نیشنل

عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں سماعت

 آج بھی مرکزی حکومت نے جواب داخل نہیں کیا، یہ معاملہ حکومت کی گلے کی ہڈی بنتا جارہا ہے، گلزار اعظمی

نئی دہلی 14/ نومبر ( پریس ریلیز) پلیس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضداشتوں پر آج چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی دو رکنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتانے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی سماعت پر عدالت نے انہیں حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آج وہ حلف نامہ داخل کرنے قاصر ہیں، سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے عدالت کو مزید بتایا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ اور انہیں حکومت کے اعلی عہدے داران سے مزید گفتگو کرنا ہے نیز حکومت کا موقف عدالت میں پیش کرنے کے لیئے انہیں مزید وقت درکار ہے لہذا عدالت اس مقدمہ کی سماعت دسمبر مہینہ میں کرے گی تو اچھا ہوگا۔سالیسٹر جنرل آف انڈیا کی درخواست پر چیف جسٹس آف انڈیا نے انہیں مہلت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت 12/ دسمبر تک ملتوی کردی۔

اسی درمیان ڈاکٹر سبرامنیم سوامی جنہوں نے پلیس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے چیف جسٹس کو بتایا کہ پورے قانون کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ایسی دو عبادت گاہوں کو اس فہرست میں شام کرلیا جائے جس طرح سے بابری مسجد کو شامل کیا گیا تھا، حالانکہ سبرامنیم سوامی نے ان دو عبادت گاہوں کا نام نہیں لیا لیکن شاید وہ گیان واپی اور کاشی متھرا مقامات کا ذکر کررہے تھے۔

 

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے ایڈوکیٹ ورندا گروور نے چیف جسٹس کا بتایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل رٹ پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیئے منظور کرلیا ہے لیکن ابھی تک مرکزی حکومت نے ان کی پٹیشن پر بھی جواب داخل نہیں کیا ہے لہذا مرکزی حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ جمعیۃ علماء کی پٹیشن پر بھی جواب داخل کرے اور تمام پٹیشن کے ساتھ جمعیۃ علماء کی پٹیشن پر بھی سماعت ہو، چیف جسٹس نے ورندا گروور کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے رجسٹری کو حکم دیا کہ معاملے کی اگلی سماعت پر یعنی کے 12/ دسمبر کو جمعیۃ علماء کی پٹیشن کو بھی سماعت کے لیئے پیش کیا جائے۔دوران سماعت ہند و فریق کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ راکیش دویدی نے کہا کہ سبکدوش چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس یو یو للت نے اس معاملے کی حساسیت کے مد نظر اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کے ذریعہ کیئے جانے کا حکم دیا تھا لہذا اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کریگی تو اچھا ہے۔راکیش دویدی کو چیف جسٹس نے کہاکہ ٹھیک ہے اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کریگی۔

 

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اس معاملے میں 12/ دسمبر تک کاؤنٹر افیڈیویٹ داخل کردیا جائے جس کے بعد عدالت جنوری 2023 کے پہلے ہفتہ میں حتمی سماعت شروع کرسکتی ہے۔دوران سماعت عدالت میں ایڈوکیٹ ورندہ گروور کے ہمراہ ایڈوکیٹ شاہد ندیم بھی موجود تھے۔

 

واضح رہے کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل سول رٹ پٹیشن کا ڈائری نمبر 28081/2022 ہے جسے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے داخل کیا ہے۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کردہ رٹ پٹیشن اور مداخلت کار کی درخواست میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں۔

آج کی عدالتی کارروائی پر جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ حکومت کی گلے کی ہڈی بنتا جارہا ہے، حکومت کا کیا موقف اختیار کریگی یہ جاننا بہت دلچسپ ہوگا کیونکہ پارلیمنٹ میں بنائے گئے قانون کو ختم کرنے کا ہندو فریق مطالبہ کررہے ہیں جبکہ مسلم فریق بالخصوص جمعیۃ علماء ہند نے عدالت سے پلیس آف ورشپ قانو ن کے حقیقی تحفظ کی درخواست کی ہے تاکہ مسلم عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے اورملک کی مختلف عدالتوں میں ہندو فریق کی جانب سے داخل کیئے جارہے بے لگام مقدمات پر قدغن لگ سکے۔

 

انہوں نے کہا کہ آج سبرامنیم سوامی کی جانب سے عدالت میں یہ کہنا کہ قانون کو ختم کرنے کی بجائے مزید دو مذہبی مقامات کو فہرست میں شامل کرلیا جائے تاکہ بابری مسجد کی طرز پر اس کا بھی مقدمہ چلے اور وہ اسے مسلم عباد ت گاہ سے ہندو عبادت گاہ میں تبدیل کرسکیں یہ ہندو فریق کی مایوسی اور عجلت ظاہر کرتا ہے، ہندوستان میں امن امان برقرارر کھنے کے لیئے پلیس آف ورشپ قانو ن کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے اور جمعیۃ علماء ہند اس کے لیئے کوشاں ہے۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button