مضامین

ہم نے کینیڈاکے جنگل میں رات گزاری

ازـ : حافظ قاری ڈاکٹر محمد نصیر الدین منشاوی،   استاد شعبۂ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی،  حال مقیم :کینیڈا۔

             میں اور ارشدی اپنے فرزند احمد عبدالبصیر فیضان جو کہ کیلگری،البرٹا،کینیڈا میں آئی ٹی انجینیئر اور بزم اردو کینیڈا کے سیکریٹری ہیں،ان کی دعوت پر کیلگری آئے ہوئے ہیں۔ کیلگری دراصل ایک ڈیڑھ سو سالہقدیم شہر ہے،ہر طرف ہرے بھرے کھلے میدان میلوں میل سبزہ اور صاف شفاف سڑکوں پر فراٹے بھرتی ہوئی کاریں،ہرے بھرے درخت حد نظر تک دکھائی دیتے ہیں۔ان وسیع سبزہ زاروں پر کہیں نئے نئے مکانات تعمیر ہوئے ہیں تو دوسری طرف خوبصورت سجے سجائے رنگ و روغن میں نہائے دو منزلہ مکانات کا سلسلہ ہے جو قد و قامت میں اتنا یکساں ہے کہ آپ ایک انچ بھی اونچ نیچ کا فرق نہیں کر سکتے۔آبادیوں سے دور بڑے بڑے شورومز ہیں شاپنگ مالز ہیں چائے خانے ہیں،کھیل کے میدان ہیں اور ہر چیز اتنی صاف ستھری ہے کہ بیان کے باہر،دھول دھپاڑے کا نام و نشان نہیں۔آج 12؍ اگست ہفتے کا دن ہے اور آج ہم البرٹا کی پہاڑیوں کے درمیان جنگل میں رات گزارنے جا رہے ہیں جسے یہاں کیمپنگ کہا جاتا ہے۔ماؤنٹ رینڈل دراصل ایک خوبصورت پہاڑ ہے جس کے دامن میں دریا بہتاہے جو کہ پہاڑوں پر برف (گلیشرز) پگھل کر بہنے والے پانی کا نتیجہ ہے. اس کی سیدھی جانب سلفر ماؤنٹین ہے اور چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ بینف((Banf کی جنوبی جانب تقریبا ساڑھے سات کلومیٹر تک چلا گیا ہے اور انہی پہاڑیوں کے درمیان ندی کے کنارے ہزاروں سال پرانے قدرتی طور پر بنے ہوئے ہو ڈوز بھی موجود ہیں۔ جو دراصل پانی ہوا اور پگھلے ہوئے برف اور برفانی مواد کے ملاپ کا نتیجہ ہے اور یہ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کے شکل میں ہیں اور ان ٹیلوں پر گہری گہری لکیریں ہیں جو کہ قدرتی طور پر بنی ہے ہم ہندوستانیوں کے لیے یہ ایک حیرت انگیز قدرت کا نظارہ ہے… اس کو گزند پہنچانا یہاں جرم ہے… خیر بات دوسری طرف ہو گئی ہم بات کر رہے ہیں کیمپنگ کی… صبح ہلکا سا ناشتہ کر کے ہم ماؤنٹ رینڈل کے دامن میں گھنے جنگل میں جہاں پر ہر طرف کرسمس کے درخت اونچے اونچے کروڑوں کی تعداد میں ہیں کیمپنگ کرنے آئے ہیں۔

             کیمپنگ کیا ہے؟ کیمپنگ دراصل ایک انگریزی لفظ ہے جس کے معنی ہیں کچھ دنوں کے لیے شہر کی ہنگامہ آرائیوں سے دور رہ کر قدرتی ماحول میں دن و رات گزارنا اور اپنے آپ کو قدرتی ماحول کا حصہ بنانا۔

             البرٹا میں سال بھر میں چار ہی مہینے وہ ہوتے ہیں جون ،,جولائی، اگست اور ستمبر جہاں لوگ جوق در جوق سیر و تفریح کے پروگرام بناتے ہیں اور پھر ہفتہ و اتوار تعطیل کے دن سب جنگلوں اور جھیلوں پہاڑوں اور وادیوں میں نظر آتے ہیں۔کیونکہ اکتوبر سے پھر ٹھنڈاور برف باری شروع ہوجاتی ہے۔ کیمپنگ کے لیے حکومت کی جانب سے مخصوص ایام میں ٹکٹ دیے جاتے ہیں اور شہری اتنے بے چین رہتے ہیں کہ ادھر ٹکٹوں کی بکنگ کھلی ادھر کوٹا مکمل ہو گیا۔چھ چھ مہینے سے لوگ انتظار کرتے ہیں۔اس انتظار میں حیدرآباد کے دو سگے بھائیوں جناب زین الدین (زین بھائی) اور ڈاکٹر مسیح الدین (مسیح بھائی) 25 حیدرآبادی خاندانوں کے لیے (25) پچیس ٹکٹ بک کر لیے اور فی کیمپ یعنی خیمہ کا کرایہ 30 ڈالر کینیڈین ادا کر دیے۔ 25 خاندانوں کے تقریبا سو سے ایک سو بیس نفر ہیں۔ جن میں مرد و خواتین،لڑکے لڑکیاں اور شیر خوار بچے بھی شامل ہیں۔کچھ لوگ کینیڈا کی دوسری ریاست ایڈمنٹن سے آئے ہیں فیضان کی دعوت پر جو اُن کے دوست ہیں۔اس وقت کیمپنگ میں ہمارے علاوہ اور بھی لوگ ہیں کچھ چینی ہیں کچھ یہاں کے مقامی ہیں اور کچھ عرب بھی ہیں، ہر ایک نے ایک جگہ مختص کی ہوئی ہے۔زمین صاف ہے اور ہر طرف ہریالی ہے درمیان میں پختہ سڑکیں بنی ہوئی ہیں اور جگہ جگہ سیمنٹ سے تیار کردہ بنچس ہیں، کہ سارے خاندان کے لوگ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکیں۔ کھانوں میں مختلف غذائیں ہیں عرب ہوں گے تو وہ عربی ڈشز بنا رہے ہیں،کینیڈین ہیں تو وہ اپنے لوازمات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، البتہ ایک چیز مشترک ہے کہ تقریبا ہر بینچ کے قریب ایک چولہا لوہے کا بنا ہوا ہے اور خاص طور سے کیمپ میں یہاں کی حکومت بڑے بڑے مودلوں(کٹے ہوئے جھاڑ کے بڑے بڑے ٹکڑے) کی شکل میں لکڑی فراہم کرتی ہے جس سے چولہے سلگائے جاتے ہیں اور ان گرم گرم چولہوں پر سبھی لوگ چکن باربینکیو کرتے ہیں یا اپنے شوق کے کھانے بناتے نظر آتے ہیں۔ حیدرآباد کے کیمپ کے لوگ صبح صبح  ہائکنگ کے لیے نکل گئے ہیں اورلیک لوئی کے پہاڑی پر پہنچے ہیں۔

            ہائکنگ کیا ہے؟۔ دراصل اونچے اونچے پہاڑوں پر سیر و تفریح کی غرض سے چڑھنے کا نام ہے یہ چڑھائی انسان کی اپنی قوت عمل اور قوت استوا ء پر منحصر ہوتاہے،کچھ لوگ آدھا گھنٹہ چڑھائی کے بعد تھک جاتے ہیں تو کوئی گھنٹوں بلکہ دنوں تک چڑھتے رہتے ہیں ہائکنگ ایک ایسی بدنی ورزش ہے جس میں سارے بدن کے اعضاء سر سے پیر تک فعال ہوتے ہیں۔

             حیدرآبادی کیمپ کی ہائکنگ کا عمل آٹھ گھنٹے میں مکمل ہوا،چار گھنٹے پہاڑ پر چڑھنا اور تقریبا چار گھنٹے اترنا۔پہاڑوں کے درمیان جھیلیں قدرتی طور پر بنی ہوئی ہیں اور پہاڑ کی اونچائی سے ان گھنے جنگلوں اور وادیوں کا منظر دلفریب ہے یہ تو وہ راستے ہیں جس کو حکومت کی جانب سے پختہ بنایا جا تا ہے ،کچھ ایسے کچے راستے بھی ہوتے ہیں جن پر ہر کوئی آسانی سے چڑھ نہیں سکتا بلکہ اس کے بعد کا درجہ تو پھر پیروں کے ساتھ ہاتھ پاؤں کو استعمال کرتے ہوئے اونچائیوں پر چڑھنا ہوتا ہے جس کو کلائمبنگ (Climbing) کہتے ہیں۔

            ہائکنگ سے واپس پہاڑوں سے نبردآزمائی نے بھوک کے دہانے کھول دئیے ہیں، لہذا کہیں بریانی ہے تو کہیں روٹی سالن تو کہیں کچھ میوہ جات سب نے اپنے اپنے توشے کھول لیے اور پیٹ کی آ گ بجھانے میں مصروف ہو گئے۔ لمبے لمبے ہرے ہرے اور گھنے گھنے درختوں کے سائے میں زمین پر ٹاٹ پٹری کا فرش بچھادیا گیا،اور قدرے فاصلے پر ایک دوسرے کے خیمے لگا دیے گئے ہیں اور ایک جگہ خوردو نوش کا سامان رکھنے کی مختص کر دی گئی ہے جہاں خواتین اور لڑکیاں سربراہی میں مصروف ہیں اور کچھ مرد حضرات بھی ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ کہیں سبزے پر فولڈنگ والی کرسیاں رکھی ہوئی ہیں بس جس کا دل جہاں چاہے اس کھلے میں بیٹھے لیٹے ہر طرف تازہ ہوا اور ہلکی سی گرمی اور ہاتھوں میں رزق کیا کہنے ہیں سبحان اللہ۔

             آدھے گھنٹے میں سب سیر ہو گئے تو اب نماز کی فکر ہوئی چنانچہ سب نے وضو بنایا اور ظہر و عصر کی قصردو دو رکعت الگ الگ ایک ہی وقت میں پڑھ لی۔

             آج کی رات چکن باربیکیو کا پروگرام ہے۔تقریبا 120 لوگوں کے لیے کئی کلو مرغ کٹوا کر لایا گیا اور اب اسے مصالحے لگا کر (Marinate) کر کے رکھ دیا گیا ہے تاکہ گوشت نمک مرچ اورمصالحوں کا اثر اچھی طرح قبول کر لے اور خوبی یہ ہے کہ پورے کا پورا باورچی خانے کا کام یہاں مرد کر رہے ہیں۔ کوئی چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں لا رہا ہے تو کوئی اس میں آگ لگانے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی اس آگ کو بھڑکانے کے لیے پنکھے جھپک رہا ہے تقریبا دس پندرہ نوجوان ہیں جو اس کام میں مصروف ہیں دوسری طرف خواتین کی محفل جمی ہوئی ہے قاریہ ارشدی سے کچھ قرأت و نعت سنی جا رہی ہے تو بعدازاں نوخیز لڑکیاں انتاکشری کھیل رہی ہیں۔ بچوں میں کوئی سائیکل چلا رہا ہے تو کوئی جھولا جھول رہا ہے۔ ایک طرف بڑے لوگوں کی محفل سجی ہے جس میں قاری محمد نصیر الدین کی قرأت اور مولانا ارشد بشیر مدنی کی وعظ و نصیحت کے علاوہ اپنے اپنے ماضی کے واقعات اور بچپن کی یادوں کو ذہن کے نہا خانوں میں تلاش کرتے ہوئے اپنے بچپن اور وطن کی یاد کو تازہ کیا جا رہا ہے۔شعر و شاعری کا بھی ذوق پورا کیا جا رہا ہے غرض یہ کہ مصروف زندگی کے بعد میسر آنے والے ان فارغ اوقات کو خوب انجوائے کیا جا رہا ہے۔دیکھتے دیکھتے ڈھائی گھنٹے ہو گئے اور چولہا جھپکتے جھپکتے جب اعزازی باورچیوں کی آنکھیں لال ہو گئیں تو پھر گرم گرم سیخوں پر بھنے جانے والا چکن باربیکیو بھی پوری طرح سرخ ہو گیا۔اس سے پہلے کہ جنگل کو رات کی کالی زلفیں اپنے آغوش میں لے لے اور اندھیرا چھا جائے طعام ٹیبل سجا دیا گیا ہے۔مایونیز اور ادرک لہسن اور ٹماٹر کی چٹنی کو بھی ترتیب سے رکھ دیا گیا کہ باربیکیو کے مزے کو دو بالا کر دیا جائے۔

             پہلے پہل بکھرے ہوئے بچوں کو آواز دے کر دعوت طعام دی گئی ان کے ہاتھوں میں سامانِ شکم سیری حوالے کرنے کے بعد لڑکیوں اور خواتین کو لذت کام و دہن کی ڈیوٹی پر لگا دیا گیا۔ اس کے بعد باری آئی مردوں کی تو ہر ایک کے ہاتھ میں ایک پیپر پلیٹ میں گرم گرم بھنی ہوئی مرغ کے دو ٹکڑے۔

             اب رات کے ساڑھے آٹھ بجے ہیں اور یہاں ابھی بھی دن ہے اور ایک گھنٹہ بعد نماز مغرب کا وقت شروع ہوتا ہے جب سورج پہاڑوں کے اوٹ میں پوری طرح اپنا چہرہ چھپا لے۔اس وقت اب یہ منظر دیکھ کر کوئی کہے کہ ’’جنگل میں منگل‘‘ ہے تو پھر یہ فقرہ پوری طرح اس ماحول پر صادق آ تا ہے۔بلند و بالا ایسپروس اور سبل پائن فرکے درختوں کے درمیان سے چلنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ہمارے جسموں کو جب سرد کرنے لگیں تو گرم گرم حیدرآبادی بریانی اور سیخ کباب نے اپنا حق ادا کر دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ محفل اور گرم ہو گئی جب ہمارے ہونٹوں نے چائے کے گرم گرم چسکے لیے۔جب انسان کو خوشیاں میسر ہوں تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا دیکھتے دیکھتے شام نے رات کا لبادہ اوڑھ لیا اور پھر یہ محفل عشائیہ ختم ہو گئی۔

             رات کا سناٹا چھانے لگا آسمان پر تار ے شفاف نظر آنے لگے۔تاروں کی جھرمٹ نے آسمان کی خوبصورتی کو چار بالا کر دیا۔ اتنی کثرت سے تارے شاید ہم نے بچپن میں دیکھے ہوں گے یا دوران سفر ان تاریک راتوں میں گھنے جنگل یا گھپ اندھیرے میدانوں سے گزرتی ریلوں سے دیکھے ہوں گے اس کو بھی سالوں ہو گئے ہیں۔ جنگل میں منگل والی خوشیوں کا شکریہ ہم نے بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کر کیا۔اذان دی گئی اور دو اقامتوں کے ساتھ ہم نے نماز باجماعت مغرب و عشاء ادا کر لی کچھ کو نصیب میں تہجد بھی آگئی۔

     سونے سے پہلے ہم کو صاف صفائی کرنا تھا کیونکہ کینیڈا کی حکومت اس سلسلے میں بہت سنجیدہ ہے کھلے عام گندگی تو ہم نے کہیں بھی نہیں دیکھی ہر طرف صاف ستھرا ماحول رہتا ہے۔لہذا یہاں پر باقاعدہ طور پر کچرے کے بڑے بڑے لوہے کے ڈبے (Boxes) بنے ہوئے ہیں تو جتنے لوگ کیمپ میں ہیں سب متعلقہ ڈبوں میں ہی کچرہ ڈالتے ہیں۔چنانچہ جنگل میں بھی یہ صفائی دیکھنے کو ملی۔پہلے سے اس کا انتظام کر لیا جاتا ہے بڑے بڑے پلاسٹک کے تھیلوں کو ڈسٹ بن(Dustbin) بنا لیا جاتا ہے اور سارا کچرا اس میں جمع کر کے لوہے کے ڈبوں کی نذر کر دیا  جاتا ہے۔ یہاں ہر گھر کے سامنے تین رنگ کے ڈبے نظر آتے ہیں ایک ہرا،ایک اودا اور ایک کالا، جتنی پلاسٹک اور کارڈ بورڈ یا اٹے اور کاغذی اشیاء ہوتی ہیں وہ اودے ڈبے میں ڈالی جاتی ہے تاکہ ان تمام اشیاء کو (Recycle) کیا جا سکے یعنی دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاسکے۔ہرے ڈبے میں کیلے کے چھلکے بھٹّے کے چھلکے انڈے کے چھلکے وغیرہ اشیاء ڈالی جاتی ہیں اور ان کو بھی Recycle کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔رہا بیکار کچرا اور کوڑا تو وہ کالے ڈبے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کوشہر سے کہیں دور ضائع کر دیا جاتا ہے۔

             صاف صفائی کے بعد سب اپنے اپنے خیموں کا رخ کرنے لگے ویسے بھی اب گیارہ بجنے کو ہے اورگیارہ بجے کے بعد نہ کسی خیمے میں روشنی جلانے کی اجازت ہے اور نہ شور شرابہ کرنے کی…حکومتی پہریدار وقتاً فوقتاً چکر لگاتے رہتے ہیں اور ہدایات دیتے رہتے ہیں۔

             ہم تو خیر دینی اجتماعات اور رفاہی کاموں میں خیمے دیکھے تھے لیکن نئی نسل ان خیموں سے بالکل نا آشنا تھی لیکن اس نوخیز نسل نے’’ار طغرل‘‘ترکی کا مشہور زمانہ سیریل دیکھا تو ان کو اندازہ ہوا کہ’’خیمہ‘‘اسے کہتے ہیں.

    ہم جس جگہ کیمپ کیے ہوئے ہیں وہاں ہمارے علاوہ پچاس کے قریب دوسرے لوگ بھی ہیں جو خیمے لگائے ہوئے ہیں اب آہستہ آہستہ کر کے خیموں میں نظر آنے والی ٹارچ کی روشنیاں گل ہونے لگیں۔ جب ہر خیمے میں اندھیرا چھا گیا تو یہ منظر دیکھنے کے لائق ہے کہ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے اور سناٹا اس طرح کے پتہ بھی گرے تو آواز آئے… خیمے کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے مگر ہیں سب واٹر پروف(Waterproof) اگر بارش بھی ہو جائے تو اس پر اثر نہ کرے۔ اندر گدے ڈال دیے اور قاعدے سے تکیے لگا دیے اور پہننے اور اوڑھنے کے لیے گرم ہو تو کیا کہنے۔ سبحان اللہ! پھر تو جنگل میں رات گزارنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔فیملی والے سب اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے میں اور عبدالحفیظ دونوں ایسے ہیں کہ بغیر فیملی والے۔میری فیملی تو واپس چلی گئی اور عبدالحفیظ کی فیملی تو ہندوستان گئی ہوئی ہے۔ ویسے بھی اتنی جلدی سونے کی عادت کہاں ہے۔ کیمپ سائٹ سے آسمان کا نظارہ ویسے بھی دل افروز تھا لیکن کسی نے مشورہ دیا کہ قریب ہی Lake Menawanka   اور two Jack lake سے تاروںکے منظر اور زیادہ حسین ہو جاتے ہیں ہم نے ارادہ کیا اور دو چار لوگ اور ہمارے ساتھ ہو گئے۔کار کیمپ سائٹ سے اندھیرے میں جو نکلی ہے تو راستہ تمام اندھیرا ہی اندھیرا،ماحول سنسان…نہ آدم نہ آدم زاد اور کالی سڑک ہے جس کو ہماری کار کی لائٹ روشن کر رہی ہے یا پھر مخالف سمت سے آنے والی اکا دکا  کاروں کی روشنیاں کچھ دیر کے لیے اطراف کے ماحول کو روشن کر دیتی ہیں اور ہماری آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوتی ہے اور پھر ہر طرف اندھیرا  ہی اندھیراسڑک کے دونوں جانب دیو ہیکل لمبے لمبے درخت ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے جنات ہوں کہ صف باندھے کھڑے ہوں۔

ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ رات کے 12 بجے کے قریب ہے اور اب کون اس سنسان جگہ کوئی آ دم ہوگا۔ مگر ہماری آنکھیں اس وقت پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب ہماری کار کی روشنی میں مینا وانکا جھیل کے کنارے لیٹے ہوئے کچھ گورے گورے لوگوں پر پڑی توایکدم ٹھٹک گئی کہ کیا واقعی ہم جنات کو تو نہیں دیکھ رہے ہیں لیکن جب چہرے صاف نظر آئے تو وہ ایک فیملی آرام سے بستر بچھائے کھلے آسمان اور تاروں کے بن کے نیچے آرام کر رہی ہے بلکہ قریب ہی کھانے پینے کا سامان بھی پڑا ہے اور سرگوشیوں کی آوازیں بھی ہمارے کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔کار سے اتر کر ہم نے جب آسمان کو دیکھا تو بس دیکھنے ہی رہ گئے  سارا آسمان تاروں سے بھرا پڑا ہے نہ صرف یہ بلکہ گاہے بہ گاہے شہاب ثاقب آسمان سے ٹوٹ کر خلا میں غائب ہو رہے ہیں اور اس لا مثال منظر کو قید کرنے کے لیے لوگ باضابطہ کیمرے اسٹینڈ کو لگائے بیٹھے ہیں جیسے ہی کوئی تارہ ٹوٹ کر زمین پر آتے آتے غائب ہو جاتا ہے تو اس کا عکس جھیل کے پانی میں آسمان کے تاروں کے عکس کے درمیان ایک آسمانی راکٹ کی طرح نظر آتا ہے۔اس منظر کو دیکھ کر بے ساختہ ساتھیوں کی زبان پر سورہ ملک کی یہ آیت مبارکہ جاری ہو گئی  ’’ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء  الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنَاہَا رُجُوماً لِّلشَّیَاطِیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ  (سورۂ ملک آیت نمبر پانچ)

 ترجمہ: ہم نے تمہارے قریب کے آسمانوں کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے۔اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ان شیاطین کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے بپا کر رکھی ہے۔

            کاش ہماری بینائی اس لائق ہوتی کے ان شیاطین کی درگت دیکھ سکتی جو کہ ان لپکتے شولوں سے مار کھانے کے بعد ان کی ہو رہی ہوگی۔جھیل اپنے سینے پر تاروں بھرے آسمان کی حسین و جمیل تصویر سجا رکھی ہے…سناٹا ہے اورہر طرف اندھیرا صرف سرگوشیاں فضا میں سنائی دے رہی ہیں جو لوگ کھلے آسمان کے نیچے بستر بچھا کر آرام کر رہے ہیں ایک دو نہیں بلکہ کئی خاندان ہوں گے۔ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان نظر آرہا ہے جب جب کسی گاڑی کی لائٹ ان پر پڑرہی ہے۔ہم نے بھی اپنے اپنے فون نکالے کہ آسمان اور تاروں کے اس نادر منظر کو اپنے کیمرے میں قیدکر سکیں لیکن نہیں اور ہرگز نہیں شاید دنیا کو اس بات سے اتفاق نہ ہو لیکن ہماری تو رائے یہی ٹھہری کہ اللہ نے انسان کے جسم میں جو کیمرے فٹ کیے ہیں اس رب ذوالجلال کی عظیم کائنات کو دیکھنے کے لیے ان سے بہتر کیمرے شاید ہی قیامت تک کوئی ایجاد کر سکے۔دل تو چاہ رہا ہے کہ رات ختم نہ ہو اور آسمان کا یہ حسن ہم دیکھتے ہی رہیں مگر نہیں ہماری آنکھیںتھک جائیں گی آسمان کی اس خوبصورتی کو آنکھوں میں بسائے ہم جب ٹو جیک لیک(two Jack lake) گئے تو یہاں کا منظر اور بھی خوبصورت ہے اور یہاں بھی لوگ پڑاؤ ڈالے ننگے آسمان کے نیچے ٹمٹماتی رات کے مزے لے رہے ہیں اور اب امید یہی ہے کہ یہ لوگ رات یہیں گزاریں گے کچھ وقت یہاں بھی گزار کر کالی رات کا سینہ چیرتے ہوئے ہم کیمپ سائٹ آگئے۔ یہاں انتہائی سیاہ ماحول اور سناٹا ہے۔اب رات کے دو بجے ہیں سب اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے اورخواب خرگوش ہوگئے ہیں۔ میں اور عبدالحفیظ بھی خیمے میں آگئے۔سردی بڑھتے بڑھتے پانچ ڈگری ہو گئی ہے ہاتھ پیر سرد ہونے لگے اب تو آگ بھی جلا نہیں سکتے تھے کہ کم از کم ہاتھ پیرتاپ لیے جائیں عبدالحفیظ تو اندر لیٹتے ہی سو گئے ،میں کسی ضرورت سے باہر آگیا اور ٹھہرے ٹھہرے جائزہ لینے لگا۔اور ہماری نیند کو پر لگ گئے۔اب طلسماتی خیالات ہم کو ستانے لگے بچپن میں بھوت پریت اور جنات کے جو واقعات سن رکھے تھے وہ نظر آنے لگے کہیں کوئی آواز آتی تو کان ادھر لگ جاتے اندھیرے میں گھور گھور کر کچھ دیکھنے کی نہ کام کوشش کرتے تخیل و تصور میں ہمارے سامنے اب شیاطین مختلف ہئیتوں اور خوفناک ڈراؤنی صورتوں میں پاؤں میں گھنگرو پہنے ناچتے ہوئے نظر آنے لگے اور ان گھنگرؤوں کی چھن چھن کی آوازیں دل کی دھڑکنوں کو بڑھانے لگیں کہیں کوئی سفید چادر میں لپٹا جاتا ہوا نظر آنے لگا تو ہمکو کہیں اونچے اونچے کالے کالے  درخت ہم کو ڈرانے لگے۔کسی خیمے سے خراٹوں کی آوازیں اس قدر آئیں کہ ہم  شیر کی غرّاہٹ سمجھ کر خیمے میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔خیمے میں داخل ہوتے ہی یہاں کا منظر اور خوفناک ہے کچھ دکھائی نہیں دیتا اور پھر داخل ہوتے ہی ہمارا وجود کسی چیز سے ٹکرایا اور اس نے حرکت کی تو ہماری چیخیں کیا نکلتیں سانسیں ہی رک گئیں کہ بھائی ہم سے پہلے خیمے میں یہ کیا بلا ہے یہ تو بھلا ہو عبدالحفیظ کا انہوں نے اندھیرے میں آواز دی!  جی قاری صاحب!  آواز سن کر ہماری جان میں جان آئی ورنہ اس دیو مالائی ماحول میں ہم تو بھول ہی گئے تھے کہ عبدالحفیظ کبھی کا خیمے میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔

             اندھیرے خیمے میں اب ہم کیا خاک سوتے۔دن میں جو قصے دوست احباب نے ریچھوں کے جسے یہاں انگریزی میں Bear کہا جاتا ہے سنائے تھے کہ وہ رات کو غذا کی تلاش میں نکلتے ہیں اور فلاں اور فلاں اور انسانوں کو دیکھتے ہیں تو چیر پھاڑ دیتے ہیں اور پھر ہم جنگل میں سو رہے ہیں کہیں سے کوئی سانپ نکل آئے اور ہم سوتے رہیں اور وہ ہم کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھ کر بڑے پیار سے ایک بوسہ دے دے تو پھر اب روز قیامت ہی اپنوں سے ملاقات ہوگی۔اب کیا سوتے باہر ریچھ کا ڈر اندر سانپ کاڈر اطرا و اکناف میں جھینگروں کی خوفناک آوازیں۔ہم کو حماقتی فیصلہ پر بڑا ملال ہونے لگا کہ کاش ہم بھی گھر جا کر آرام سے نرم نرم اور گرم گرم بستر پر سو جاتے نہ یہاں جنگل میں رکتے اور نہ یہ قیامت ہم پر برپا ہوتی۔ہم اپنے نامکمل بستر پر گھٹنوں میں منڈی (سر) ڈالے انہی خیالوں میں گم ہیں کہ دفعتاً ہمارے خیمے سے دور اندھیرے سناٹے میںسِرسِرکی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ہم چونک گئے اور پھر جیسے جیسے وہ آوازیں ہمارے خیمے کے قریب آنے لگیں ہمارے حواس جواب دینے لگے۔

اندھیرے خیمے میں آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا کلیجہ منہ کو آنے لگا ہم خیمے میں کچھ دیکھ نہ سکتے تھے لیکن پھر بھی  خیمے کے ایک جانب ہماری آنکھیں گڑ گئیں کون ہوگا کس کی آواز ہوگی جب آواز قریب ہو گئی اور بالکل قریب تو ہم اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ قریب تھا کہ ہم گھبراہٹ کے عالم میں اونچی نیچی ٹیڑھی بنگی آوازیں نکالتے ہوئے ہیبت سے بازو سو رہے عبدالحفیظ سے لپٹ جاتے۔سِرسِرسِرسِر  کی آوازیں پھر ہم سے دور ہونے لگیں جب کچھ اور دور ہو گئی تو ہم نے راحت کی سانس لی پانچ ڈگری کی سردی میں ہم کو 105 ڈگری بخار چڑھ چکا تھا. اس کے باوجود ہم کو کھجلی ہونے لگی آخر یہ آوازیں کس کی ہیں ذرا دیکھ تو لیں انسان بھی کیا خوب ہے،’’ڈرتا بھی ہے کرتا بھی ہے‘‘ خیمے کے تینوں طرف زپ(zip) لگی ہوئی کھڑکیاں ہیں ہم نے لرزتے ہاتھوں سے اپنا فون ڈھونڈا اور اس کی روشنی میں اس کھڑکی کے سرے کو تلاش کیا اور جلدی جلدی زپ ہٹا کر کھڑکی کے باہر دیکھا تو ہماری جان میں جان آئی کے آگے کچھ  دور پر بیت الخلاء ہے اور کوئی بندہ ٔمجبور اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے جا رہا ہے یہ سِرسِر کی آوازیں اس کے قدموں کی چاپ ہے تو بھلا ہو بیت الخلاء کے باہر لگی روشنیوں کا کہ اس نے ہمارے حواس تھما دیے ورنہ اگر منظر کچھ اور ہوتا تو ہماری چیخ و پکار سے صرف کیمپ ہی کیا سارا جنگل بھیڑیے کی گونج کی طرح گونج اٹھتا۔ہم نے زپ چڑھائی اور سکون کی سانس لی۔اب ہماری آنکھیں بھی جواب دے رہی تھیں ایک طرف نیند کا خمار سر چڑھ کر بول رہا تھا تو دوسری طرف جنگل کا خوف پیٹھ زمین سے لگانے دے نہیں رہا تھا۔پتہ نہیں کب ہم اس خوف کے عالم میں بیٹھے بیٹھے سو گئے اور کب زمین پر پڑ گئے گھنٹہ بھر بعد نیند سے بیدار ہوئے موبائل میں ٹائم دیکھا تو چار بج رہے ہیں۔سوا چار بجے نماز فجر کا وقت شروع تھا ہم نے یہی غنیمت جانا کہ نماز فجر ادا کر لی جائے چنانچہ وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر ہم نے خیمے میں اذان دی اور عبدالحفیظ کے ساتھ مل کر جماعت کر لی۔ عبدالحفیظ نے نماز کے بعد سوال کیا قاری صاحب نیند آئی ہم کیا خاک جواب دیتے بھلا ہو اندھیرے کا کہ اس نے ہمارے چہرے پر اطمینان کے پردے ڈال دیے شاید اگر روشنی ہوتی تو ضرور ان کو اندازہ ہو جاتا کہ رات ہم پر کیا قیامت گزری۔ہم نے ان کے جواب میں جی جی کہتے ہوئے ان کو مطمئن کر دیا کہ ہمیں نیند اچھی آئی جبکہ مارے خوف کے ہم پسینے میں نہائے جارہے تھے۔ جنگل میں صبح کے طلوع کا منظر دیکھنے کی بڑی خواہش تھی اور دنیا میں انسان کی ہر خواہش پوری نہیں ہوتی۔ غالبؔ نے کیا خوب کہا تھا:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے

            جب خیمہ گرم ہونے لگا تو دھوپ کی تمازت سے ہماری آنکھ کھل گئی خیمے سے عبدالحفیظ غائب تھے۔باہر کافی ہلچل تھی ہم نے اپنا بوریا بستر سمیٹا،کپڑے درست کیے باہر نکل آئے۔11 بج چکے تھے ہمارے منہ ہاتھ دھو کے آنے تک ڈاکٹر مسیح الدین ناشتہ لیے تیار کھڑے تھے ہمارے ہاتھ میں انڈے پراٹھے کا ناشتہ تھا مگر ہمارے وجود پر رات کا سحر طاری تھا۔ہم نوالے تو لے ضرور رہے تھے لیکن ہم ابھی بھی اِدھر اُدھر گھورتے ہوئے ان سفید سایوں اور گھنگرو کے پاؤوں کو دیکھنے کی کوشش کررہے تھے جو کہ گزری ہوئی رات کا حصہ تھے، مگر جنگل میں رات گزارنے کی ہماری قیمت انھوں نے پوری کی پوری وصول کرلی تھی۔ ہماری آنکھیں فضاء میںٹکٹکی باندھے ہوئے تھیں بائیں ہاتھ میں ناشتے کی پلیٹ اور سیدھے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا ہمارے منھ تک پہنچنے سے پہلے ہی رک گیا تھا پتہ نہیں اس کیفیت میں کس قدر ٹہرے رہے چلتے چلتے کسی بچے نے دھکا دیا تو ہم اپنی اصلی حالت پر لوٹ آئے اور پھر اس گرم کیمپ کا حصہ ہوگئے۔

٭٭٭

متعلقہ خبریں

Back to top button