جنرل نیوز

لوگوں کے ساتھ پیار و محبت سے رہنا آدھی عقل مندی ہے ‘‘مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

لوگوں کے ساتھ پیار و محبت سے رہنا آدھی عقل مندی ہے ‘‘مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

 

حیدرآباد 15(پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ جسمانی صحت کا ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کی قدر کرنی چاہیے۔ قدر کرنے سے مراد ایک طرف تو اس سے بھر پور فائدہ اُٹھانا ہے اور دوسری طرف حتیٰ الوسع اس کی حفاظت کرنا ہے۔ نیزیہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ لوگوں کی اکثریت عام طور پر ا س کی قدروقیمت میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

جس طرح دنیا کی کسی بھی مشینری کو صحت مند حالت ( Working Condition)میں رکھنے کیلئے اُس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور مناسب نگہداشت کرنا ضروری ہے اسی طرح ہمارے جسم کی مشینری کو بھی صحت مند اور توانا حالت میں رکھنے کیلئے حفظان صحت کے درج ذیل اُصولوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے:انسان کے سینے میں بائیں طرف گوشت کاایک لوتھڑا ہے جس کا طبی نقطہ نظر سے کام تو سارے جسم میں خون کو پمپ کرنا ہے مگر اسی دل کا ایک دوسرا اہم ترین کردار (Function ) یہ بھی ہے کہ یہ ہماری جذباتی زندگی کا مرکز و محور ہے۔ ہمارے جذبات جو زندگی کی گاڑی کیلئے ایندھن کا کام دیتے ہیں، وہ یہیں پر پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر قسم کے اچھے اور بُرے جذبات مثلاً محبت، نفرت، غصہ، عداوت، انتقام، ایثار و قربانی وغیرہ یہیں دل میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات پر بھی اثر اندا ز ہوتے ہیں۔ اسی لئے حضورصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شخصیت کی اصلاح کا نکتہ آغاز دل کو قرار دیا ہے۔ ہمارے جذبات کا بہت گہرا تعلق ہماری سماجی اورمعاشرتی زندگی کے ساتھ ہے۔ جس طرح کے ہمارے دل میں جذبات ہوتے ہیں اُسی کے مطابق ہم دوسروں کے ساتھ برتائو کرتے ہیں۔ اور کامیاب زندگی کیلئے ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی کا خوشگوار ہونا بہت ضروری ہے بالفاظ دیگر دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارے باہمی تعلقات کا خوشگوار ہونا کامیاب زندگی کے لوازمات میں سے ایک اہم تقاضا ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 

التودد الی الناس نصف العقل

 

’’لوگوں کے ساتھ پیار و محبت سے رہنا آدھی عقل مندی ہے ‘‘

 

(ابن عساکر، تاريخ مدينة دمشق، 61/360)

 

لہٰذا کامیاب زندگی گزارنے کیلئے جہاں صحت مند جسم اور ترقی یافتہ ذہن کا ہونا ضروری ہے وہاں تربیت یافتہ دل کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ جب تک انسان اپنے جذبات پر قابو نہیں پائے گا اور اُن کی تہذیب و اصلاح نہیں کرے گا تب تک وہ علمی طور پر کتنے ہی بلند درجے پر کیوں نہ پہنچ جائے وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ جذبات پر قابو نہ ہونے کی صورت میں ذرا ذرا سی بات پر اُس کے اندر غصہ کی آگ بھڑک اُٹھے گی جو جھگڑوں اوربحث و تکرار کا باعث بنے گی اور یوں زندگی کا مزاکِرکرا ہوتا چلا جائے گا۔ چنانچہ کامیاب اورخوشگوار زندگی کیلئے اس پہلو پر توجہ دینا بھی ضروری ہے اگر یہ پہلو نظر انداز ہو جائے تو پھر جسمانی اور ذہنی سطح پر انسان جتنی مرضی کامیابیاں حاصل کرتا چلا جائے وہ زندگی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز نہیں ہو سکے گا۔

 

جس طرح کھیت کے اندر مطلوبہ فصل کے ساتھ ساتھ کچھ خود رو قسم کی جڑی بوٹیاں خود بخود اُگ آتی ہیں جوفصل کیلئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ کامیابی کا راز اس میں ہوتا ہے کہ اُن جڑی بوٹیوں کو ساتھ ساتھ تلف کر دیا جائے۔ یہی حال دل کی سر زمین کا بھی ہے۔ اس میں پسندیدہ اور اچھے اوصاف کے ساتھ ساتھ کچھ نا پسندیدہ اور بُرے اوصاف مثلا ً حسد، بغض، کینہ، نفرت، انتقام وغیرہ کی جڑی بوٹیاں خود بخود ہی اُگ آتی ہیں اور پروان چڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اگردل کی سر زمین سے اِن گندے پودوں کو تلف نہ کیا جائے تو یہ ہماری شخصیت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بھی بہت متاثر کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ غور فکر اور بعض دیگر مناسب تدابیر کے ذریعے ان ناپسندیدہ اوصاف سے دلوں کو پاک کریں۔

سان اپنی شخصیت کے دیگرگوشوں پر جتنی بھی توجہ دے لے، جب تک روح کو نظر انداز کرے گا اُس کی زندگی میں ایک خلا باقی رہے گا۔ روح کی ویرانیوں کو دور کیے بغیر زندگی کے دامن کو حقیقی خوشیوں اور مسرتوں سے نہیں بھرا جاسکتا۔ لہٰذا ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی شخصیت کے اس اہم ترین حصے کی ضروریات کو بھی محسوس کریں اوراُنہیں پورا کرتے ہوئے اسکی بھی تجدید ساتھ ساتھ کرتے رہیں۔ اس مقصد کے لئے اسلام نے ایک مکمل اور جامع نظام دیا ہے جس میں ایمانیات بھی ہیں، عبادات بھی ہیں، معاملات بھی ہیں، اخلاقیات بھی ہیں۔ نیکی کا جو کام بھی ہم اللہ کا حکم سمجھ کر بجا لاتے ہیں وہ بذریعہ جسم ہی سر انجام پاتا ہے مگر اُس کا براہ راست خوشگوار اثر روح پر پڑتا ہے۔اس کے برعکس ہر وہ کا م جس سے اللہ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے اُسے گناہ کہتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی کام کرنے سے روح پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ پھر اگر توبہ کر لی جائے تو روح اُس اثر سے آزاد ہو جاتی ہے ورنہ اُسی حالت میں رہتی ہے۔ اسی طرح اچھے بُرے کاموںکے اثرات روح پر پڑتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ موت آجاتی ہے اور موت کے وقت روح جس حالت میںیہاں سے جاتی ہے اُسی کے مطابق قبر اور حشر میں اُس کے ساتھ اچھا یا بُرا سلوک ہونا ہوتاہے۔

روح کا نمائندہ ضمیر کی صورت میں ہمارے اندر موجود ہوتا ہے۔ جب ہم برائی کرنے لگتے ہیں تو ضمیر احتجاج کرتا ہے۔ اگر ہم اکثر و بیشتر اُس کی بات مان کر رُک جائیں تو ضمیر کی آواز توانا ہوتی چلی جاتی ہے اور اُس کے لئے آئندہ ہمیں گناہوں سے روکنا آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اکثر و بیشتر ضمیر کی آواز کو نظر انداز کر تا ہے تو رفتہ رفتہ یہ آواز مدہم ہوتی چلی جا

متعلقہ خبریں

Back to top button