جنرل نیوز

حضور پاک علیہِ الصلوٰۃ والسلام سراپا جمال، مجسم کمال اور تمام بشری محاسن و فضائل کا حسین مجموعہ ہیں۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

حضور پاک علیہِ الصلوٰۃ والسلام سراپا جمال، مجسم کمال اور تمام بشری محاسن و فضائل کا حسین مجموعہ ہیں۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

حیدرآباد 2ستمبر(پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے ماہ ربیع الاول شریف کی نویں نشست بعنوان ،شمائلِ مصطفیٰ ﷺ قرآن کی روشنی میں،سے خطاب کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو دنیا و ما فیہا کے لیے کامل نمونہ اور سراپا ہدایت بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ کی سیرت، اخلاق اور شمائل ایسی جامع و کامل ہیں جنہیں خود قرآنِ حکیم نے بارہا بیان فرمایا ہے۔ قرآن کی آیات حضور اکرم ﷺ کی عظمت و رفعت کے ساتھ ساتھ آپ کی سیرتِ طیبہ اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:: "اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔”

یہ اعلان واضح کرتا ہے کہ آپ ﷺ کی ذات سراپا رحمت ہے، خواہ وہ انسان ہوں یا جنات، دوست ہوں یا دشمن، سب کے لیے آپ کی زندگی رحمت ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اخلاق کی تعریف فرماتے ہوئے کہا:: "اور بے شک آپ عظیم اخلاق کے مرتبے پر فائز ہیں۔”یہ آیت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کے اخلاق انسانی تاریخ میں سب سے اعلیٰ اور کامل ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:: "بیشک تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔”یہاں قرآن واضح اعلان کر رہا ہے کہ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ تمام انسانوں کے لیے کامل رہنمائی ہے۔قرآن کریم میں ہے: "یقیناً تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف میں پڑنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے بہت خواہاں ہیں، اور مومنوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔”یہ آیت حضور ﷺ کی مومنین پر شفقت و رحمت کو اجاگر کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:مفسرین نے یہاں "نور” سے مراد رسولِ اکرم ﷺ لیا ہے۔ یعنی آپ ﷺ وہ نور ہیں جو انسانیت کو جہالت و ظلمت سے نکال کر ہدایت و ایمان کے راستے پر لے آئے۔قرآنِ حکیم کی روشنی میں نبی اکرم ﷺ کی شخصیت سراپا جمال و کمال، اخلاق و محبت اور رحمت و شفقت کا حسین مرقع ہے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہر دور کے انسان کے لیے کامل نمونہ ہے۔ قرآن کی یہ آیات نہ صرف آپ ﷺ کے شمائل کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ یہ بھی اعلان کرتی ہیں کہ آپ کی ذات ہی وہ مرکز ہے جہاں سے انسانیت کو نجات، ہدایت اور سکون میسر آ سکتا ہے۔مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نے مذید بتلایا کہ آپ ﷺ کی مقدس ذات نہ صرف خالقِ حقیقی تک رسائی کا وسیلہ ہے بلکہ بزمِ جہاں میں چراغِ ہدایت بن کر آئی۔ آپ ﷺ سراپا جمال، مجسم کمال اور تمام بشری محاسن و فضائل کا حسین مجموعہ ہیں۔ آپ کی ذات گرامی پیکرِ دلربا بھی ہے، روحِ ارض و سما بھی، اور حبیبِ خدا بھی۔ قرآن کریم نے آپ ﷺ کو "اُسوۂ حسنہ” قرار دیا اور رب کائنات نے آپ کو "احسنِ تقویم” کا شاہکار بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا تاکہ انسانیت کو حقیقی رہنمائی ملے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں وہ تمام پہلو موجود ہیں جو ایک انسان کو کامل بندہ، مثالی قائد اور بہترین مربی بنا سکتے ہیں۔

آپ کی مقدس شخصیت نہ صرف اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانے اور بزم جہاں میں شمع ہدایت بن کر آئی بلکہ آپ تمام بشری کمالات و محاسن کا مجموعہ اور سراپا حسن و جمال بن کر تشریف لائے۔ پیکر دلربا بن کے آئے، روح ارض و سما بن کے آئے، سب رسول خدا بن کے آئے، وہ حبیب خدا بن کے آئے۔ آپ کو رب کائنات نے چونکہ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت احسن تقویم کا شاہکار بناکر بھیجا۔یہ فطرت انسانی ہے کہ وہ جب بھی کسی ہستی یا شخصیت سے متاثر ہوکر اس کا گرویدہ، مطیع یا شیدا ہوتا ہے تو اس کی بنیادی طور پر تین بڑی وجوہات ہوا کرتی ہیں۔ یہ تین صورتیں یا تین جہتیں ہوسکتی ہیں۔

اول: یا تو وہ کسی کی عظمت و رفعت اور فضیلت و کمالات کی وجہ سے اس سے متاثر ہوکر اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا تابع و مطیع ہوجاتا ہے۔

اس جہت سے اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کو پیش نظر رکھا جائے تو آپ نبوت و رسالت کے سب سے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز دکھائی دیتے ہیں۔ نبوت و رسالت کے تمام تر درجات، کمالات، معجزات اور فضائل جو مختلف انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیے وہ سب آپ میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں بلکہ جو سب پیغمبروں اور رسولوں کو جدا جدا ملا وہ میرے آقا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یکجا ملا۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا:

 

حسن یوسف، دم عیسیٰ، یدِ بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

 

اور دوسری خوبی جس کی وجہ سے انسان کسی سے متاثر ہوتا ہے وہ اس کے اخلاق و کردار اور خصائص کی اعلیٰ خوبیاں ہیں اگر کسی کے ہم پر بہت زیادہ احسانات ہوں یا کوئی بے حد مہربان و غمگسار اور شفیق ہو تو بھی آپ اس کے احسانات کی وجہ سے دل سے اس کی عزت و قدر کرتے ہیں اور نتیجتاً اس سے عقیدت و محبت کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات میں سب سے اعلیٰ اخلاق پر فائز ذات بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے جن کے اخلاق کے عظیم ہونے کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے دے دی۔

الغرض ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مختلف انداز میں کبھی تمثیل و تشبیہ سے کبھی رمزو اشارہ سے کبھی کنایہ مجاز سے اور کبھی صراحت وضاحت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا اور نور مجسم کا ذکر کرتا ہے تاکہ آپ کے حسن و جمال کے تذکرے سے اہل ایمان کے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے عشق و محبت کا داعیہ پیدا ہو تاکہ محبوب کی تقلید و اتباع سے مشام جاں لذت و حلاوت کی چاشنی محسوس کرتے ہیں۔ بے شک یہ عظمت بلا شرکت غیرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں آئی ہے کہ آپ جیسا حسین وجمیل، سراپا نور اللہ نے نہ پیدا کیا ہے نہ کرے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button