مضامین

بک رہا ہوں جنوں میں…

انس مسرورانصاری

 

بک رہاہوں جنوں میں کیاکیاکچھ

کچھ نہ سمجھےخداکرےکوئی

(غالب)

جب حیدرآباد والےکہتے ہیں کہ لکھنؤ والوں نے اردو کی قبر پر تلسی کے پودے لگادئیےہیں تو اچھا نہیں لگتا۔ہر اچھی اورسچی بات کہاں اچھی لگتی ہے۔۔ مگر لکھنؤ والوں کے پاس اس حقیقت کا کوئی جواب بھی تو نہیں ہے۔ ا اسی خطہءلکھنؤمیں بہت بڑے بڑےعلاقے ہیں جولکھنؤدبستان ادب سےمنسلک مانےجاتےہیں

۔اردو سے محبت کا دعویٰ کرنے والے جس عجلت میں اردو رسم الخط کو مٹا دینے کے مشن پر کام کررہےہیں،اس کی مثال دنیابھر کے لسانی ادب میں کہیں نہیں ملتی۔

کتنابڑاالمیہ ہے۔افسوس صد افسوس۔۔۔ آہ اردو بے چاری۔۔۔۔۔!کتنا فریب کارانہ دعویٰ ہےمحبت کا۔۔۔ محض زبانی جمع خرچ۔۔۔۔۔!

کوئی زبان صرف ایک زبان نہیں ہوتی۔ اس کے پس منظر میں پوری ایک تہذیب اور صدیوں کا تمدن ہوتاہے۔یہ تہذیب اور تمدن قومی شناخت اورعلامت ہوتےہیں لیکن کیاکیجئے۔زوال آمدہ قوم اسی طرح اپنی لسانی تہذیب کو مٹاتی رہتی ہے۔غیرمحسوس اورغیرشعوری طورپراورکبھی خودغرضی کے تحت ذاتی مفادکےلیےبھی۔پھر وہ زمانہ بھی آتاہے جب اس کے پاس اس کا اپنا کچھ نہیں ہوتا۔اس کی ہر چیز غیروں سےمستعارلی ہوئی ہوتی ہے۔کہتے ہیں نا۔۔۔ جس قوم کو مٹا نا ہو،غلام بناناہو، سب سے پہلے اس قوم کی زبان چھین لو،وہ قوم اپنی تہذیب اور تمدن سمیت اپنی موت آپ مرجائے گی۔اس کی تاریخ،اس کا کلچر،اس کی تہذیب و تمدن سب کچھ تاریخ عالم کے اہرام میں سجی ہوئی ممیوں کی طرح ہوجاتے ہیں۔پھر تاریخ کروٹ لیتی ہے تو ان ممیوں کوکوڑےکباڑمیں پھینک جاتی ہے۔

زبان چھین لینےکامطلب ہے کہ اس کے رسم الخط کی اہمیت سے اس کو غافل اور بے گانہ وبے نیاز کردیا جائے۔ ہم اردو والے بڑے خلوص اور محنت سے آج یہی کام کررہےہیں۔اردو زبان کومٹانےکےلیےہمیں کسی اردو دشمن کی ضرورت ہی کیا ہے۔ہم تو خود ہی اردوکو مٹانےَکےدرپےہیں سوایک دن اپنی نادانیوں اور خودغرضیوں کےپہاڑسےدبادیں گے،مٹا دیں گے۔ہم اپنی لسانی وراثت کے مجرم ہیں۔اپنے اسلاف کی ںاخلف اولاد ہیں ہم۔۔۔ناردو زبان کو نہ ہم خودپڑھیں گے نہ اپنی اولاد کو پڑھائیں گے۔اردو کی روٹیاں توڑیں گے لیکن گھر میں اردو کے بجائے ہندی کے اخبارات منگوایں گے۔بہت ہواتوانگریزی کااخبارمنگالیں گےمگراردو اخبار۔؟ توبہ۔۔۔توبہ۔۔۔استغفراللہ۔ پچاس ہزار اورایک لاکھ تک اوراس سے بھی زائد اردوکےنام پر تنخواہیں لیں گے مگر پانچ روپئے کاایک اردو اخبار نہیں خریدیں گے۔اردو کےنام پر اپنی ایک کپ چائے نہیں کم کریں گے۔ اردو زبان کے طفیل میں حاصل شدہ روپیوں سے اپنی ہر ضرورت پوری کریں گے۔ سارے کنبہ کی پرورش کریں گےاور اپنے بچوں کواردوسےدوررکھیں گےکہ اردوپڑھتا ہی کون ہے۔اس کےپڑھنےکافائدہ ہی کیا ہے۔ہماری غلامانہ ذہنیت کو اردو زبان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ہم حسین کے مقابلے میں یزیداوراس کے جانشین ہیں۔اردو اکادمیوں سے اردو مشاعروں اور سیمیناروں کےنام پر لاکھوں روپیوں کا فنڈ لیں گے لیکن پوسٹر اورتشہیری کام ہندی میں کریں گے۔ہمیں اپنی جیبیں بھرنے اوراپنی شہرت سے مطلب ہے۔۔اردو سے ہمیں کیا لینا دینا۔۔۔ کتاب اردو میں چھپوائیں گےاورپبلیسٹی ہندی میں کریں گے۔

 

ہندی میں بات کیجئے،انگلش میں جھاڑئیے

اردو کی قبر کھو د کے جلد ی سے گاڑئیے

 

اردو کا نام ضرور لیں گے لیکن جب تک اسے

مٹا نہیں دیں گے،دم بھی نہیں لیں گے۔ ہم اردو والےہیں۔اردو کاکھائیں گے۔۔ اردو کی دہائی دیں گے مگر اردو رسم الخط کو ہندی کا روپ دے کر اس کی جان بھی لے لیں گے۔۔ ہم اردو والےہیں۔کہتے ہیں کہ زبان ماں کی ہم رتبہ ہوتی ہے۔ماں کی طرح یا ماں جیسی ہوتی ہے۔ اسی لیے مادری زبان کہلاتی ہے۔ہم نے جب بولنا سیکھا تھاتو سب سے پہلے اماں۔۔۔ اماں۔۔۔کہا تھا۔ابا۔۔۔ ابو۔۔۔ بابا۔۔۔ دادا۔۔۔ دادی۔۔۔۔نانا۔۔۔۔ نانی۔۔۔۔کھانا پانی ،کہاتھا۔۔۔ہمارے منھ میں زبان تھی مگراردو نے ہمیں بولناسکھایا۔ایک ماں کی طرح ہماری ضرورتوں کا خیال رکھا۔۔۔

بچپن میں اسی اردو زبان کے وسیلوں سے ہم نے اپنی ہر ضرورت کااظہارکیاتھا۔ہماری ہر ضرورت کو اسی اردو نے پورا کیا تھا۔لیکن جب ہم بڑے ہوئے تواسےاپنےگھرکےباہرنکال دیا۔ہم ماں کے پوت ہیں نہ ماں کےسپوت۔ہم تو ماں کےکپوت ہیں۔اب اگر کچھ لوگ ہمیں بے وفائی،بےرحمی اورستم گری کےطعنے دیتے ہیں تو دیتے رہیں۔ کیا فرق پڑتاہے۔ہم توچکنے گھڑے ہیں جن پر پانی کی ایک بوند بھی نہیں ٹکتی۔چونکہ ہندی والے ہمیں گھاس تک نہیں ڈالتے اس لیے مجبوراً ہمیں اردو میں کتابیں چھپوانی پڑتی ہیں۔ اردو اکادمیوں سے ہمیں آسانی سے روپئیےمل جاتے ہیں۔۔ کتاب پر آسانی سے انعام بھی مل جاتے ہیں۔اور کیوں نہ ملیں گے۔۔ ہمیں سیاسی لیڈروں کی حمایت جو حاصل ہے۔اسی طرح ہم بڑے بڑے ایوارڈز بھی چھین لیتے ہیں۔۔ ہم نام اردوکاضرورلیتے ہیں لیکن کام ہندی کاکرتےہیں۔

ہم اس کےزبانی طرف دارہیں۔ہم میر جعفر اور میر صادق کےبھتیجےہیں۔اوریہ سچ ہےکہ ہم نے اردو کی قبربناکراس پرتلسی کےپودے لگادیےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیوند لگے، پھٹے،پرانے،چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی اس لڑکی کو آپ دیکھ رہےہیں۔؟اپنوں ہی کے ہاتھوں سربازار ذلیل ورسوااور خوار، وہ اردوہے۔غیروں کی ٹھکرائی ہوئی۔اپنوں کی ستائی ہوئی۔!بخداہم ہندی کے دشمن نہیں ہیں۔اردو کے دوست بھی نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم نے اردو کو ہندی کی بیساکھی پکڑا دی ہے۔حالانکہ اردولنگڑی ہےاورنہ اپاہج مگر ہم اسے اپاہج بنا دیں گے۔ ہم چاہیں تو اس کے رسم الخط کےذریعےسوشل میڈیامیں اس کی دھوم مچا دیں اور موجودہ زمانہ میں داغ کے شعر کو صادق القول کردیں۔

اردو ہےجس کا نا م ہمیں جا نتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

لیکن ہم ایسا کریں گےنہیں۔کیونکہ ہم احساس کمتری کے شکار لوگ ہیں۔اپنی عام بول چال کی زبان میں بھی ہم اردو کے الفاظ

کم سے کم کرتےجارہےہیں۔ان کی جگہ ہندی اورانگریزی کے لفظوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ اس لیےکررہےہیں تاکہ ہماری جہالت کا بھرم قائم رہےاورہم پڑھےلکھےنظرآئیں۔

 

سر برہنہ سی وہ لڑکی جو سراسیمہ ہے

میر ی اردو ہےجو رسوا سر با ز ا ر ہے،اف

 

دوستو!آؤ! اب صف بستہ ہوجائیں اور زبان اردو کے لیے نمازجنازہ پڑھ لیں۔۔ آہ ائے اردو۔۔۔ ہائے اردو۔۔۔ وائے اردو۔۔۔۔!!تیرے لوگوں نے تیرا نام لےکرتجھےبےموت مارڈالا۔۔۔۔۔

 

انس مسرورانصاری

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)

سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۔یو،پی

رابطہ/وہاٹس ایپ نمبر۔ 9453347784/

متعلقہ خبریں

Back to top button