مضامین

خوشی و کرم نوازی کا دن ہے عید الفطر

تحریر: جاوید اختر بھارتی

ایک بار کسی بھکا ری نے کفار سے سو ال کیا، اُنہوں نے مذاقاً امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا مولیٰ مشکل کشا، علیُّ الْمُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس بھیج دیا جو کہ سا منے تشریف فرما تھے ۔ اُس نے حا ضر ہو کر دست سوال دراز کیا، آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے 10 بار دُرُود شریف پڑھ کر اُس کی ہتھیلی پر دم کر دیا اور فرمایا:’’ مٹھی بند کر لو اور جن لوگوں نے بھیجا ہے اُن کے سامنے جا کر کھول دو۔‘‘ (کفار ہنس رہے تھے کہ خالی پھو نک مارنے سے کیا ہوتا ہے! ) مگر جب سائل نے اُن کے سامنے جاکر مٹھی کھولی تو اُس میں ایک دِینار تھا! یہ کرامت دیکھ کر کئی کافر مسلمان ہو گئے۔

وِرد جس نے کیا دُرود شریف اور دل سے پڑھا دُرود شریف

حاجتیں سب رَواہوئیں اُس کی ہے عجب کیمیا دُرُود شریف

مسلمان بھائیو ! اللہ تبارک و تعالیٰ کے مَحبوب ،دانائے غُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رَمضان شریف کے مبارَک مہینے کے مُتَعَلِّق ارشاد فرمایاہے کہ اِس مہینے کا پہلا عشرہ رَحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنَّم سے آزادی کا ہے۔

 

معلوم ہوا کہ رَمَضانُ الْمُبَارَک رَحمت ومغفرت اور جہنَّم سے آزادی کا مہینہ ہے ،لہٰذا اِس رحمتوں اور برکتوں بھرے مہینے کے فوراً بعد ہمیں عید سعید کی خوشی منانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے اور عید الفطرکے روز خوشی کا اِظہار مستحب ہے۔اللہ کے فضل ورحمت پر خوشی کرنے کی ترغیب تو قراٰنِ کریم میں بھی موجود ہے ۔

تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اُسی کی رَحمت، اور اِسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ۔

دل زندہ رہے گا:

نبیوں کے سلطان ، رحمتِ عالمیان ، سردارِ دو جہان محبوبِ رحمن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: ’’جس نے عیدین کی رات (یعنی شبِ عیدالفطر اور شب عِیدُ الْاَضْحٰی)طلبِ ثواب کیلئے قیام کیا ،اُس دن اُس کا دِل نہیں مرے گا، جس دن (لوگوں کے) دِل مرجائیں گے۔‘‘

 

جنت واجب ہوجاتی ہے:

ایک اور مقام پر حضرتِ سَیِّدُنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں : جو پانچ راتوں میں شبِ بیداری کرے اُس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ ذُو الْحِجّہ شریف کی آٹھویں ، نویں اور دسویں رات (اِس طرح تین راتیں تو یہ ہوئیں ) اور چوتھی عِیدُ الفِطْر کی رات، پانچویں شَعْبانُ الْمُعظَّم کی پندرھویں رات (یعنی شبِ بَرَاء ت ) ۔ ( اَلتَّرْغِیْب وَ التَّرْھِیْب )

 

معافی کا اعلان عام:

حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی ایک رِوایت میں یہ بھی ہے : جب عیدُ الْفِطْر کی مبارَک رات آتی ہے تواِسے ’’لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ‘‘ یعنی ’’اِنعام کی رات‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تواللہ تبارک وتعالیٰ ا معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اِس طرح ندا دیتے ہیں : ’’اے اُمَّتِ مُحمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اُس ربِّ ذوالجلال کی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے‘‘ ۔ پھراللہ ہو رب العالمین ا پنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’اے میرے بندوں!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روزاِس (نماز عیدکے) اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا(یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو)میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم !میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں ) کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ لوٹ جاؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔‘‘

کوئی سائل مایوس نہیں جاتا:

اے مسلمانوں! غور تو فرمائیے! عِیدُ الْفِطْر کا دِن کس قدر اَہم ترین دن ہے، اِس دِن اللہ ربُّ العزّت کی رَحمت نہایت جوش پرہوتی ہے، دربارِ خداوندی سے کوئی سائل مایوس نہیں لوٹا یا جاتا ۔ ایک طرف اللہ کے نیک بندےاللہ عَزَّوَجَل کی بے پایاں رَحمتوں اور بخششوں پر خوشیاں منارہے ہوتے ہیں تو دُوسری طرف مؤمنوں پراللہ کریم کی اِتنی کرم نوازیاں دیکھ کر اِنسان کا بد ترین دشمن شیطان آگ بگولہ ہوجاتا ہے ۔

شیطان کی بدحواسی:

حضرت سَیِّدُنا وَہب بن مُنَبِّہ(مُ۔نَبْ۔بِہْ)رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جب بھی عید آتی ہے، شیطان چیخ چیخ کر روتا ہے ۔اِس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گرد جمع ہوکر پوچھتے ہیں : اے آقا!آپ کیوں غضب ناک اور اُداس ہیں ؟ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آج کے دِن اُمّتِ مُحمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بخش دیا ہے، لہٰذا تم اِنہیں لذات اورنفسانی خواہشات میں مشغول کردو۔ (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب)

 

کیا شیطان کامیاب ہے؟:

شیطان پر عید کا دِن نہایت گراں گزرتا ہے لہٰذا وہ شیاطین کو حکم صادِر کردیتا ہے کہ تم مسلمانوں کو لذاتِ نفسانی میں مشغول کردو!ایسا لگتا ہے،فی زمانہ شیطان اپنے اِس وار میں کامیاب نظر آرہا ہے۔ عید کی آمد پر ہونا تو یہ چاہئے کہ عبادات وحسنات کی کثرت وبہتات کرکے ربِّ کائنات کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کیا جائے،مگر افسوس ! صدکروڑ افسوس!اب اکثر مسلمان عید سعیدکا حقیقی مقصد ہی بھلا بیٹھے ہیں ! وَا حسرتا! اب تو عید منانے کا یہ انداز ہوگیا ہے کہ بے ہودہ نقش و نگار بلکہ مَعَاذَ اللہ جاندار کی تصویر والے بھڑ کیلے کپڑے پہنے جاتے ہیں (بہار شریعت میں ہے کہ جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو اُسے پہن کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے،نماز کے علاوہ بھی ایسا کپڑا پہننا ناجائز ہے۔ (بہارِ شریعت ) رَقص و سُرُور کی محفلیں گرم کی جاتی ہیں ،گناہوں بھرے میلوں ، گندے کھیلوں ، ناچ گانوں اور فِلموں ڈِراموں کا اِہتمام کیا جاتا ہے اور جِی کھول کر وَقْت و دولت دونوں کو خِلافِ سُنَّت و شریعت اَفعال میں برباد کیاجاتا ہے۔ افسوس !صَد ہزار افسوس! اب اِس مُبارَک دن کو کس قدر غلط کاموں میں گزاراجانے لگا ہے ۔ میرے اسلامی بھائیو!اِن خلافِ شرع باتوں کے سبب ہوسکتا ہے کہ یہ عید سعید ناشکروں کے لئے ’’یومِ وَعید‘‘ بن جائے۔ لِلّٰہ! اپنے حال پر رحم کیجئے ! فیشن پرستی اور فُضُول خرچی سے باز آجائیے ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے فضول خرچی کرنے والے کو قراٰنِ پاک میں شیطانوں کا بھائی قراردیا ہے(اور فُضُول نہ اُڑابے شک اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بڑاناشکرا ہے)

یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے’’تبذ یر ‘‘کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کے بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک دِرہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔

آئیے موجود دور میں ہم اپنی خوشیوں کو منانے کا جائزہ لیں ایک ماہ تک ہم نے رمضان المبارک کا روزہ رکھا برے کاموں سے بچتے رہے اور ایک ماہ روزہ رکھنے کی خوشی میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عید الفطر جا خوشیوں کا تہوار عطا فرمایا شیطان ایک مہینے تک قید رہا اور روتا رہا لیکن جیسے ہی عید کا چاند نظر آیا تو سینما گھروں کو بجلیوں و قمقموں اور جھالر سے سجایا گیا اور ہم سمجھ بیٹھے کہ یہ ہمارے استقبال کے لئے سجایا گیا ہے مگر نہیں ائے مسلمانوں تمہارے استقبال کے لئے نہیں سجایا گیا بلکہ تمہارے امتحان کے لئے سجایا گیا کہ دیکھا جائے کہ تم نے ایک مہینہ رمضان کا روزہ رکھا ہے تو تمہارے اوپر اس کے کچھ اثرات مرتب ہوئے ہیں کہ نہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ تم نے بس ایک رسمی کردار ادا کیا ہے کہ روزہ نہیں رکھیں گے تو لوگ کیا کہیں گے یاد رکھنا چاہیے جو اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھے گا تو اس کی زندگی میں ضرور انقلاب آئے گا اور وہ رمضان المبارک کے مہینے میں رحمتوں اور برکتوں کی بارش میں نہائے گا تو وہ عید کی خوشی میں دنیاوی واٹر پارک میں نہانے نہیں جائے گا، جو ایک مہینے تک رمضان میں دل سے تراویح پڑھے گا اور دل سے قرآن سنے گا تو وہ عید کی خوشی میں بھی سینما گھروں میں نہیں جائے گا اور گانے نہیں سنے گا بلکہ اسے عید کے دن بھی اس بات کا احساس رہے گا کہ مساجد کے میناروں سے اذان کے کلمات آج بھی بلند ہوں گے اور مساجد میں نمازیں آج بھی ہوں گی اور آئندہ بھی ہوں گی لہذا ہمیں ایسا کام کرنا چاہئے کہ ہمیشہ خدا کا قرب حاصل رہے اور ہمیشہ خدا کا قرب حاصل ہو اس کے ہر دن عید ہے اور عید الفطر اس کے لئے اللہ کی طرف سے خصوصی انعام ہے خصوصی تحفہ ہے جو ایک مسلمان کے لئے بہت ہی خوش قسمتی کی بات ہے-

[email protected]

+++++++++++++++++++++++++

جاوید اختر بھارتی ( صدر اشرفیہ لائیبریری) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button