مضامین

قابل پسر کے قابل فخر فرزند مولانا نسیم اختر شاہ قیصر

عاصم طاہر اعظمی
ایڈیٹر آئی این اے نیوز اعظم گڑھ
+91 7860601011
 دیوبند کے تعلیمی زمانے میں جن شخصیات کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے ان میں سے ایک عظیم شخصیت نامور قلم کار مشہور انشاء پرداز استاد گرامی قدر مولانا نسیم اخیر شاہ قیصر صاحب نوراللہ مرقدہ تھے، حقیقت یہی ہے کہ آج جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں انھیں کی عنایتوں کا ثمرہ ہے آپ کی قربانیوں اور شفقتوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا آپ ہی نے قلم پکڑنا سکھایا مرحوم و مغفور بحیثیت انسان اور بحیثیت استاد میرے لیے ایک عظیم ہستی تھے مرکز نوائے قلم سے حجتہ الاسلام اکیڈمی تک قدم قدم پر آپ نے میری رہنمائی فرمائی آپ میرے لیے ایک استاد ہی نہیں بلکہ ایک محسن ایک مربی ایک رہنما تھے،
آپ کی پیدائش 25 اگست 1962 کو مرکز علم و ادب سر زمینِ دیوبند میں ہوئی آپ کے والد گرامی مولانا ازہر شاہ قیصر صاحب محدثِ عصر حضرت مولانا انور شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ کے فرزندِ اکبر تھے،
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نور اللہ مرقدہ گہرے علمی رسوخ کے علاوہ سادہ طبیعت اور صاف گو مزاج کے انسان تھے آپ کا انداز یہ تھا کہ مسکراتے یا ہنستے اور پھر بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے آپ کی شخصیت میں بہت سے پہلو بڑے قابلِ رشک اور قابل تقلید تھے خصوصاً صاف گوئی آپ کی زندگی کا اصول تھا، طلبہ کی حوصلہ افزائی اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے نہایت ہی خوش اخلاق، خوش گفتار اور بزرگوں کی یادگار تھے انکی حوصلہ افزائی نے نہ جا نے کتنوں کو قلم پکڑنا بلکہ قلم دوڑانا سکھا دیا بالکل کھلے اور کھرے انسان، اندر باہر بالکل یکساں، زبان و دل میں مکمل ہم آہنگی، اکابر کی ایک ایک بات ازبر، گفتگو کا انداز آبشار جیسا، آواز میں غضب کی چاشنی، بلندی، بر جستگی، مزاج کی تحریر میں بھی شگفتگی، جس طرح آپ کی گفتگو کانوں میں رس گھولتی ویسے ہی آپ کی تحریر دل و دماغ کو معطر کرتی، یادگارِ زمانہ تھے انکی تصانیف جسے بار بار پڑھنے کے بعد بھی پھر پڑھنے کی خواہش ہو چھوٹوں کو بڑا بنانے کا عجیب و غریب سلیقہ قدرت نے عطا کیا تھا جن احباب کا ان سے تعلق تھا وہ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے،
تعلیم از اول تا آخر دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی۔ ادیب، ادیب ماہر، ادیب کامل اور معلم اردو جامعہ اردو علی گڑھ سے کیا‌، عالم دینیات، ماہر دینیات، فاضل دینیات جامعہ دینیات دیوبند سے کیا، اسلامیہ انٹر کالج دیوبند سے عصری تعلیم حاصل کی، ایم، اے، اردو آگرہ یونیورسٹی آگرہ سے کیا،
1987 میں دارالعلوم وقف دیوبند سے منسلک ہوگئے تھے پھر پوری زندگی وہیں پر تدریسی خدمات انجام دیتے رہے،
جنوری 1973ء میں مضمون نگاری کا آغاز کیا حیاتِ مستعار میں 1200 سے زائد دینی، علمی، فکری، ادبی، تحقیقی، شخصی، سماجی اور سیاسی مضامین، پچاس سے زائد کتابوں پر آرا، تقاریظ اور تاثرات قلم بند فرمائے۔
ماہنامہ ”طیب“ دیوبند، پندرہ روزہ ”اشاعت حق“ دیوبند، پندرہ روزہ ”ندائے دارالعلوم“ دیوبند، پندرہ روزہ ”دیوبند ٹائمز“ دیوبند جیسے ادبی اور مقبول رسالوں کے مدیر رہے۔
روزنامہ ”ہندوستان ایکسپریس“ دہلی، روزنامہ ”ہمارا سماج“ دہلی، روزنامہ ”خبریں“ دہلی جیسے مشہور اخبارات میں کئی سالوں تک مستقل  کالم لکھا۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی کی اردو مجلس اور سروس سے بھی آپ کی نشریات مقبول خاص و عام رہی ملک کے طول و عرض میں منعقد ہونے والے مختلف علمی، دینی، ادبی اور تعلیمی سمیناروں میں شرکت فرمائی۔
آپ کی تصانیف کی تعداد تقریبا بیس سے زائد ہیں جس نے علمی و ادبی حلقوں میں خوب داد و تحسین حاصل کی ہیں،
دیوبند میں طلبہ کو مضمون نویسی و انشا پردازی کی تربیت دینے کے لیے ”مرکز نوائے قلم” کے نام سے ایک ادارہ بھی چلا رہے تھے، جس کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں
جہاں تک ’’مرکز نوائے قلم‘‘ کی بات ہے تو اس کا تعلق دیوبند میں زیر ِ تعلیم طلبہ  اور مقامی افراد سے  ہے۔ ان طلبہ نے  میرے اس قلمی مشن میں دلچسپی لی اور وہی میرا مقصود بھی تھے کہ وہ طلبہ جن میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت اور فطری رجحان ہے ان کی قلمی تربیت کے لیے کوئی راہ نکالی جائے۔ سو مرکز نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا اور گزشتہ دس سال میں اس کے توقع سے بہتر نتائج بر آمد ہوئے۔ طلبہ نے گہری دلچسپی لی اور پابندی کے ساتھ مرکز میں وہ آتے رہے جہاں زبان، اسلوب اور مطالعے وغیرہ سے نہ صرف یہ کہ انھیں آشنا کیا گیا بلکہ ان میں سے کافی طلبہ بہت اچھا لکھنے کے قابل ہو گئے، اگر وقت نے انھیں موقع دیا تو یقینی طور پر وہ نمایاں ہوں گے اور آگے بڑھیں گے۔ اس وقت مرکز کے تربیت یافتہ کئی طلبہ پابندی کے ساتھ اردو اخبارات میں ہفتہ واری کالم لکھ رہے ہیں اور دھیرے دھیرے اپنا انداز بنانے میں کامیاب ہیں۔ مدارس میں ذمہ دارانہ طور پر اگر اس طرح کا با ضابطہ شعبہ شروع کیا جائے اور اس کے لیے مرتب نصاب بھی ہو تو طلبہ کی بڑی کھیپ ادب و صحافت کے میدان میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔
گونا گوں خصوصیات کے حامل خاندانی روایتوں کے امین و پاسدار، قابل پسر کے قابل فخر فرزند مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب اپنی اولاد سمیت سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں موجود آپ سے فیض یافتہ طلبہ کرام، متعلقین اور محبین کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہوگئے،
ربِ کریم اعلیٰ علیین میں مقام کریم عطا فرمائے آمیــــن

متعلقہ خبریں

Back to top button