نیشنل

کیا مودی کا بت ٹوٹ رہا ہے ؟

شجیع اللہ فراست سینئر صحافی

کیا وزیراعظم نریندر مودی کا چل چلاؤ ہے؟‘ یہ سوال آج کئی ہم وطنوں کے ذہنوں میں گشت کر رہا ہے‘ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ خود بی جے پی کیمپ سے ایسے اشارے ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ زعفرانی کیمپ کو لوک سبھا انتخابات میں اپنی بھاری اکثریت سے کامیابی کا یا پھر کامیابی کا ہی یقین نہیں ہے۔ ان شبہات کو اس وقت تقویت حاصل ہوئی جب پیر کو وزیراعظم نریندر مودی نے لوک سبھا انتخابات کے 7ویں اور آخری مرحلہ کی مہم میں حصہ نہیں لیا۔ حالانکہ وہ لوک سبھا چناؤ کے اعلان کے بعد سے ہی پچھلے تقریباً دیڑھ ماہ سے ہر روز انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ پیر کو وزیراعظم نے خود اپنے حلقہ واراناسی کے لئے بھی مہم نہ چلاتے ہوئے دفتر وزیراعظم میں کئی گھنٹے گزارے اور عہدہ داروں کے ساتھ میٹنگس کیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے کئی اعلیٰ عہدہ داروں کے تبادلوں کی فائلس پر دستخط کئے۔ حالانکہ یہ تبادلے کوئی ہنگامی نوعیت کے نہیں تھے اور ان فیصلوں کے لئے 4 جون تک انتظار کیا جاسکتا تھا جب لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے والے ہیں۔

 

سیاسی تجزیہ نگاروں اور انتخابات کے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں بی جے پی کے پیروں تلے زمین کھسک رہی ہے۔ پارٹی کو بالخصوص اترپردیش، مہاراشٹرا، کرناٹک، بہار، ہریانہ اور بعض دوسری ریاستوں میں بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ بی جے پی امید کر رہی تھی کہ ان نقصانات کی پابجائی دوسری ریاستوں خاص طورپر جنوبی ہند کی ریاستوں سے ہوجائے گی لیکن پارٹی کے اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں اور نوشتہ دیوار بالکل واضح ہے۔ انتخابی ماہرین کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ بی جے پی کی نشستیں کم ہو رہی ہیں لیکن ان میں اختلاف اس بارے میں ہے کہ کتنی نشستیں کم ہو رہی ہیں۔ اس تعلق سے کئی نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کی موجودہ طاقت برقرار رہے گی جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ وہ بمشکل لوک سبھا میں سادہ اکثریت کے لئے درکار 272 کا ہندسہ حاصل کرے گی۔ ایک مکتب فکر کا خیال ہے کہ پارٹی 250 سے نیچے چلی جائے گی، بعض ماہرین تو اسے 200 یا اس سے کم نشستوں کی پیش قیاسی کر رہے ہیں۔ بی جے پی انتخابات سے قبل بالخصوص ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے زعم میں دعوے کر رہی تھی کہ وہ اس مرتبہ ازخود 370 نشستیں حاصل کرے گی اور اپنے این ڈی اے اتحادیوں کے ساتھ اس نے 400 نشستوں کا نشانہ مقرر کیا تھا اور اس کے لئے اب کی بار 400 پار کا نعرہ دیا گیا تھا لیکن یہ نعرہ ایک مذاق ثابت ہو رہا ہے اور اس کا حشر بھی 2004 ء کے انڈیا شائننگ نعرے کی طرح ہوسکتا ہے۔

 

مذکورہ تمام امکانات کی صورت میں ایک بات مشترک ہے‘ وہ یہ کہ ہر صورت میں وزیراعظم نریندر مودی کا بت ٹوٹے گا یا پھر ان کی طاقت اور ان کی شبیہ کو دھکا لگے گا۔ اس امکان کے پیش نظر گزشتہ روز بی جے پی اور سنگھ پریوار کے کئی قائدین نے پیر کو مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کو ان کی سالگرہ پر گرمجوشانہ مبارکباد دی۔ کئی برسوں میں یہ پہلا موقع ہے جب گڈکری نے اس قدر دھوم دھام سے اپنی سالگرہ منائی یا پھر زعفرانی کیمپ کے عناصر نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا ہے جن کا ہمیشہ وزیراعظم مودی سے تقابل کیا جاتا رہا ہے اور جو سنگھ کے ایک بڑے گوشے کے لئے پسندیدہ لیڈر اور امیدوار رہے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی طاقت کم ہونے کی صورت میں یقیناً مودی کا گراف نیچے گرے گا اور گڈکری کو عروج حاصل ہوگا۔ حالیہ عرصے میں سنگھ اور بی جے پی کے درمیان دوریاں بڑھی ہیں۔ اس کا اثر لوک سبھا انتخابات کے دوران واضح طورپر دیکھا گیا ہے۔ صدر بی جے پی جے پی نڈا کا ایک بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سنگھ اور بی جے پی کے درمیان تعلقات میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ نڈا نے کہا تھا کہ بی جے پی کو اب آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے۔ مختلف ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں اب تک کے 6 مراحل کی رائے دہی میں کئی جگہ دیکھا گیا ہے کہ سنگھ نے بی جے پی سے ہاتھ اٹھالیا ہے‘ جس کا زمین پر اثر نظر آیا ہے۔ بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات سے قبل 400 پار کا نعرہ دیا تھا اور کئی گوشوں کے لئے یہ اتنا ناقابل یقین نعرہ بھی نہیں تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ نومبر 2023 ء میں منعقدہ اسمبلی انتخابات میں اس نے اپوزیشن کیمپ کو بری طرح شکست دیتے ہوئے راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھے تھے۔

 

اس کے بعد 22 جنوری کو رام مندر کی پران پرتشٹھا کا دھوم دھام سے اہتمام کیا گیا۔ بی جے پی کے لئے سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا اور وہ امرت کال کی سمت بڑھ رہی تھی۔ لیکن گزشتہ چند ماہ میں کچھ ایسا ہوا ہے جس کی وجہ سے کایا پلٹ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس صورتحال کے لئے کوئی ایک یا دو وجہ نہیں ہیں بلکہ کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ملک کے ماحول میں تبدیلی مارچ اور اپریل کے مہینہ میں شروع ہوئی جو بعض ماہرین کے مطابق اب ایک انڈر کرنٹ میں تبدیل ہوگئی ہے اور بی جے پی کو ویسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے تلنگانہ میں سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور بی آر ایس پارٹی گزرے اور انہیں ناقابل یقین شکست ہوئی۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت طویل عرصے سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)، سی بی آئی اور انکم ٹیکس جیسے اداروں کو استعمال کر رہی ہے۔ لیکن اس مسئلہ نے اس وقت عوام کو جھنجھوڑا جب چیف منسٹر دہلی اور عام آدمی پارٹی لیڈر اروند کجریوال کو آبکاری پالیسی اسکام سے متعلق منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا گیا۔ کجریوال کی گرفتاری سے عوام کے دلوں میں یہ خیال راسخ ہوا کہ واقعی مودی حکومت مرکزی ایجنسیوں کا استحصال کر رہی ہے۔ بی جے پی کے بڑھتے رتھ کو سپریم کورٹ نے بھی اس وقت ایک جھٹکا دیا

 

جب اس نے الکٹورل بانڈ اسکیم کو غیردستوری قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اس سے ہزاروں کروڑ روپیے کا کرپشن یا لین دین بے نقاب ہوا اور ایک صاف ستھری جماعت کی حیثیت سے بی جے پی کی امیج کو خود اس کے حامیوں میں داغ لگا۔ ہر بار لوک سبھا انتخابات میں بیانیے کی جنگ بھی ہوتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ میں اس مرتبہ اپوزیشن فاتح رہا۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی اور دوسرے اپوزیشن قائدین کے ان بیانات پر لوگ یقین کر رہے ہیں کہ یہ انتخابات ملک کی جمہوریت اور دستور کے تحفظ کے لئے ہیں۔ ان انتخابات میں موضوعات کا تعین بی جے پی یا مودی نہیں بلکہ اپوزیشن پارٹیاں کر رہی ہیں۔ بی جے پی نے 2014 ء اور 2019 ء میں ملک میں ذات پات کی شناخت کو زائل کرنے اور ہندوتوا شناخت کو ابھارنے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس مرتبہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوتوا کی شناخت پر ذات پات کی شناخت غالب آگئی ہے اور اس مرتبہ شمالی ہند کی ریاستوں میں ووٹرس ذات پات کی بنیاد پر ووٹ دے رہے ہیں۔ اس کا سہرا راہول گاندھی کے سر جاتا ہے جنہوں نے طبقاتی سروے کو اپنا مرکزی موضوع بنایا اور اس میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذات پات کے سروے کی تجویز بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے پیش کی تھی جو اب این ڈی اے میں ہیں۔ لیکن راہول گاندھی اور اپوزیشن کیمپ نے اس حساس موضوع کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔

 

ان لوک سبھا انتخابات میں سوشیل میڈیا کا بھی ایک اہم کردار رہا ہے۔ 2024 ء کے لوک سبھا انتخابات کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اس میں سوشیل میڈیا بالخصوص ایک یوٹیوبر دھرو راٹھی کا بھی تذکرہ ہوگا جنہوں نے گزشتہ چند ماہ سے نفرت کی سیاست کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے اور انہیں کروڑوں افراد بالخصوص نوجوانوں کی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔  جاریہ انتخابات میں بی جے پی کے زوال کی قیاس آرائیاں محض اندازے نہیں بلکہ خود بی جے پی قائدین بالخصوص وزیراعظم مودی اپنی بوکھلاہٹ سے انہیں درست ثابت کر رہے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے میں وزیراعظم سب کا ساتھ سب کا وکاس اور وکست بھارت کی بات کر رہے تھے لیکن جب پہلے مرحلے میں 102 حلقوں پر رائے دہی کے رجحان کا انہیں اندازہ ہوا، ان کا لب و لہجہ بدل گیا اور انہوں نے منگل سوتر، مغل، مٹن، مسلمان، مندر پر بلڈوزر اور تالے اور مُجرا جیسی باتیں شروع کر دیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہندو، مسلم سیاست سے بیزار آچکا ہے اور اپنے حقیقی مسائل مثلاً بیروزگاری اور مہنگائی کی یکسوئی چاہتا ہے۔ گزشتہ سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات کے بعد ملک میں جو ماحول تھا اس میں کوئی بھی سوچ بھی نہیں سکتا کہ چند ماہ بعد بی جے پی کا زوال ہوسکتا ہے۔ لیکن اب آثار بتا رہے ہیں کہ ایسا ہو رہا ہے۔

 

اگر واقعی یہ اندازے درست ثابت ہوئے تو 2024 ء کے انتخابات ملک کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے اور رائے دہندوں کے سر یہ سہرا باندھا جائے گا کہ انہوں نے ملک کو ڈکٹیٹرشپ سے بچا لیا ہے اور ملک میں ایک نئی صبح لائی ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button