مضامین

ہملٹن کاسفرنامۂ ہند۔اوراورنگ زیب عالمگیر

انس مسرورؔانصاری 

بھارت ایک قدیم ملک ہے۔اس کی قدامت اورپر اسراریت۔اس کےدریااورپہاڑ۔اس کے جنگل اور میدان۔سرسبزوادیاں۔شہراورقصبات۔اس کے گاؤں۔اس کے کسان اورکھیت کھلیان۔اس کی بساطِ رنگین وسنگین ۔ مافوق الفطرت واقعات۔اس کی عبادت گاہیں اور تعمیرات۔اس کی تہذیب وتمدّن۔سماجی رسوم ورواج۔ تایریخی عمارتیں۔قلعے۔اجنتا۔ ایلورہ،کھجوراہو۔تاج محل۔شاہ جہانی مسجد۔لال قلعہ۔جھولتے میناروں والی عمارتیں۔اوربہت سارے عجائبات ہمیشہ غیرملکی سیّاحوں کے لیے کشش اورتوجہ کامرکزرہے ہیں۔قدیم چینی سیّاح فاہیان سے ابن بطوطہ اوران کے بعدیہاں آنے والےسیّاحوں کےناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔انھوں نے سفرنامے لکھےاوراس ملک کےجغرافیائی، تاریخی وتہذیبی اورتمدّنی منظروں کی عکس ریزی کی۔ ان سفرناموں میں ہندوستان رچا بسا ہوا ہے۔

 

 

مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے عہدمیں برطانوی سیّاح الیکزینڈرہملٹن ہندوستان میں واردہوا، اورمشرق کے اس پُراسرارملک میں پچیس سال تک گھومتارہا۔ اُس نےاورنگ زیب عالمگیرسے بھی ملاقات کی۔بادشاہ نے اس کی ایسی شاندارخاطرتواضع کی کہ ہملٹن متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکا۔اُس نے اپنے سفرنامۂ ہندمیں اورنگ زیب کی بہت تعریف کی ہے۔اُس کایہ سفرنامہ بہت مشہوراورمقبول ہوا۔

 

 

چونکہ اورنگ زیب ہندوستان کےعظیم مغل تاجدار کے علاوہ ایک دین دارمذہبی آدمی بھی تھا،اس لیے ہندوبرہمنیت اس کی سخت مخالف رہی ہے۔وہ برہمنیت جس نےکبھی کسی مذہبی واصلاحی تحریک اور دوسرے مذہبی لوگوں کوپسندنہیں کیا۔ان سے نفرت کی اور انھیں مٹادیناچاہا۔سناتن دھرم کے علاوہ اس کے نزدیک ہرمذہب باطل ہے۔ اس نے اورنگ زیب کے خلاف ہمیشہ محاذ آرائی کی۔ مشہورمورّخ پنڈت ایشوری پرشاد لکھتے ہیں۔

 

 

‘‘پرماتماکی شان ہے کہ اورنگ زیب رعایاکاجتنا بڑاخیرخواہ تھا، برہمنی نفرت نے اسے اتناہی بدنام کیا۔کوئی اسے ظالم کہتاہے اورکوئی قاتل کہتاہے۔کوئی مندروں کوگرانے والابتاتاہے۔کوئی ہندوؤ ں کاکٹّردشمن سمجھتاہے لیکن حقیقت میں وہ‘‘عالمگیر’’کے لقب کا مستحق ہے۔اورنگ زیب کے ہم عصرہندووقائع نگار وں کابیان ہے کہ وہ ایک نیک دل حکمراں اورنیک صفت انسان تھا۔اس کاعہدِحکومت اتنااچھاتھااوروہ خود اتنااچھاتھا کہ پرماتما نے ہندوستان کی باگ ڈوراور حکومت اس کے حوالے کرکے بے فکری سے اپنی آنکھیں بندکرلی تھیں۔اورنگ زیب سلطنت کے باغیوں کے لیے سخت گیراورعام رعایاکے لیے نہایت نرم دل تھا۔’’

 

 

(تاریخِ ہند۔ص، 58/طپنڈت ایشوری پرشا؛د)

دوسرے سیّاحوں کی طرح کیپٹن الیکزینڈر ہملٹن نے بھی اس ملک کاجغرافیہ،تہذیب وتمدّن ،زبان اور لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں اپنے سفرنامۂ ہندمیں تفصیل سے لکھاہے۔اورنگ زیب سے ملاقات کے باب میں لکھتاہے۔

‘‘بادشاہ اپنے مذہب پر پوری طرح کاربندہے۔اس کی خواہش ہےکہ عام مسلمان بھی اپنےمذہب کےپابندہوں۔ان کے کرداروعمل سے ظاہرہوکہ وہ مسلمان ہیں۔لیکن مسلمانوں پراس کے مذہبی حقوق کے باوجوداُن پر سختی نہیں کرتا۔پھربھی اس کی مذہبی شخصیت کے اثرات رعایاسے ظاہرہوتے ہیں۔ہندوستان میں بہت سے مذاہب اورعقائدکے لوگ رہتے بستے ہیں لیکن وہ سب ایک قوم کہلاتے ہیں۔مذہب کوریاست سے الگ رکھاگیا ہے۔ مذہب کی تبلیغ واشاعت کے لیے کسی فرقہ پرکوئی پابندی نہیں ہے۔وہ جس طرح چاہے اپنے مذہب وعقائد کی تبلیغ کرسکتاہے۔’’ ’

 

 

‘‘یہی حال تجارت،صنعت وحرفت اورزراعت کابھی ہے۔ بادشاہ نے بہت سارے اضافی ٹیکس معاف کررکھے ہیں جس کے نتیجے میں ہرپیشہ سے متعلق افرادخاصے مطمئین اورخوش نظرآتے ہیں۔ہرچیز فروغ پارہی ہے۔ برائے نام ٹیکس ہونے کی وجہ سے بازاروں میں ہرچیز سستے داموں میں ہے۔اسی مناسبت سےاشیائےخوردنی کے نرخ بہت ارزاں ہیں۔عام طورپرخوشحالی کادَوردَورہ ہے۔خوشحالی کی وجہ سے رعایا خودبادشاہ کی مدد گارہے۔ ایسامیں نے ہندوستان کے علاوہ کہیں اورنہیں دیکھاکہ بادشاہ اوررعایاکے درمیان رشتہ ورابطہ اتنا قریبی ہو جتناکہ اورنگ زیب اوراس کی رعایامیں ہے۔’’

 

 

‘‘مسلمانوں اوریہاں کےقدیم باشندوں کےرہن سہن اورلباس وغیرہ میں اب بھی نمایاں فرق نظرآتاہےمگر یہ فرق بھی خاص خاص موقعوں پرظاہرہوتاہے۔’’

ہملٹن لکھتاہے کہ ‘‘ہندوستان کی تجارت کامقابلہ یورپ کے بڑے بڑے ممالک بھی نہیں کرسکتے۔یہاں کا صرف ایک تاجر سالانہ بیس بیس مال بردار جہاز دوسرے ملکوں کوبھیجتاہے۔ہرجہاز میں دس ہزارپونڈ سے پچیس ہزارپونڈتک کی ما لیت کاسامان ہوتاہے۔ہزاروں پونڈسالانہ کی مچھلیاں ما لابارسے یورپ کے ملکوں میں روانہ کی جاتی ہیں۔سیکڑوں جہاز ہندوستانی مال کی برآمدات کے لیے یہاں کی بندرگاہوں میں مال سے لدے کھڑے رہتے ہیں۔’’

‘‘حکومت کوسالانہ مالیہ ساٹھ کروڑروپئے وصول ہوتاہے۔صنعت وحرفت کوخوب فروغ حاصل ہے۔اورنگ زیب نےاپنی رعایا پرسے اُن تمام نامناسب ٹیکسوں کو ہٹا لیاجو اس کے باپ شاہ جہاں اور اس سے بھی پہلے کے مغل بادشاہوں نےلگارکھےتھے۔اورنگ زیب نے تخت نشین ہوتے ہی رعایاپرسےاسّی(80) قسم کے ٹیکس ہٹالیے تھے جورعایاکی ترقی اورخوش حالی میں مانع تھے۔’’

‘‘ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان پرانی تفریق کم ضرور ہوئی ہے مگرختم نہیں ہوئی ہے۔ان کے کھانے،پینے اورپہننے اوڑھنے میں یہ تفریق اب بھی نمایاں ہے لیکن ایسالگتاہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گاکہ یہ تفریق کم سے کم ہوتی جائےگی۔دونوں قوموں کے درمیان یک رنگی اوریکجہتی کی رفتاربتارہی ہےکہ جیسےجیسے وقت گزرے گا،سوائے مذہب کےسب ایک رنگ میں رنگ جائیں گے۔’’

 

 

‘‘اورنگ زیب نے اپنی حکمتِ عملی اورعدل گستری سےہندومسلم قومی ایکتااوراتحادکوقائم وبرقراررکھا ہے۔یہی و جہ ہے کہ حکو مت کاوفادارکوئی بھی ہو، خواہ مسلمان ہویاہندو،بڑے بڑے عہدوں پرفائزہے۔ وفاداروں کے لیےترقی اوردرجۂ کمال کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ صلاحیت کی بنیادپربڑے بڑے منصب عطاکیے جاتے ہیں۔اس سلسلے میں مذہب،قومیت اورنسل ورنگ میں تمیزنہیں کی جاتی۔ایک طرف جہاں میرجملہ اس کافوجی کمانڈرہے وہیں مشہوراورنامور سالاروں میں جسونت سنگھ اورجَے سنگھ کی طرح اوربھی بہت سے ہندو منصب دارہیں جن پروہ پوری طرح اعتمادکرتاہے۔اس کی عظیم سلطنت کاسارانظم ونسق اورتمام مالی اُمورکانگراں یعنی وزیرِخزانہ دیوان رگھوناتھ کھتّری ہے۔یہ اتنابڑاشاہی منصب ہے جس کے حصول کے لیے سلطنت کے اُمراء ورؤساءہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔حکومت کے دوسرے کلیدی شعبوں میں مسلمانوں کی طرح ہندوبھی اعلاعہدوں پرہیں۔بادشاہ وفاداروں کووفاداری کابھرپور صِلہ دیتاہے لیکن اپنے دشمنوں اورغدّاروں کوکبھی معاف نہیں کرتا۔اسی کےعہد حکومت میں۔انڈیا‘‘سونے کی چڑیا’’کے نام سےمشہور ہوا۔اس نے پچاس سال تک نہایت شان وشوکت اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی ۔’’

(سفرنامۂ ہند۔۔کیپٹن الیگزینڈرہملٹن۔۔بحوالہ/ اورنگ زیب عالمگیر،،۔مصنف/انس مسرورؔانصاری)

٭ انس مسرورؔانصاری

قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)

سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈ کرنگر(یو،پی)

رابطہ/9453347784-

متعلقہ خبریں

Back to top button