مضامین

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا نتیش اور نائیڈوکیا مودی کے سائے تلے چل پائیں گے ؟

سید سرفراز احمد،بھینسہ ، تلنگانہ 

کہتے ہیں وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا وہ وقت ہی ہے جو سر چڑھ کر بولنے والوں کا نشہ اتار کر اپنی اوقات دکھا دیتا ہے اب اس وقت کے ساتھ بھارت کی جمہوریت کو کھڑا کردیں یا یہ دونوں جب ایک راہ پر آجائیں تو پھر کسی تانا شاہ کی تو خیر ہی نہیں جس ملک کی جمہوریت کو شب وروز روندا جارہا تھا آج اسی جمہوریت کو ماننے والوں نے اس ملک کی جمہوریت کی لاج رکھ لی اور مطلق العنان حکمران کو کرارا جواب بھی دیا کہ اس ملک کا دستورجمہوریت سیکولرزم اور بین مذاہب اتحاد سے بڑھکر کچھ نہیں لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے بھاجپا کی کمر اوراسکے گھمنڈ کو ایسے توڑا کہ اب وہ تمام پارٹیوں میں اکثریت پاکر بھی چاروں خانے چت ہوچکی ہے زرا تصور کریں چند دنوں پہلے بھاجپا کیسی تھی اور آج کیسی ہے یہ فرق ہی آپکو سب کچھ سمجھا دے گا اسمیں کوئی شک نہیں کہ بھاجپا نیشنل ڈیموکرٹیک الائنس میں شامل پارٹیوں کی بیساکھی پر حکومت تشکیل دینے جارہی ہے جسکا پارلیمنٹری اجلاس جمعہ کے روز ہوچکا ہے

 

نتیش اور نائیڈو نے این ڈے اے کا ساتھ دے کر مودی کی سرپرستی میں حکومت میں رہنے کا اعتراف بھی کرلیا اب یہ سرکار کب تک چلے گی یہ تو آنے والا وقت طئے کرے گا لیکن جو بھاجپا کل تک چارسو پار کے دعوے کررہی تھی وہ الفاظ آج حلق کا کانٹا بن چکے ہیں لب خاموش ہیں چہرے مرجھائے ہوئے ہیں ماتھے پر شکن نظر آرہا ہے اسی لیئے کہا جاتا ہے جمہوری ملک میں سب سے مضبوط عوام ہوتی ہے حکمران نہیں لیکن ان تانا شاہوں کو کون سمجھائے آج وقت بدل گیا اور عوام نے انکے گھمنڈ کو خاک میں ملادیا شاعر مصطفی کمال نے کیا خوب کہا
غرور مٹ گیا اپنی حد میں آگئے ہیں
انا پرست محبت کی زد میں آگئے ہیں

 

بھاجپا نے اس لوک سبھا انتخابات کی اکثریت حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا تاکہ اس کامیابی کے بعد وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کرسکیں لیکن وہ خواب ادھورے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں چار سو پار کے نعرے پر اتنا زور لگایا گیا تھا تاکہ کم از کم بھاجپا 2019 کی تاریخ کو دہراتے ہوئےتین سو تو پار کرلے لیکن یہ خواب بھی چکنا چور ہوگیا رام مندر کا پران پرتشٹھا کرکے اترپردیش سے 2014 کی طرح اکثریت حاصل کرنے کا خواب سجایا تھا لیکن اکھلیش کی سائیکل نے کنول کو کچل ڈالا حد تو یہ ہوگئی کہ فیض آباد یعنی ایودھیا کی سرزمین نے بھی بھاجپا کو سرے سے خارج کردیا یہاں کے نتائج نے بھاجپا کے ہوش اڑا دیئے اب حال تو یہ ہیکہ بھاجپائی حمایت والے سادھو اور سنت اس شکست پر آنسو بہارہے ہیں دوسری جانب بھاجپائی مخالف سادھو اور سنت خاص طور پوری کے شنکر اچاریہ نے اس شکست کا زمہ دار مودی کو ٹھرایا یقیناً بھاجپا کی ہر شکست کے زمہ دار مودی ہی ہونگے کیونکہ بھاجپا ہر الیکشن مودی کے نام پر ہی لڑتی رہی اور خود مودی نے سینہ ٹھوک کر مودی کی گیارنٹی کے طور پر اپنے آپ کو عوام کے روبرو پیش کیا تھا لیکن اس بار انکی شخصیت کا زور نہیں چل پایا جسکی وجہ سے بھاجپا جادوئی ہندسے کو عبور نہ کرسکی اور 63 لوک سبھا نشستوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا ۔

 

بھلے ہی کانگریس اور انڈیا اتحاد اکثریتی ہندسے کو پار نہ کرسکی لیکن بھاجپا کو بھی اکیلے حکومت سازی میں پوری طرح سے کامیاب ہونے نہیں دیا یہی دراصل انڈیا اتحاد کی سب سے بڑی کامیابی ہے اور بھاجپا جیت کر بھی ہار گئی کانگریس اور اسکی اتحادی جماعتوں نے سوائے ایک دو کو چھوڑ کر مجموعی طور پر بہترین مظاہرہ پیش کیا ہے جو کانگریس 52 نشستوں تک محدود تھی اب وہ 99 پر پہنچ گئی ہے مزید مہاراشٹر کے ایک آزاد رکن پارلیمنٹ نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے کانگریس کی عددی قوت کو 100 تک پہنچادیا اسی طرح اکھلیش اسٹالن ممتادیدی نے اپنی سیاسی طاقت کا بہترین مظاہرہ پیش کیا اگر چہ بہار میں تیجسوی اکھلیش کی طرز پرزرا سی سیاسی حکمت عملی دکھاتے تو بہار کے نتائج بھی الگ ہوتے بہار سے انڈیا کو جو توقعات تھی وہ کامیابی میں نہیں بدل سکی ہم نے انتخابات کے دوران اپنے مضمون میں بھاجپا کو آندھرا پردیش تلنگانہ کرناٹک اور ٹاملناڈو میں فائدہ پہنچنے اور شمالی ہند میں بھاجپا کو نقصان ہونے کا تجزیہ پیش کیا تھا جو مجموعی طور پر سچ ثابت ہوا سوچیئے اگر نائیڈو اور نتیش پہلے سے ہی انڈیا اتحاد کے حصہ دار ہوتے تو آج بھاجپا کہاں ہوتی؟کیونکہ ان دونوں ہی نے ابتدائی دنوں میں مودی مخالف محاذ کھڑا کرنے میں اہم رول ادا کیا تھااور آج یہی دونوں انھیں وزیراعظم بنارہے ہیں حالانکہ مودی اور امیت شاہ نے نائیڈو اور نتیش کو کیا کچھ نہیں کہا لیکن یہ سیاست ہے جسمیں سب کچھ جائز ہے آج ہاتھ جوڑتے ہوئے ایکدوسرے کو عزت بخشی جارہی ہے لیکن پھر کل کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا۔

 

مودی اینڈ کمپنی کو پہلے مرحلے سے ہی اپنی شکست کا خوف کھائے جارہا تھا جسکی وجہ سے انھوں نے فرقہ پرستی کا ڈنکا دوٹوک بجایا لیکن پھر بھی وہ اکثریت پانے سے محروم رہے جس مودی کو اپنے اوپر یہ زعم تھا کہ وہ اکیلے سرکار بنائیں گے اور انتخابی جلسوں میں 56 انچ کا سینہ ٹھوک کر کہہ رہے تھے کہ انڈیا کی کھچڑی سرکار بنے گی تو ہر سال ایک وزیراعظم ہوگا لیکن آج انکا یہ زعم بھی چکنا چور ہوگیا وہ خود اپنے آپکو کھچڑی سرکار کے قائد بننے میں کوئی عار تک محسوس نہیں کیا بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کل بھی این ڈی اے کی سرکار تھی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی اور سوال کھڑا کررہے ہیں کہ سرکار کہاں بدلی؟ یہ دراصل نائیڈو اور نتیش کو اپنے جال میں مضبوط پھنسائے رکھنے کیلئے کہا جارہا ہے خیرہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ اترپردیش سے ہی دہلی کا تخت سجایا جاتا ہے آج اترپردیش کی عوام نے یہ ثابت کردکھایا کہ اس ملک میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ایک طرف مودی اینڈ کمپنی مسلمانوں کے نام پر اپنی سیاست چمکاناچاہتی تھی دوسری طرف انڈیا اتحاد ملک کے مسائل غریبی،بیروزگاری،مہنگائی پر بات کررہی تھی عوام کو یہ سمجھ میں آگیا کہ کسی فرقہ یا ذات کا خون جذب کرنے سے ملک سے غریبی بیروزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ ناممکن ہے بلکہ یہ تو ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں اسی لیئے اس بار عوام نے اپنے مسائل کے حل کیلئے رائے دہی میں حصہ لیا اور اترپردیش کی عوام نے ایک بہت بڑی تبدیلی لاکر ملک کو تحفہ دیاجسکا اثر جمعہ کو ہورہے این ڈی اے کے پارلیمنٹری اجلاس میں دیکھنے کو ملا کہ کسطرح مودی نے یوگی کو یکسر نظر انداز کردیا اور آگے کیا کیا ہوتا ہے یہ بھی دیکھنا بڑا ہی دلچسپ ہوگا۔

 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیا این ڈی اے سرکار چل پائے گی؟اگر چلے گی تو اسکی عمر کتنی ہوگی؟یا پھر کھیل بدل بھی جائے گا؟کیا نتیش اور نائیڈو مودی کے سایہ میں چل پائیں گے؟یہ سوالات اس وقت عوام کے زہنوں کی الجھن کا شکار بنے ہوئے ہیں این ڈی اے کے کل جماعتی اجلاس میں سب نے مودی کو اپنا قائد تسلیم تو کرلیا لیکن اتحادی جماعتوں نے اپنے اپنے مطالبات بھی رکھ دیئے جس سے بھاجپا تذبذب کا شکار ہے اور دوسری طرف انڈیا اتحاد ہار کر بھی چہرے خوشی سے سرشار ہیں اس خوشی کے پیچھے دو باتیں ہوسکتی ایک تو انڈیا اتحاد کی خفیہ بات چیت نتیش اور نائیڈو سے ہوچکی ہو اور یہ طئے پایا ہوکہ پہلے این ڈی اے کی سرکار کو بنایا جائے پھر اقتدار سے اتارا جائے دوسری بات انڈیا اتحاد کو اتنا تو یقین ہوگیا کہ این ڈی اے سرکار کو گرانا بہت مشکل کام نہیں ہے جس کیلئے اسکو شائد ابھی وقت درکارہے بلکہ حالات اور وقت کو سازگار پاکر یہ اپنے سیاسی چانکیہ شردپوار کا استعمال کرسکتے ہیں اور کبھی بھی بازی مار سکتے ہیں نائیڈو اور نتیش بڑے ہی تجربہ کار اور چانکیہ سیاستدانوں میں شامل ہیں اور بھلے ہی دونوں این ڈی اے کا حصہ بنے ہوں لیکن ان دونوں کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی سے شائد مودی اور شاہ بھی واقف نہ ہوں مزید یہ کہ ان دونوں کی اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی فرقہ پرستی کا شور دیکھنے کو نہیں ملا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہیکہ اگر این ڈی اے انکے مطالبات کو مانتے ہوئے سرکار بنالیتی ہے اور مودی وزیراعظم بن بھی جائیں تو یہ دونوں بھاجپا کیلئے ہروقت گلے کی ہڈی بنے رہیں گے مودی کے کسی بھی فیصلے کا اصل ریموٹ ان دونوں کے ہاتھوں میں ہوگا ظاہر ہے یہ سب مودی اور شاہ کی برداشت سے باہر ہوگا جسکے بعد شدید اختلافات پیش آسکتے ہیں اگر ایسا ہوا تو تب ان کیلئے اگلا بابداخلہ انڈیا اتحاد کا ہوگا جہاں انھیں انکے موافق سب کچھ ملے گا چونکہ نتیش اور نائیڈو کو مودی کے سایہ تلے چلنا بہت مشکل کام ہے نہ مودی کی تاناشاہی کو یہ برداشت کرسکیں گے نہ مودی انکی مداخلت کو برداشت کریں گے تو ہمیں دل تھام کر بیٹھتے ہوئے مزید انتظار کرنا ہوگا کیونکہ کھیل ابھی ختم نہیں بلکہ شروع ہوا ہے۔

 

بھاجپا کیلئے ابھی اس وقت انکی سب سے بڑی پریشانی خود انکی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس بھی ہے ہم دیکھ چکے ہیں کہ پورے انتخابات کے دورانیئے میں آر ایس ایس نے مودی کے نام پر عوام سے ووٹ کی اپیل نہیں کی اور نہ یہ سننے کو ملا کہ آر ایس ایس کا کیڈر بھاجپا کی جیت کیلئے میدان سنبھالا ہے جسطرح 2019 کے انتخابات میں آر ایس ایس کا کردار بہت اہم تھا وہی کردار اس بار دیکھنے کو نہیں ملا کیونکہ جے پی نڈا نے کہا تھا کہ بی جے پی کو آر ایس ایس کی ضرورت نہیں آر ایس ایس ایک مخصوص نظریہ پر کام کرتی ہے ناکہ شخصیت پر جبکہ بھاجپا ابھی مودی کی شخصیت پر دم بھر رہی ہے یہ اندرونی اختلافات ابھی کس قدر بڑھے ہوئے ہیں اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن دال میں کچھ کالا ضرور ہے جو شائد کبھی بھی منظر عام پر آسکتا ہے لیکن ایک بات تو ضرور ہیکہ اس بار بھاجپا کانٹوں کے گھیرے میں گھر چکی ہے جبکہ مودی نے لوک سبھا انتخابات میں اکثریت پانے کی چکر میں اپنے آپ کو اوتار حیاتیاتی پیدائش بتانے میں بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کی اس سے آگے بڑھکر ملک کے سماج کو منقسم کرتے ہوئے اپنی گدی تک پہنچنے کا راستہ بنانے کی دوڑ دھوپ کرتے ہوئے مٹن مچھلی منگل سوتر مجرا جیسے الفاظ کا استعمال کیا جو ایک وزیراعظم جیسے باوقار عہدے کی شبیہ کو پامال کیا یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو درانداز اور ذیادہ بچے پیدا کرنے والے مذہب کے نام پر مسلمانوں کو تحفظات نہ دینے یعنی سیاسی اڑان بھرنے کی آس میں ہر طرح کے حربے کو دوا کے طور پر استعمال کرتے گئے لیکن پوری تدبیریں الٹی ہوگئیں اور دوا کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button