آثارِ مبارکہ رسولِ اکرم ﷺ: ایمان کی تازگی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی جھلک،نولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
آثارِ مبارکہ رسولِ اکرم ﷺ: ایمان کی تازگی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی جھلک،نولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد یکم ستمبر (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے ماہ ربیع الاول شریف کی آٹھویں محفل بعنوان ،آثارِ مبارکہ رسولِ اکرم ﷺ،سے خطاب کرتے ہوئے بتلایا کہ انسانی تاریخ میں سب سے عظیم ترین ہستی سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ کی ہے، جن کی ولادت، حیاتِ طیبہ، اقوال و افعال اور ہر پہلو کو نہ صرف محفوظ کیا گیا بلکہ آپ ﷺ کے آثارِ مبارکہ کو بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہایت اہتمام کے ساتھ محفوظ فرمایا۔ ان آثار کی حفاظت کا مقصد محض تاریخی تجسس نہیں بلکہ عشق و محبتِ رسول ﷺ کا عملی اظہار اور ایمان کی تازگی کا ذریعہ ہے۔
"آثارِ مبارکہ” سے مراد وہ اشیاء ہیں جو براہِ راست رسولِ اکرم ﷺ کے استعمال میں آئیں یا آپ ﷺ کے جسمِ اطہر سے منسوب ہوں، جیسے کہ:
موئے مبارک (بالِ مبارک)
نعلینِ مبارک
قمیص و جبہ مبارک
عصا و کملی
دندانِ مبارک
مہرِ نبوت
یہ سب آثار محض تاریخی یادگار نہیں بلکہ ان میں محبتِ نبوی ﷺ اور برکت کا خزانہ مضمر ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آثارِ نبوی ﷺ کو بڑی محبت اور عقیدت سے محفوظ کرتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے سر کے بال منڈوائے تو صحابہ کرام مبارک بالوں کو لپک لپک کر جمع کرتے اور اپنی جانوں پر فدا ہوتے۔اسی طرح حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنی ٹوپی میں حضور ﷺ کے بالِ مبارک رکھتے اور فرماتے: "جب بھی کسی معرکے میں جاتا ہوں تو اس کی برکت سے فتح نصیب ہوتی ہے۔بعد کے زمانوں میں تابعین اور ائمہ کرام نے بھی ان آثار کو حفاظت سے رکھا اور امت کو ان کے ذریعے محبتِ رسول ﷺ کی یاد دلاتے رہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"میرے لیے حضور ﷺ کے ایک بال سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں۔”
ائمہ دین نے واضح کیا کہ آثارِ مبارکہ کو محفوظ رکھنا اور ان سے برکت حاصل کرنا نہ صرف جائز بلکہ محبتِ رسول ﷺ کی دلیل ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی، امام نووی، امام سیوطی اور دیگر جلیل القدر علماء نے اس پر دلائل پیش کیے ہیں۔
آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں حضور ﷺ کے آثار محفوظ ہیں۔ استنبول (ترکی)، دہلی، لاہور، مدینہ منورہ اور دیگر مقامات پر یہ آثار نہایت ادب و احترام کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ لاکھوں مسلمان ان زیارتوں سے اپنے ایمان کو تازگی بخشتے ہیں اور محبتِ رسول ﷺ کو جِلا دیتے ہیں۔آثارِ مبارکہ کی زیارت یقیناً ایمان افروز اور روح پرور عمل ہے، مگر اصل مقصد یہ ہے کہ ہم حضور ﷺ کی سنت اور سیرت کو اپنی زندگیوں میں اپنائیں۔ حقیقی عقیدت یہ ہے کہ ہم ان نشانیوں سے محبت کے ساتھ ساتھ اپنے کردار و عمل کو بھی سیرتِ طیبہ کے مطابق ڈھالیں۔
آثارِ مبارکہ صرف تاریخی یادگار نہیں بلکہ وہ ایمان کو جِلا بخشنے والی مقدس امانتیں ہیں جو ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ جس نبی ﷺ سے یہ منسوب ہیں، ان کی اطاعت ہی ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نے آخر میں بتلایا کہ کتبِ احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کرانے کے علاوہ بھی بہت سی صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تبرک حاصل کرتے تھے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کو تبرکاً مس کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے برکت حاصل کرتے۔ جس پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا دستِ مبارک دھوتے اسے اپنے چہروں اور بدن کے حصوں پر مل کر برکت حاصل کرتے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے کھانے سے برکت حاصل کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک، لعابِ دہن، موئے مبارک، انگوٹھی مبارک، بستر مبارک، چارپائی مبارک اور چٹائی مبارک سے برکت حاصل کرتے تھے۔ الغرض وہ ہر اس چیز سے برکت حاصل کرتے جس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس سے تھوڑی یا زیادہ نسبت ہوتی بلکہ جن مبارک مکانوں اور رہائش گاہوں میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکونت اختیار فرمائی، جن مقدس جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیں ادا فرمائیں، جن بخت رسا راہوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے، ان کے گرد و غبار تک سے بھی انہوں نے برکت حاصل کی۔



