نیشنل

اُردو میڈیا کا مستقبل تابناک۔ صحافیوں کو ضمیر کی آواز پر صحافت کا مشورہ

حیدرآباد، 13نومبر (پریس نوٹ) اردو میڈیا کا مستقبل تابناک ہے۔ صحافی حضرات اپنی ضمیر کی آواز پر صحافت کریں۔ نیو میڈیا، سوشیل میڈیا نے صحافتی میدان میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ تربیت یافتہ صحافیوں کی آمد سے اس میں بہتری آئے گی۔ ان مجموعی خیالات کا اظہار آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کے زیر اہتمام ”اردو میڈیا: ماضی، حال اور مستقبل“ کے زیر عنوان سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں ماہرین صحافت نے کیا۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد اردو صحافت کے 200 سالہ جشن کو یادگار بنانا ہے۔پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔
جنوبی ایشیاءکے ممتاز صحافی ڈاکٹر وائل ایس ایچ عواد نے ڈاکٹر عواد اردو زبان کے ذریعہ ہندوستانی ثقافت سرحدوں کو پار کر کے مختلف ممالک میں پہنچی۔ عرب علاقوں میں تقریباً 80 لاکھ ہندوستانی موجود ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو صرف اردو جانتے ہیں اس کے باوجود وہاں پر رہنے میں انہیں کوئی دقت نہیں ہے۔ اس سے اردو کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار نے کہا کہ جنوبی ایشیاءمیں سب زیادہ سمجھی جانے والی زبان انہیں سیکھنی پڑی۔
وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے اپنے صدارتی خطاب میں کانفرنس میں شرکت کرنے پر مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کے یونیورسٹی کے 32 کیمپس ہیں اور ریگولر اور فاصلاتی دونوں طرزوں سے تعلیم فراہم کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی نے ایک سال میں ملک بھر کے فاصلاتی طلبہ 20 ہزار ڈگریاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مانو میں 70 سے 75 فیصد طلبہ پہلی نسل کے سیکھنے والے ہیں اور پھر بھی انہیں اردو سے بے پناہ محبت ہے۔
جناب حسن کمال نے کہا کہ اردو کا ماضی متاثر کن رہا ہے حال کچھ کمزور نظر آتا لیکن اس کا مستقبل روشن ہے۔ انہوں نے آن لائن میڈیا کے باعث پرنٹ میڈیا نقصان کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن میڈیا سے اخبار چلانے کے اخراجات کم ہوں گے کیونکہ اب پرنٹنگ کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے ممتاز نغمہ نگار اور مصنف جاوید اختر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ا ±ن کے مطابق آن لائن میڈیا کے بڑھنے سے لوگ زیادہ سنیں گے اور کم پڑھیں گے اور سن کر لوگوں کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ جسے ہندی سمجھتے ہیں وہ حقیقت میں اردو ہے۔
معروف صحافی اور رکن پارلیمنٹ سوپن داس گپتا نے کہا کہ پہلا اردو، ہندی اور فارسی اخبار کلکتہ سے شائع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ خود مختلف زبانوں کو اپناتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کولکتہ میں جہاں سے اردو صحافت شروع ہوئی تھی وہاں کچھ اردو اخبارات زوال کا شکار ہوئے۔ ان کے مطابق اردو صحافت کا مستقبل ڈیجیٹل میڈیا میں مضمر ہے۔
آئی آئی ایم سی، نئی دہلی کے ڈائرکٹر پروفیسر سنجے دویویدی نے کہا کہ ہندوستان میں کہانی کہنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ یہاں پر پنچ تنتر، رامائن وغیرہ لکھی گئیں۔ انہوں نے جدوجہد آزادی میں صحافت کے کردار کے بارے میں بتایا اور ہندوستان میں انقلاب کا باعث بننے والی اردو زبان پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی زبانوں میں واپس جائیں اور ایسے ابلاغ کار پیدا کریں جو انقلابی جذبے کو صحافت کے میدان میں واپس لے آئیں۔
ڈاکٹر قدیر احمد، بانی شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز نے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز کا تفصیلی تعارف کرایا اور گروپ اور اردو یونیورسٹی کے درمیان تعلقات کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کسی فرد کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے اپنی مادری زبان جاننے کی ضرورت پر زور دیا۔
جناب حذیفہ وستانوی نے کہا کہ اردو کے چاہنے والوں اور بولنے والوں کا تعلق تمام مذاہب اور خطوں سے ہے۔ انہوں نے جدوجہد آزادی میں اردو زبان کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے اردو کو آن لائن پر زیادہ سے زیادہ استعمال کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اس میں اردو یونیورسٹی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
اس موقع پر شعبہ کا لیب جرنل ”اظہار“ کی رسم اجراءانجام دی گئی۔ ساتھ ہی کانفرنس کے مقالوں کی تلخیص کا اجراءبھی عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ جناب شکیل حسن شمسی کی ”ماس میڈیا اور صحافت“، پروفیسر شاہد حسین کی ”طرفہ تماشہ“؛ جناب محمد ولی الدین کی ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی“ اور جناب اشرف علی کی ”کارپوریٹ میڈیا :ایک جائزہ“ کا اجراءبھی عمل میں آیا۔ جناب شاہد لطیف، انقلاب ، ممبئی؛ جناب مرزا قمر الحسن بیگ، صدر نشین، جامعہ کوآپریٹیو بینک؛ محترمہ کامنا پرساد، بانی جشن بہاراں؛ جناب شکیل حسن شمسی، جناب حذیفہ وسطانوی نے بھی خطاب کیا۔ پروفیسر احتشام احمد خان، ڈین اسکول برائے ترسیل عامہ و صحافت نے خیر مقدم کیا۔ پروفیسر محمد فریاد، صدر شعبہ ایم سی جے نے کارروائی چلائی۔ ڈاکٹر معراج احمد مبارکی نے شکریہ ادا کیا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button