، اور ان کی گفتگو سننے کا موقع، اس طرح علامہ قرضاوی کو پہلی بار میں نے دیکھا اور ان کی گفتگو سننے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔
 دوسری بار قطر میں باضابطہ ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی، موقع تھا۲۱؍ تا ۲۳ ؍ جون ۲۰۰۸ء میں الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے اجلاس عام کا ، یہ تین روزہ پروگرام تھا، جو قطر کی راجدھانی دوحہ میں خصوصیت کے ساتھ ہندوستانی علماء کے لیے منعقد ہوا تھا، ہندوستان سے اس پروگرام میں مولانا سید ارشد مدنی، قاری محمد عثمان ،مولانا سید سلمان حسینی ندوی، مولانا بدر الحسن قاسمی، مولانا نور عالم خلیل امینی اور جماعت اسلامی کے مولانا جلال الدین انصر عمری موجود تھے، ان اکابر کے قافلہ میں گرد راہ کے طور پر یہ حقیر بھی مدعو تھا، اس موقع سے علامہ یوسف قرضاوی نے حسب توقع مجمع کے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دیاتھا، ان کی مرصع تقریر ان کے قلب نہاں کی آواز اور ملت کے لیے بے چین روح کی پکار تھی، انہوں نے علماء کے اتحاد فکر وعمل پر زور دیا تھا، اس موقع سے ڈاکٹر محی الدین قرۃ داعی نے بھی خطاب کیا تھا،بلکہ پروگرام کے ناظم بھی وہی تھے، میں دوسرے دن کے پروگرام میں شریک ہو کر واپس آگیاکیوں کہ اسی دن میری والدہ کا ۲۲؍جون کی رات ڈیڑھ بجے انتقال ہو گیا تھا۔
ہندو پاک کے علماء سے انہیں کافی انسیت تھی، وہ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کی دعوت پر توسیعی خطبہ کے لیے ۱۹۹۷ء میں ہندوستان آئے تھے، انہوں نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے جنازہ میں شرکت کے لیے پاکستان کا سفر کیا اور ان کی نماز جنازہ انہوں نے ہی پڑھائی، علامہ قرضاوی نے مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی تکملۃ فتح الملہم پر وقیع پیش لفظ لکھا، مولانا سید سلمان الحسینی ندوی کی شرح مشکوٰۃ پر اتنا طویل مقدمہ لکھا اور وہ بھی علالت کے زمانہ میں کہ وہ ایک مستقل کتاب بن گئی، دار المصنفین اعظم گڈھ میں اسلام اور مستشرقین کے سمینار میں بھی آپ کی تشریف آوری ہوئی تھی اور پر مغز مقالہ پیش فرمایا تھا۔
 شیخ یوسف قرضاوی کی یہ داستان مکمل نہیں ہے، اس کا مجھے احساس ہے، لیکن میں کیا کروں، پہلی بار مجھے شیخ پر لکھتے ہوئے الفاظ کی تنگ دامانی کا شکوہ ہو رہا ہے، الفاظ تنگ پڑ گیے ہیں، خیالات پر غم کی چادر پھیل گئی ہے اور دماغ میں برف کی موٹی تہہ نے جگہ بنالیا ہے، اور جب دل ودماغ، احساس وخیالات ہی ساتھ چھوڑ دیں تو داستان تمام نہیں ہوتی، نا تمام ہی رہ جاتی ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین۔

متعلقہ خبریں

Back to top button