جنرل نیوز

ہندوستان کا آئین تہذیبی اقدار، اتفاق رائے اور جبر کی ناپسندیدگی کا مجموعہ

اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر راجیو لوکھن کا خصوصی لیکچر۔ پروفیسر عین الحسن کی بھی مخاطبت

حیدرآباد، 22 نومبر (پریس نوٹ) ہماری آزادی کے بعد کی تاریخ ہمارے آئین سے شروع ہوتی ہے۔ ہندوستان کا آئین تہذیبی اقدار، اتفاق رائے کی خواہش اور جبر کی ناپسندیدگی کا مجموعہ ہے۔ اسے مزید مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تاکہ اقدار کو مضبوط کیا جا سکے۔جب ہم تاریخ پڑھتے ہیں تو ہم اسے مکمل طور پر نہیں پڑھ پاتے۔ اور ہمارے پاس بہت کم پیشہ ور مورخ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر راجیو لوکھن، پنجاب یونیورسٹی نے کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، یو جی سی۔ مرکز فروغ انسانی وسائل کے زیر اہتمام ایک خصوصی لیکچر میں کیا۔ لیکچر کا عنوان ”ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد – ہندوستانی انداز میں جمہوریت کی تشکیل“ تھا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔
پروفیسر لوکھن نے کہا دستور ساز اسمبلی کے 60 فیصد مسلم اراکین نے پاکستان میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ جمہوری ہندوستان میں پہلے انتخابات میں 3 کروڑ خواتین نے ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کیا۔ اس طرح عوام کو با اختیار بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آئین کی ضرورت تھی کیونکہ ایک بنیادی خیال تھا کہ ایک اچھا معاشرہ وہ ہے جس میں بہتر اصولوں کے تحت حکمرانی کی جائے اور یہ قوانین مذہبی اُصول پر مبنی نہ ہوں۔ہم نے ان اصولوں کی بنیاد پر آئین بنایا ہے کہ ملک میں ووٹ کا حق تمام بالغ رائے دہندوں (خواندہ و ناخواندہ) کے لیے دستیاب ہوگا۔ مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے کہا کہ ہندوستانی آئین مو ثر حکمرانی پر مبنی ہے۔ جس تمام فرقوں، مذاہب اور علاقوں کے لوگوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ پروفیسر سنیم فاطمہ، ڈائرکٹر مرکز نے مہمان کا تعارف پیش کیا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button