ٹرپل آر کے نام پر چھوٹے کسانوں کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں : کویتا

ٹرپل آر کے نام پر چھوٹے کسانوں کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں
حیدرآباد میں گول میز اجلاس اور دہلی میں جدوجہد کرنے کویتا کا اعلان
صدر تلنگانہ جاگروتی کلواکنٹلہ کویتا اپنے جنم باٹا پروگرام کے تحت ناگرکرنول ضلع کے دورہ کے دوسرے دن جنگا ریڈی گوڑم میں ریجنل رنگ روڈ (ٹرپل آر) سے متاثرہ کسانوں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر کسانوں نے اپنے درد و کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تین مرتبہ الائنمنٹ تبدیل کر کے بڑے لوگوں کی زمینیں بچائی جا رہی ہیں اور اس کے بدلے چھوٹے اور غریب کسانوں کی محدود زمینیں ٹرپل آر کے نام پر چھینی جا رہی ہیں۔
کویتا نے متاثرہ کسانوں کو یقین دلایا کہ تلنگانہ جاگروتی ان کی جدوجہد میں پوری طرح ان کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ابتدا میں ٹرپل آر کے لئے سیٹلائٹ سروے کے ذریعے پہاڑی اور غیر زرعی زمینوں سے الائنمنٹ طے کیا گیا تھا، تاہم بعد میں بااثر افراد کی زمینوں کو بچانے کے لئے بار بار سروے کر کے الائنمنٹ بدلا گیا اور اس کا بوجھ چھوٹے کسانوں پر ڈال دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹرپل آر سے متعلق زمین کا مسئلہ صرف ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ آٹھ اضلاع میں یہی صورتحال ہے۔ اگر کسی بڑے کسان کی کچھ ایکڑ زمین جاتی ہے تو اس پر زیادہ اثر نہیں پڑتا، لیکن جب چھوٹے کسان کی تھوڑی سی زمین بھی چلی جائے تو اس کا پورا ذریعہ معاش ختم ہو جاتا ہے، جس کی ہر سطح پر مخالفت ہونی چاہئے۔ کویتا نے جنگا ریڈی گوڑم اور اطراف کے دیہات کے کسانوں کی تحریک کو مکمل حمایت دینے کا اعلان کیا۔
صدر تلنگانہ جاگروتی نے بتایا کہ 5 جنوری کو ٹرپل آر سے متاثر ہونے والے آٹھ اضلاع کے کسانوں کے ساتھ حیدرآباد میں ایک گول میز اجلاس منعقد کیا جائے گا، جس کے بعد تمام اضلاع کے کسانوں کے ساتھ دہلی جا کر مرکزی وزیر نتن گڈکری سے ملاقات کی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ رنگ روڈ کو شہروں کو بائی پاس کرتے ہوئے بنایا جانا چاہئے، لیکن بھونگیر سے چوٹ اپل کے درمیان آبادی کے بیچ سے الائنمنٹ مقرر کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
کویتا نے کہا کہ سیاست سے بالاتر ہو کر جہاں بھی غلطی ہوگی، اس کی نشاندہی کی جائے گی اور وہ کسانوں کے ساتھ قدم بہ قدم چلیں گی۔
بعد ازاں کویتا نے آبپاشی منصوبوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گوداوری کے تحت کئی منصوبے تعمیر کئے گئے، اسی طرح کرشنا ندی کے ذریعے 25 لاکھ ایکڑ کو پانی فراہم ہونا چاہئے تھا۔ اگر سابقہ مشترکہ ریاست کے زیر التوا منصوبے مکمل کئے جاتے تو وسیع رقبہ سیراب ہو سکتا تھا، لیکن پالامورو-رنگا ریڈی جیسے اہم منصوبے بھی آج تک مکمل نہیں ہو سکے۔
انہوں نے ڈنڈی منصوبہ کے تحت گوکرام تالاب کے معاملہ پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ گوکرام میں 900 ایکڑ اور ایرویلی میں 600 ایکڑ زمین کی تجویز ہے، لیکن 1500 ایکڑ زمین حاصل کرنے کے باوجود صرف 2000 ایکڑ کو ہی پانی ملے گا، جبکہ بسواپور ریزروائر سے ایک لاکھ 80 ہزار ایکڑ کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس کے باوجود سابقہ بی آر ایس حکومت ہو یا موجودہ کانگریس حکومت، کسی نے بھی اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔
کویتا نے کہا کہ ایرویلی کے عوام نے احتجاجاً سرپنچ انتخابات کا بائیکاٹ کیا، مگر مقامی ایم ایل اے، اپوزیشن جماعتیں حتیٰ کہ الیکشن کمیشن نے بھی کوئی توجہ نہیں دی، جو انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ووٹ کا حق رکھنے والے عوام انسان نہیں ہیں؟
انہوں نے اعلان کیا کہ اگر فوری طور پر ضلع کلکٹر نے صورتحال کا جائزہ نہیں لیا تو آبپاشی وزیر اور وزیر اعلیٰ سے بھی اس مسئلہ پر جواب طلب کیا جائے گا۔ کویتا نے کہا کہ ڈنڈی منصوبہ ضرور بننا چاہئے، لیکن غیر ضروری ڈوب سے بچاؤ لازمی ہے۔ انہوں نے ایرویلی گاؤں اور ایرویلی تانڈا کے عوام کی جدوجہد کو ایک بہن کی حیثیت سے مکمل حمایت دینے کا اعلان کیا۔



