مضامین

” اولاد کی "وداعی اور دوری” پر ماں باپ اندر سے ” ٹوٹ” جاتے ہیں”

ایس. ایم. عارف حسین. اعزازی خادمِ تعلیمات

       انسانی زندگی میں "عملِ جدائی” یا "وداعی” اسکی پیدائیش سے لےکر موت تک ایک لازمی اور فطری عمل ہے. اللہ تعالی نے کائینات کی ہر شے کے وجود کو فناء یا اختتام سے منسلک کیا ہے جسکے نتیجتہ میں قیامت  برپاء ہوگی اور اس پر یقین کامل ہی ایمان کہلاتا ہے.

    کائینات کے مالکِ حقیقی نے انسان کی پیدائش سے لیکر موت تک مختلف وداعی یا جدائی کی منزلوں کو زندگی کا حصہ بنایا ہے. یہ ایک کھلی حقیقت ہیکہ انسان  پیدائیش پر اپنی ماں کے بطن سے جدا ہوکر دنیا میں قدم رکھتا ہے وہیں نکاح یا شادی کے نتیجہ میں ایک بیٹی اپنے ماں باپ کے گھر سے وداعی لیکر اپنے شوہر کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے اور بیٹے روزگار کی تلاش میں اپنے ماں باپ اور بھائی بہن سے وداع ہوکر  ہزاروں میل دور  کا سفر اختیار کرتے ہیں. آخر کار انسان اپنی طبعی زندگی سے وداعی لیکر موت کی آغوش میں چلاجاتا ہے جو قدرت کا منشاء ہے.
   یہ حقیقت ہیکہ شادی کے بعد بیٹیوں کا گھر سے وداعی کا عمل اور روزگار کی تلاش میں بیٹوں کا گھر چھوڑکر ہزاروں میل کا سفر طے کرنا ماں باپ کو ذہنی و جسمانی طور پر اندر سے توڑ کر رکھ دیتا ہے. بچوں کی پیدائیش سے لیکر اٹھارہ بیس سال تک ساتھ زندگی گذارنے کے بعد شادی کے نتیجہ میں بیٹیوں کا اور روزگار کی تلاش میں بیٹوں کا گھر سے وداع ہونے پر ماں باپ کو اولاد کے ساتھ گذرے ہوے کھیل کود کا  ایک ایک گھنٹہ – خواہش کی تکمیل کیلیے ستانے کا ایک ایک دن – طبیعت کی خرابی پر روتے روتے گذری ایک ایک رات اور جسمانی نشونما کے ساتھ تعلیم کو حاصل کرنے میں بیتے ایک ایک سال کا احساس دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں کافی گہرائی سے ستاتا رہتا ہے. یوں کہا جاے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ ایک مخفی کیفیت ہوتی ہے جو ماں باپ کو ایک طرف بے ساختہ بہنے والے آنسووں کو چھپانے کی کوشش اور دوسری جانب اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کے رونے پر مجبور کرتی ہے جبکہ  ماں باپ کے چہرے پر پڑی مایوسی کی لکیریں-  دستی- ڈوپٹہ و ساڑی کے پلو – سراہنے کے تکیہ – جاے نماز میں جذب آنسوں اور سینہ میں چھپا درد ثبوت دیتا ہے اور اسکا گواہ صرف اور صرف اللہ تعالی ہوتا ہے اور اسی کے فضل کے نتیجہ میں ہی سانسیں چلتی ہیں.
"میرے چہرے کے نشانوں پہ تعجب نہ کرو ::
 پتھروں میں بھی بنالیتے ہیں رستے آنسوں "
 مزید یہ کہ اولاد کی جدائی اور دوری کی وجہ سے ماں باپ کا یہ عالم ہوتا ہیکہ وہ اپنے آپکو بالکل تنہا  ہی نہیں بلکہ مردہ محسوس کرتے ہیں اگرچیکہ دنیاوی مال و دولت کی فراوانی ہوتی ہے.
      لھذا یہاں یہ بات ثابت ہوجاتی ہیکہ ماں باپ کیلیے دنیاوی مال و دولت کے مقابل اولاد کا انکی نظر کے سامنے  رہنا ہی باعث خوشی اور حیات کا سبب ہوتا ہے.
قرآن و حدیث کے علم کی روشنی سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہیکہ ” اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہے” اگر انکی صالح تربیت کیجاے. انبیاء علیہ نے بھی نیک اولاد کیلیے اللہ تعالی سے دعا کی ہے تاکہ دنیا میں آنکھوں کو ٹھنڈک میسر ہو اور موت کے بعد انکے صالح اعمال اور دعا کے نتیجہ میں ثواب جاریہ ملتا رہے اور جنت میں اعلی مقام حاصل ہو.
     لھذا یہ امر واضح ہوجاتا ہیکہ ماں باپ اور اولاد کی باہمی محبت اور انسان کی انسان سے محبت ہی "انسانی زندگی کا اصل ہوتی ہے” اور یہی محبت کی کیفیت دنیاوی سکون بلکہ وجودِ کائینات کا عین سبب بھی ہے بلکہ یہ کہا جاے تو بیجا نہ ہوگا کہ بقاے کائینات بھی محبت پر منحصر ہے.
” سکوں ملتا ہے کچھ لفظ کاغذ پر اتار کر ;; 
 چیخ بھی لیتا ہوں اور آواز بھی نہیں آتی

متعلقہ خبریں

Back to top button