مضامین

کڑوا شربت

انس مسرورانصاری

ایک عالمی سروے کےمطابق گزشتہ پانچ سالوں میں دوسرے مذاہب کے تیرہ کروڑافراد نےمذہب اسلام کوقبول کیا۔ان میں ہرقوم ہرطبقہ ہر فرقہ اور فکر و خیال کےافراد شامل ہیں۔اعلا درجہ کے تعلیم یافتہ افرادکےعلاوہ پسماندہ،ناخواندہ۔آدی واسی حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔اخبارات اور سوشل میڈیا کے مطابق گزشتہ دنوں شہرمرادآباد(یو،پی)میں پچاس دلتوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیاجن کوکلمہءطیبہ پڑھتے ہوئے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔(ایسی خبروں کومیڈیا والےظاہرنہیں کرتے)

 

 

دنیامیں تیزی کےساتھ اسلام پھیل رہاہے۔ایسا معلوم ہوتا ہےکہ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرےگاکہ اسلام دنیا کا سب سےزیادہ مقبول عام مذہب ہوجائےگا۔اس کی بنیادی وجہ اسلام کی اپنی کشش،اس کا نظام حیات وکائنات اوراس کے دشمنوں کی طرف سے پھیلائی جانےوالی غلط فہمیاں اور نفرت انگیزیاں ہیں۔قرآن کریم کے نسخوں کی بےحرمتی اوراس کوجلانا۔پیغمبراسلام کی شان میں گستاخیاں اورمسلمانوں کے خلاف انتہائی ظالمانہ شرانگیزیاں۔ایسے معاملات ہیں جو صالح ذہن وفکر کےعناصر اورغیرمتعصب،انصاف پسندافرادکو سوچنےپر مجبور کرتے ہیں کہ آخر اسلام میں ایساکیا ہےجس کے خلاف اس قدرشورشرابےاور ہنگامےاٹھائے جارہےہیں۔؟

 

 

اس مقام پر انھیں اسلام اور پیغمبراسلام کےبارےمیں مطالعہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔اورجب حقیقت کاسامنا ہوتا ہےتووہ بےساختہ پکار اٹھتےہیں۔لا الہ الاﷲ محمد الرسول اﷲ۔۔اسلام ایک ایسانظام سیاست و معیشت پیش کرتاہےجس کی کوئی مثال نظرنہیں آتی۔اس پرآشوب زمانہ میں صرف اسلام ہی انسان کےدکھوں اور پریشانیوں کا حل ہے۔

 

 

وہ دن قریب ہے جب انڈیا میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف منو وادیوں کی ساری نفرت انگیزیاں،شر پسندیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ ہندو رہنماؤں کو یورپ سے سبق سیکھناچاہیے۔جہاں اسلام اتنی سرعت سے پھیل رہا ہے کہ اس کے دشمن اورحاسدین بوکھلاکررہ گئیے ہیں۔ان کی عقلیں سلب ہوگئی ہیں۔ یہی حال انڈیا میں ہونے کےآثارمو جود ہیں۔بس مسلمان اپنی بیداری کا ثبوت فراہم کریں اور سارے مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال دیں۔

 

 

اسلام کو اپنے کرداروعمل سےظاہرکریں۔اس کے سواامن و عافیت کا کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔یہ مسلمانوں کی ذمہ داری بھی ہےاور فرض بھی۔ورنہ وہ خدا ورسول کے مجرم ہوں گے۔خدا کے رسول ﷺ نے یہی کیاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کوکردارو عمل کی بنیادپرکھڑاکیا۔عام اعلان حق سےپہلےآپ نے اپنے کردار وعمل سے اسلام کوظاہرکیا۔پھر بعدمیں اعلان حق فرمایااور لوگوں کواس کی دعوت دی۔مسلمانوں کو بھی یہی کرناہوگا۔اسلام کواپنےکرداروعل سے ظاہرکریں۔

 

 

جہاں تک مسلم لڑکیوں کےارتدادکامعاملہ ہے،وہ یک طرفہ سچ نہیں ہے۔ سچ یہ ہےکہ یہ ایک ڈرامہ ہےجو مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کےلیےکھیلاجا رہاہے۔ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکیاں بناکرارتدادکافتنہ اٹھانے والےیہ نہیں جانتے کہ اس کا ردعمل خودانھیں کے خلاف اوراسلام کےلیےموافق وسازگار ہو کررہےگا۔یادرکھئے۔ہرایکشن کاایک ری ایکشن ہے۔ہر عمل کاایک ردعمل ہے۔

 

 

آج بےشمار ہندو خواتین نقاب لگاکرمسلم عورتوں کے لباس میں اﷲ اوراس کے رسول کے نام پرمسلم گھروں میں جاکربھیک مانگ رہی ہیں۔میری نظرمیں ایسی درجنوں خواتین ہیں جن کاپیشہ ہی نقاب لگاکر بھیک مانگنا ہے۔  مانتا ہوں کہ ارتداد کافتنہ موجود ہے۔ لیکن اس کی ذ مہ داری مسلم نوجوانوں پر آتی ہے۔ وہ اگراپنی لالچی اور حریص ذہنیت سے باز آ جائیں تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ارتدادکےطوفان کوروکنےکےلیےمعاشرتی اصلاح اور خود اپنی کردار سازی کی ضرورت ہے۔

 

مسلم بچیوں کوگمراہ کرنےکےلیےہندوتنظیموں کا لاکھوں روپیہ خرچ کرنا۔نوکری اور فلیٹ کی گارنٹی۔ لیکن افسوس کہ یہ ہندو فرقہ پرست تنظیموں کےغیردانش مند افراد نہیں جانتے کہ وہ کن ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کےلیے مذہب کے نام پر گمراہ کرنے والے ان کے رہنماؤں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی بیٹیاں،بھتیجیاں اور بہنیں مسلمانوں کے گھروں میں خوش حال ازدواجی زندگی بسر کر رہی ہیں اور ان کے سرپرستوں کو کوئی اعتراض نہیں۔ ہسٹری اٹھاکر دیکھ لیجئے۔مجھے نام لینے کی ضرورت نھیں۔

 

 

موجودہ حالات میں مسلمانوں کےلیے گمراہ کن ہندو شدت پسندوں کی سرگرمیاں ایک بڑی وارننگ اور انتباہ ہیں۔اب مسلمانوں کوبیدارہوجاناچاہئے۔   آج کتنے ہی ہندو بھائی منتظر ہیں کہ مسلم سماج انھیں قبول کرے تو وہ اسلام قبول کرلیں۔مگر شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ ہمارے قصبہ کےکئی ہندو، مسلمان ہوئے۔ ہندو رہنماؤں نے انھیں طرح طرح کےلالچ دیئے۔ ڈرایا،دھمکا یا۔یہاں تک کہ انھیں جیل تک کاٹنی پڑی ۔ قسم قسم کی تکلیفیں اٹھائیں لیکن ہندو دھرم میں واپس نہ گئے۔وہ آج بھی معمولی مزدورہیں۔اس کااجرتو اللہ ہی انھیں دےگاجن مشکل حالات میں وہ اسلام کے دامن سےلپٹےرہے۔ لیکن مسلم سماج نے انھیں قبول نہ کیا۔

 

 

کوئی مسلم خاندان انھیں اوران کے بچوں کو شادی کےلیےنہ لڑکا دینےکےلیےتیارہےاورنہ لڑکی۔ دور دراز کے علاقوں میں ان کی شادیاں ہوتی ہیں۔ پھربھی وہ اسلام پر قائم ہیں۔ یقینی طور پر وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ہمارا قصبہ مسلم باہلی چھہتر یعنی مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کپڑے کی صنعت کے لیے بہت مشہور ہے۔ شاید ہی کوئی گلی ایسی ہوجس میں لکھ پتی اور کروڑپتی لوگ آبادنہ ہوں۔ یہ تجارت پیشہ افرادہیں مگران میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جوان (اصل) مومنوں کی معیشت کوبہتربناسکے۔ وہ آج بھی مزدورہیں۔ ان کے بچے بھی مزدوری کرتےہیں۔جس قوم کا یہ حال ہو وہ بھلا کس طرح فلاح پاسکتی ہے۔

 

 

مسلمانوں کابکھراہوامسموم معاشرہ کسی نوارد مسلمان کو خود میں ضم کرلینے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔وہ بھول گیا کہ جس رسول پر اپنی جان فداکرنےکاجھوٹادعوااورپروپیگنڈہ کرتاہے،اسی نبی ﷺ نےباربارفرمایاکہ ۔۔۔ مسلمان، مسلمان کابھائی ہے۔اس کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو وہ خود اپنے لیے پسندکرتاہے۔۔۔۔ اسےنقصان نہ پہنچائے۔۔۔۔اس سےخیر خواہی کا معاملہ کرے۔۔۔۔،،

 

 

اس سے پہلے کہ ہم اقوم عالم کو اسلام کاپیغام دیں،ہمیں خود اس کے پیغام پر عمل کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے کردار وعمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہےاور اپنے بھائی کےلیے وہی کچھ پسند کرتاہے جو وہ خود اپنے لیے پسند کرتاہے۔یہودیوں میں ایک روایت مشہورہےکہ جب فجر کی نماز کےلیے مسجدیں جمعہ کی نماز کی طرح بھرنےلگیں توسمجھ لو کہ یہودیت کا خاتمہ ہوچکا۔اس وقت ساری دنیا پر اسلام اورمسلمانوں کی حکمرانی ہو جائے گی۔،،

 

 

جس روز ایسا ہو گیا۔ وہ اسلامی انقلاب کاپہلا دن ہوگا۔تب کوئی مرتدنہ ہوگا۔کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوگی۔ وہ سب  کچھ چھوڑچھاڑکراسلام کے دامن سے لپٹ جائے گا۔اسے اٹھارہ کروڑ دیوی دیوتاؤں کی ضرورت نہ ہوگی۔

 

 

ہمیں مرتد بچیوں کو گالیاں دینےاوربرابھلاکہنےسے پہلے اپنےلالچی،بےغیرت اور حریص بچوں کو گالیاں دیناچاہئیےاوراگرایمانی غیرت ہو تو خوداپنے آپ کو بھی گالیاں دےلیں۔اورخودہی کو برابھلاکہیں۔  مرتد ہوجانے والی بچیوں کی فکر نہ کیجئے بلکہ اپنے بچوں کے لالچ اور ذہنی دیوالیہ پن کی فکرکیجئے۔ اپنی معاشرتی خرابیوں کے تدارک پرنگاہ کیجئے۔اپنی کوتاہیوں کو چھپانےکےلیےکالجوں اور یونیورسٹیوں کوبدنام نہ کیجئے۔ تاریخ بتاتی ہےکہ جب بھی اسلام کےخلاف فتنے کھڑےکیےگئیے،اسےاورزیادہ ترقی اور عروج حاصل ہوا ہے۔#

اسلام کو فطرت نے کچھ ایسی لچک دی ہے

جتنا ہی دباؤ گے، ا تنا ہی یہ ا بھر ے گا

 

نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا

مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جا تی

انس مسرورانصاری

* دارالتحریر*

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)

اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (ہو،پی)

رابطہ/9453347784/

متعلقہ خبریں

Back to top button