اسپشل اسٹوری

گاوں کی عید خوشیوں کا خزانہ

از، ڈاکٹر تبریزحسین تاج

حیدرآباد تلنگانہ

ہندوستان کی گنگاجمناتہذیب صرف کتابوں میں ہی نہیں ہے بلکہ آج بھی یہ سنہری تہذیب ہندوستان کے گاوں میں جھلک تھی ہے۔ فرقہ پرستوں کی جانب سے اس تہذیب کو مٹانے کی مذموم کوشش کے باجود آج بھی یہاں تمام برادران وطن ایک دوسرے کی خوشیوں میں برابر شریک ہوتے ہیں۔ ہندوستان بھر میں گزشتہ دنوں عید الفظر انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ منائی گئی ۔ کیا مسلمان کیا ہندو سب نے ایک دوسرے سے بغلگیر ہو کر عید کی مبارک باد پیش کی اور عید کی مخصوص ڈش سوئیاں کا ذائقہ لیا۔

آج راقم الحروف بات کررہا ہے اپنے آبائی ٹاون نارائین پیٹ میں منائی گئی عید کی۔ الحمداللہ ، اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس سال بھی والدین کے ہمراہ آبائی ٹاون میں عید کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ ہم جب حیدرآباد سے نارائین پیٹ پہنچے تو اُس دن تلگو کا نیا سال اگادی کا تھا،ہمارا گھر کے اطراف ہندوآبادی ہے۔ جیسے ہی ہم اپنی سوای سے نیچے اُترے تو ہمیں ہمارے پڑوسیوں نے اگادی کی شبھ کامنائیں پیش کرتے ہوئے قبل از وقت عید کی بھی مبارک باد ہیش کی۔ اُن کے مسکراتے چہرے اس بات کی دلیل پیش کررہے تھے کہ وہ خندہ پیشانی ہمارا استقبال کررہے ہیں۔ گاوں کا صاف ستھرا ماحول نیم کے درختوں کی تازہ تازہ ہوائیں اور گھر میں موجود تمام رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے اس پیار بھرے لہیجے سے دلی مسرت ہوئی اورعید کی خوشیاں دوبالا ہوئیں۔ جب ہم نے گھر میں 29واں روزہ کھولا تو پتہ چلا کہ گھر میں پڑوسیوں کی جانب سے اگادی کی مٹھیاں دال پوریاں بھیجی گئی ہیں۔ پڑوسیوں کو دینے کی جو قدیم روایت ہے وہ اب بھی گاوں میں برقرار ہے۔

گاوں میں عید کی تیاری: نارائین پیٹ میں عید کی تیاریاں عید سے دودن قبل شروع ہوتی ہیں۔ ضلع مستقر میں واقع بلدیہ کی جانب نارائین پیٹ ٹاون میں واقع سینکڑوں برس قدیم عید گاہ میں صفائی کے کام انجام دئیے جاتے ہیں۔ عید گاہ جانے والے تمام راستوں کی صفائی عمل میں آتی ہے۔ پینے کے پانی کا نظم ہوتا ہے۔ کمشنر بلدیہ کی راست نگرانی میں تمام انتظامات عید گاہ انتظامی کمیٹی کے تعاون ومشوروں سے انجام دئیے جاتے ہیں۔ نارائین پیٹ کے عید گاہ میں تقریبا دس ہزار سے زائد افراد کے لے نمازادا کرنے کی سہولت ہے۔ اس بارعید گاہ کمیٹی کی نمائندگی اور مقامی ایم ایل اے ڈاکٹر پرینکا ریڈی کی ہدایت پر عید گاہ میں فزاندان توحید کو دھوپ کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لے شامیانے نصب کیے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے ماحول ٹھنڈا اور خوشگوار رہا۔ لوگوں نے انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ سجادہ نشین آستانہ تقی بابا کے جانشین مصطفی قادری کی امامت میں عیدالفطر کی نماز ادا کی۔

بلدیہ کی جانب سے عیدگاہ کےبالکل سامنے ایک استقبالیہ وعیدملن شامیانہ لگاجاتا ہے۔ جہاں گاوں کے سرکاکردہ قائدین بلالحاظ مذہب مسلمانوں کو عید کی مبارک باد پیش کرنے کے لے آتے ہیں۔ یہاں قابل غوربات یہ ہے کہ ان قائدین میں بشمول بی جے پی تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین بھی یہاں موجود رہتے ہیں۔ جن میں قابل ذکر مقامی ایم ایل اے، چیرمین، سابق ارکان اسمبلی ، ریاستی و قومی سطح کے قائدین بھی شامل ہیں۔ تمام لوگوں سے فردا فردا بغلگیر ہوکر عید کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔استقبالیہ وعیدملن شامیانہ ہندوستانی کی انمول گنگاجمنی تہذیب کی علمبرار کی علامت ہے۔ جس میں خلوص پیار اور ایک دوسرے کے تئیں الفت کا اظہار ہوتا ہے۔ رواں برس بھی یہ منظر دیکھ کر دل یہ بول رہا تھا کہ کاش میرے دیش کے سبھی تہوار و عیدوں میں ایسا ہی ایک دوسرے کا احترام برقرار رہا تو ملک سے نفرت کی فضاء ختم ہوگی۔ کیونکہ جب ہم ایک دوسرے سے بغلگیر ہورہے تھے تو ہمہ اقسام کے عطر یات کی خوشبوں ایک دوسرے کے لباس سے مہک رہی تھی کیونکہ کئی اقسام کے عطریات لوگ لگائے تھے۔ بغلگیر ہونے سے یہ خوشبو ایک دوسرے کے لباس منتقل ہوگئی تھی پتہ ہی نہیں چل پارہا تھا کہ کون کس قسم کا عطر لگایا ہے۔ پرفیوم ہماری زندگی میں کسی بھی ملاقات کی یاد پر خوبصورت اور خوشگوار نقوش چھوڑتا ہے، کسی بھی قسم کی خوشبو ایک خاص زبان اور جذبات کو ظاہر کرتی ہے۔ یہاں مہک رہی خوشبو ایسی ہی تھی جیسے ایک گلستان سے جس طرح تمام پھولوں کی خوشبو مہکتی ہے ٹھیک اُسی طرح عید کے موقع پر تمام ملنے والوں کے لباسوں سے ہمہ قسم کے عطریات کی خوشبو بھی ہندوستانی تہدیب ، کثرت میں وحدت کی عکاسی کررہی تھی، یہ بھی نبی کریم صلوسلم عل کی سنت ہے ۔ آپ صلوسلم عل خوشبو پسند کرتے تھے ۔ جیساکہ متعدد احادیث کے اندر موجود ہے مثلا نبی کریم صلوسلم عل نے فرمایا میرے نزدیک دنیا کی پسندیدہ چیزوں میں سے ایک چیز خوشبو بھی ہے ۔ دعا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی خوشبو ہمیشہ مہکتی رہے جس میں ایک دوسرے کے لے پیار ہو نفرت کا خاتمہ ہو ملک میں امن و امان کے ساتھ تمام طبقات اور افراد ہمہ جہت ترقی ہو۔

استقبالیہ وعیدملن شامیانہ میں مبارکبادی کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد اب تمام قائدین چھوٹے گروپس کی شکل میں مسلمانوں کے گھروں کو جاتے ہیں۔ سوئیاں کھاتے ہیں۔ بچوں کو عیدی دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ عید کی خوشیوں میں تمام لوگ شامل ہوتے ہیں۔ خوشگوار و ملنسار فضاء میں عید ادا کی جاتی ہے۔ اس سال بھی ایسا ہی نورانی دلکش منظر دیکھا گیا۔ راقم الحروں کے گھر پربھی مقامی رکن اسمبلی ڈاکٹرپرینکا ریڈی کے بشمول کئی ہندوبھائیوں نےشرکت کی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب کے سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔ یہ چند ایسی یادیں ہیں جو اس سال بھی میں راقم الحروف نے گاوں سےاپنے ساتھ سمیٹ لایا ہے

جئے ہند

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button