تلنگانہ

ایک حیدرآبادی کی سعودی عرب سے گھر واپسی کی جدوجہد

جدہ، 20 اکتوبر ( عرفان محمد) چاہے شدید گرمی ہو یا سردی، صحرا کے علاقے تبوک میں احمد شریف دن بھر کام کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کبھی وہ تعمیراتی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں تو کبھی کھیتوں میں سبزیاں چنتے ہیں تاکہ دن کے لیے کچھ کھانے کا بندوبست کر سکیں۔ مگر کبھی کبھار انہیں کئی ہفتوں تک بھی کوئی کام نہیں ملتا۔ جب کبھی تبوک-مدینہ شاہراہ پر گزرنے والے کچھ بھارتی انہیں کھانے کا پیکٹ دیتے ہیں، تو 44 سالہ حیدرآبادی شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ وہ کس طرح اس کسمپرسی کی حالت میں پھنس گیا ہے۔

 

کورونا وبا نے کچھ غیر ملکیوں کی زندگی پر اثر ڈالا، لیکن احمد شریف کی زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا۔ نہ وہ کام کر سکتا ہے، نہ ہی اپنے گھر واپس جا سکتا ہے، کیونکہ اس پر سفری پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اس کا اقامہ بھی کافی عرصے پہلے ختم ہو چکا ہے۔

 

احمد شریف کا کہنا ہے کہ میری زندگی ٹھیک تھی، میں پینے کا پانی   دکانوں کو ادھار پر فروخت کرتا تھا، لیکن کورونا لاک ڈاؤن نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ بہت سے دوسرے سیلز مین کی طرح، احمد شریف بھی کورونا کے بعد کمپنی کی طرف سے کی 14350 سعودی ریال کہ عدم ادائیگی کے باعث مشکلات کا شکار ہوا ۔ احمد نے بتایاکہ جب کئی دکانیں مستقل طور پر بند ہو گئیں اور کچھ کو نقصان اٹھانا پڑا، تو انہوں نے ادائیگیاں روک دیں، جس کی اطلاع کمپنی کو دی گئی، لیکن کمپنی نے پھر بھی پوری رقم کی ادائیگی پر زور دیا۔احمد شریف کو نوکری سے نکال دیا گیا، اور ساتھ ہی درجنوں دوسرے سیلز مین، جو زیادہ تر بھارتی تھے، انہیں بھی بے گھر کر دیا گیا۔

 

ادائیگی نہ کرنے پر انہیں عدالت میں گھسیٹا گیا، جس نے انہیں رقم ادا کرنے کا حکم دیا اور سفری پابندی عائد کر دی۔ ان کا اقامہ بھی ختم ہو گیا، جس کی وجہ سے وہ ہر چیز سے محروم ہو گئے، حتیٰ کہ میڈیکل کنسلٹیشن اور نوکری تک۔قانونی اور ذاتی مشکلات کے جال میں پھنسے احمد شریف کی زندگی مشکل ہو گئی۔ احمد شریف کا کہنا ہے کہ "میں نے اپنے حالات کو سمجھانے کے لیے ریاض میں ہیڈ آفس کا سفر کیا، جو تبوک سے 1272 کلومیٹر دور ہے، اور درخواست کی کہ مجھے دوبارہ نوکری دی جائے تاکہ میں بقایا رقم ادا کر سکوں، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔”

 

ریاض میں احمد شریف کی مشکل حالت کو دیکھ کر چار حیدرآبادی نوجوانوں نے انہیں رہنے کی جگہ دی، اور بدلے میں وہ ان کے لیے کھانا پکاتے رہے۔ جب ان کے گھر والے واپس   آ گئے تو احمد شریف کو وہاں سے جانا پڑا اور وہ دوبارہ تبوک چلے گئے۔

 

احمد شریف اب تقریباً سات سال سے اپنے گھر واپس نہیں جا سکے اور اپنی اکلوتی بیٹی سے ملنے کا خواب دیکھتے ہیں، جسے پیسوں کی کمی کے باعث اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی۔احمد شریف کو تبوک میں ایک فیول اسٹیشن پر ایل. تروپتی نے دیکھا، جب وہ گاڑی میں پیٹرول بھروا رہے تھے۔ تروپتی سعودی عرب تلگو ایسوسی ایشن کے تبوک چیپٹر کے صدر ہیں تروپتی جو ویمولواڈا سے تعلق رکھتے ہیں نے احمد کی مدد کی اور کہاکہ "یہ انسانیت کا مسئلہ ہے، نہ کہ ذات یا مذہب کا۔

اسی طرح سرینواس اور ڈاکٹر سریش بھی احمد شریف کی مدد کے لیے پیش پیش ہیں۔ سید رمیض رضا، جو دیگر افراد کے ساتھ مل کر احمد شریف کی مدد کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ "ہمیں احمد شریف کی حالت پر افسوس ہے، اور ہم مقامی قوانین کے دائرے میں رہ کر ان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

 

مزید معلومات کے لیے 0558053137 یا 0580160669 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔تبوک سعودی عرب کے میگا پروجیکٹ نیوم کا مرکز ہے، جہاں سیکڑوں حیدرآبادی لوگ کام کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button