مضامین

سہ طرفہ حصار بندی سے نبرد آزما ہندوستانی مسلمان

ذکی نور عظیم ندوی -لکھنؤ
مسابقہ جاتی مزاج ، مقابلہ جاتی ماحول صلاحیتیں نکھارنے ، پروان چڑھانے، انفرادی و اجتماعی ترقی اورمقاصد کے حصول میں بہت مفید اور مؤثر ہوتے ہیں ۔ یہ افراد کو اپنا جائزہ لے کر خامیاں دور کرنے ،خوبیاں اپنانے اور صحیح موقع و مقام کی تلاش کے ذریعہ دوسروں کے مقابلہ کچھ الگ اور امتیازی کام کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور اس طرح اچھے و باصلاحیت افرادنکل کر سامنے آتے ہیں اور اپنی عظیم خدمات کے ذریعہ اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
وطن عزیزہندوستان میں الگ الگ صلاحیتوں، مزاج اور خصوصیات کے حامل افراد کی تعداد کسی دوسرے ملک کے مقابلہ کافی زیادہ ہے اگر ان کو مواقع دے کر ان کا مثبت استعمال ہو تو افراد کے ساتھ ساتھ وہ ملک کی شہرت ، ترقی و بلندی میں اہم ترین رول ادا کر سکتے ہیں ،لیکن اگرکسی کو علاقوں، طبقات اور مذاہب کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا یا ان کی حوصلہ شکنی اور حق تلفی کی جائے تو نہ صرف صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ ملکی ترقی اور سماجی خوشحالی و آپسی مسابقاتی مزاج کمزور پڑجاتا ہے ، حوصلہ پست ہو جاتے ہیںاور وہ صلاحیتیں جو ملک و ملت کے لئے مفید ترین ہو سکتی تھیں نقصان دہ ثابت ہونے لگتی ہیں ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ۲۰ فیصد سے بھی کم ہے لیکن ملازمت، کاروباراور تعلیمی میدان میں وہ اس سے بھی بہت پیچھےہیں، گذشتہ چند سالوں سے ان کی تعلیمی پستی ، روزگار میں بے حیثیتی ،ملازمت میں ان دیکھی اور اقتصادی پسماندگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور اب تو ملک میں ہر چیز کو مذہبی عینک سے دیکھنے کا مزاج عام ہوگیا جس کی وجہ سے یہ مسابقہ جاتی مزاج اورمقابلہ جاتی ماحو ل مذہبی منافرت کے سانچہ میں ڈھال کر اس سے مثبت فائدہ اٹھانے کے بجائے زہر آلود کردیا گیا اور وہ مزید پچھڑتے جا رہے ہیں، با صلاحیت افراد کی نشو نما متاثر ہو رہی ہے اور بہت سے با صلاحیت افراد صحیح جگہ اور مناسب مواقع نہ پانے کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہیں اور حکومت و اکثریتی طبقہ ان ۲۰ فیصد افراد اور ان کی صلاحیتوںسے فائدہ اٹھانے کےبجائےان کو مزید کمزور اور ہر میدان میں پیچھے ڈھکیلنے کے لئے سر گرم ہے اور اس طرح بڑی تعداد میں اعلی صلاحیتیں ان کے خلاف سازشوں میں ضائع ہو رہی ہیںاور اس دوہری کشمکش اور آپسی منافرت کی وجہ سے بے شمار اعلی صلاحیتیں فائدہ نہیں اٹھا پا رہیںگویا ملک کی ایک بڑی آبادی اس منفی ذہنیت کا شکار ہو کر کچھ کر دکھانے کے بجائے بہت کچھ کھونے اور ضائع کرنے کی صورتحال سے دوچار ہے اور جس ملک کی صلاحیتیں اس طرح ضائع ہو جائیں اس ملک کی ترقی و خوشحالی متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔
موجودہ ملکی صورتحال اور مذہبی کشمکش کےسنجیدہ جائزہ سے یہ واضح ہوتاہے کہ بے شمار ملکی صلاحیتیں اپنی ترقی و خوشحالی سے کہیں زیادہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کی پالیسی پر  اس طرح عمل پیرا ہیں کہ عمومی ملکی مفاد اور خوشحالی و ترقی ثانوی معلوم ہوتی ہے اور بیک وقت کم سے کم تین اطراف سے انہیں نقصان پہنچانے اور پسماندگی کے گڑھے میںڈھکیلنے کا مذموم اور منفی کام زوروں پر ہے ۔
۱- حکومت تعلیم روزگاراور ملازمت سے مکمل پہلو تہی اختیار کرکے ان کو اپنے مسائل میں الجھا دینے کی روش پر آگے بڑھ رہی ہے،ان کو سی اے اے، مدارس اور وقف جائدادوں کے سروے ، تعلیم یافتہ نوجوانوں اور بعض تنظیموں پر بغیر کسی ثبوت الزام تراشیوں اور غیر ضروری کاروائیوں، نماز اور دیگر دینی شعائر کی ادائیگی میں رکاوٹوں، مسجدوں کی ملکیت پر سوال جیسے الگ الگ بہانوں سے پریشان کررہی ہے، بلکہ اب تو زبردستی مساجد میں ہنگامہ، تالا توڑنے اورپوجا پاٹھ کے واقعات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ ان کی جائدادوں اور دیگر املاک کو بے بنیاد الزامات لگا کر زمیں دوز کرنے اورآئے دن بے شمارعدالتی مسائل میں الجھاکرہمیشہ ان کو دفاعی پوزیشن میں رکھنا چاہتی ہے۔ ہر لمحہ بلڈوزر کا خوف و ڈر انہیں کسی طرح خدشات سے نکلنےاور بے خوف اپنے بنیادی مقاصدکو سامنے رکھ کرکچھ مثبت کرنے کا موقع نہیں دیتا۔
۲- نظریاتی سطح پرحکومت کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس مسلمانوں کے عقائد، عبادات، طرز معاشرت اور نظریات پر نا صرف بے بنیاد الزام تراشیاں کرکےدین سے کم واقف لوگوں میںشکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتی ہے بلکہ ان میں اپنے ہم خیال افراد کی تلاش کے ذریعہ خود ان کے ذریعہ اسلام پر اعتراضات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور اب توبعض مسلم تنظیموں اور افرادپر دبائو اور ملی مسائل سے کسی قدر کم واقف لیکن دوسرے میدانوں میں قابل ذکر دانشوروں کے توسط سے کبھی دوسرے مذاہب کے لئے خاص اصطلاح(کافر) کے استعمال سے روکنے کی کوشش ہوتی ہے حالانکہ یہ کسی برے مفہوم میں نہیں ، تو کبھی اپنے مذہب کے ساتھ دوسرے مذاہب کی سچائی کے اعلان کا مطالبہ ، کبھی ان کو امت مسلمہ کے بین الاقوامی تصور سے الگ کرنے کی باتیں اور سب سے بڑھ کر مذہب کے بجائے ملکی جغرافیائی حد بندی ’’ہندو‘‘ کے ذریعہ تعارف پر زور دیا جاتا ہے اور ملک پر قربان مخلص اور سچےمحب وطن کے بجائے ان کو صرف ’’وطن پرست‘‘ بنانے کی کاشش کی جاتی ہے۔
۳  – شدت پسند تنطیموں کے ذریعہ منافرت بڑھانے کے لئےمسلمانوں کو ایسے دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے تعلق سےبنا کسی خوف ہر کچھ دنوں بعدکوئی نہ کوئی پروگرام ہوتا رہتا ہے ،جس کی ایک کڑی9 /اکتوبر 2022 کو قومی راجدھانی دہلی کا وہ پروگرام بھی تھا جس میں مسلمانوں کو سبق سکھانے اور ان کے خلاف اکٹھے ہو جانے ،انگلیوں اورہاتھ ہی نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر گلا کاٹنےکی باتیں جلسہ عام میں ہوئیں تو کسی نےچاقو کی لڑائی لفظوں سے نہ کرنے اور ہندؤں کو شاستر اور ہتھیار ساتھ لے کر چلنے کی دہائی دی اور کہا کہ بندوق اور لا ئسنس لے لو لیکن اگر لائسنس نہیں تو فکر کی بات نہیں ۔یہی نہیں بلکہ حکومتی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما جیسے افرادنے مسلمانوں کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل کی اور اس سلسلہ میں مجمع عام میں حلف لیا اور اسی پارٹی کے ممبر اسمبلی نےضرورت پڑنے پر ۵۰ہزار افراد کو لانے کی دھمکی کے ساتھ گذشتہ سالوں دہلی میں فساد کے موقع پر اپنے افراد لانے کا بغیر کسی خوف اعتراف بھی کیا ۔
مجھے ادیان و ملل کا طالب علم ہونے اور ان کے عروج و زوال کی تاریخ کے مطالعہ کی وجہ سے یہ لکھنے میں بالکل تردد نہیںکہ نبی اکرم اور اس سے پہلے اسلام کے دیگر انبیاء اور ان کی امتوں کے خلاف بھی ہر دور میں اس طرح کی سازشیں ہوئیں لیکن دشمنوں کو کامیابی نہیں مل سکی ہاںجب مسلمانوں نے اپنے اعلی اخلاق، بلند کردار اور امتیازی اقدار کو فراموش کرنا شروع کیا تو پھر وہ ہر طرح ذلیل و خوار بھی ہوئے اور دشمنوں کا تر نوالہ بھی بن گئے لہذا آئیے نبی اکرمﷺ کی ولادت اور وفات کے مہینے میںان کی ان اعلی تعلیمات کو مضبوطی سے اپنانے کا عہد کریں جو ہر طرح کی کامیابی، ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے ۔جس میںنبی اکرم نے عقائد و عبادات ، اصول معاشرت اور سب سے بڑھ کر کسی بھی سماج کی کامیابی کے ان بنیادی اصولوں کی طرف توجہ دلائی جنہیں اختیار کرنے کے بعد ان کو کوئی نقصان پہونچانے اور ذلیل و خوار کر نے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔جن میں صبرو ضبط،سچ بولنا ،سچائی کا ساتھ دینا ،سچائی پر عمل کرنا ، ہر معاملہ میں امانت داری اختیار کرنا ،کسی کے ساتھ کسی طرح کی بے ایمانی گو راہ نہ کرنا اوربغیر کسی تمیز اور فرق ہر حال میں عدل و انصاف کے پیمانہ کو مد نظر رکھنا خاص طور پر قابل ذکر ہےیہاں تک کہ یہ واضح اعلا ن فرمادیا کہ ’’کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دوں گا‘‘ اور اس چیزپر زور دیا کہ نہ کسی پہ ظلم کرو اور نہ کسی پر ظلم ہونے دو ۔ لہذا امت مسلمہ پنے خلاف ہونے والی شرارتوں اور سازشوں سے نہ گھبرائے اور ان اعلی اخلاق و اقدار پر مکمل طور پر جم کر خود بھی محفوظ رہیں اور اسے اپنے ملک میں بھی عام کرنے کی کوشش کریں تاکہ کوئی اس کی طرف بھی غلط نظر نہ ڈال سکے ۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا                 لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
[email protected]

متعلقہ خبریں

Back to top button