مضامین

انسانی جسم میں زبان دو دھاری تلوار _ شرمندگی اور رسوائی کا سبب 

سینئر صحافی 

عقیل الرحمٰن وقار

 

زبان دیکھنے میں ایک مختصر سی چیز ہے لیکن کام کے لحاظ سے ایک بڑی چیز ہے۔ وہ جسم انسانی کا ایک نہایت اہم عنصر ہے۔ مادی لحاظ سے دیکھئے تو دنیا کا لطف بھی اسی سے ہے اگر زبان نہیں تو کسی چیز کا مزہ اور کسی کھانے کی لذت معلوم نہیں ہوتی ، کلام کی شیرینی ، الفاظ کی حلاوت، زبان زد خاص و عام ہے۔ فلاں شخص بڑا شیریں کلام ہے، فلاں شخص بڑا بدزبان ہے، یہ سب الفاظ عام طور سے بولے جاتے ہیں۔ اس کا زندگی پر بہت اثر پڑتا ہے، اسی لئے ایمان لانے والے کےلئے ضروری ہے کہ وہ خدا کی توحید اور رسالت پر ایمان لائے۔ زبان وہ شے ہے جس سے بڑے بڑے فتنے برپاہوجاتے ہیں اور بڑے سے بڑے فتنے کا سدباب بھی ہوجاتا ہے۔ ایک بول سے دوست دشمن بھی بن جاتا ہے اور جانی دشمن دوست بھی ہوجاتے ہیں ۔ خدا نے اس چھوٹی سی زبان کو بڑی طاقت بخشی ہے، اسلئے اس کا صحیح طور پر استعمال کرنا دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے ضروری ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ”ہر صبح کو انسان کے تمام اعضاءزبان کے آگے عاجزی کرتے ہیں، کہتے ہیں: خدا کےلئے ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر۔ اگر تو سیدھی ہے تو ہم بھی سیدھے ہیں

 

، اگر تو ٹیڑھی ہے تو ہم بھی ٹیڑھے رہیں گے۔“ (ترمذی) حضرت معاذ ؓ کہتے ہیںکہ ایک مرتبہ میں آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے فرمایا: ”میں تم کو دین کا سر اور اس کا ستون اور اس کے کوہان کی بلندی بتلاو¿ں؟“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ارشاد فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: ”دین کا سر اسلام ہے اسلئے کہ بغیر اسلام کے دین کا وجود نہیں جس طرح بغیر سر کے بدن بے کارہے، اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کے کوہان کی بلندی جہادہے۔“ پھر فرمایا : ”کیا میں تم کو ان کی جڑ نہ بتاو¿ں؟“ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ضرور فرمائیے۔آپ نے اپنی زبانِ مبارک کو پکڑ کر فرمایا: ”اس کو روکو۔“ حضرت معاذ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ کیا ہماری گفتگو کا بھی ہم پر مواخذہ ہوگا؟“ فرمایا: ”معاذؓ، تعجب ہے تم اتنی بات نہیں سمجھتے۔لوگوں کو منہ یا ناک کے بل جہنم میں گرانے والی چیز زبان نہیں تو اور کیا ہے۔“ حضو ر کے ان پاک ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان اعضائے انسانی میں بڑی قوت و تاثیررکھتی ہے اور اس کی ذرا سی لغزش سے دنیا و آخرت میں بڑا وبال ہوتا ہے۔ اسلئے اس کی حفاظت ازحد ضروری ہے۔ انسان اپنی زبان سے جو بات بھی نکالتا ہے

 

اسکا معاملہ بڑا سنگین ہے۔ یہ الفاظ و اقوال خیر و بھلائی پر مشتمل ہوں تو انسان اجروثواب کا مستحق بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پالیتا ہے اور اگر یہ باتیں شروفساد کے حوالے سے گناہ پر مشتمل ہوں تو انسان تصور سے بڑھ کر عذاب الہٰی کا مستحق بن جاتا ہے اسلئے زبان کو روکے رکھنا، قابو میں رکھنا اورکچھ بولنے سے پہلے اسکے اخروی انجام کے بارے میں ہزار بار سوچنا ازحد ضروری ہے۔ زبان سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں ہوتی لیکن ہر بات نامہ اعمال میں محفوظ اور درج ہورہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے اور اس کا نگراں مقرر فرمایا ہے کہ ایک ایک لفظ محفوظ ہوجائے۔ ارشاد ربانی ہے: ”وہ م±نہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کےلئے) تیار رہتا ہے۔“ ہمارے لئے ضروری ہے کہ جو لفظ زبان سے نکالیں خوب سمجھ کر نکالیں، بات کہیں تو سچی کہیں ورنہ خاموش رہیں کہ خاموش رہنا بہتر ہے۔ بہت سی باتیں ہم بے سوچے سمجھے کہہ جاتے ہیں اور اس کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ بات جملہ ہم کو کہاں لے جارہا ہے اور اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ بعض دفعہ ایک مختصر سی بات، کہنے والے کو جنت میں پہنچا دیتی ہے اور بعض دفعہ جہنم کی راہ دکھا دیتی ہے اور کہنے والے کو اپنے اس انجام کی خبر تک نہیں ہوتی۔ جن لوگوں کو بہت زیادہ بولنے کا مرض ہے ان کا کیا حال ہوگا۔ اسلئے کہ وہ تو بلاسوچے سمجھے بولے چلے جاتے ہیں۔ بسیار گوئی بڑے فتنوں اور فسادوں کا دروازہ کھولتی ہے اور اس کا خمیازہ بعض دفعہ دنیا میںبھی بھگتنا پڑتا ہے اور آخرت میں تو لازمی بھگتنا ہوگا۔بے وقوف انسان جب تک خاموش رہتا ہے، اس کی بے وقوفی پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس ایک عقل مند انسان خاموش ہوتا ہے تو وہ غور و فکر کررہا ہوتا ہے

 

۔ جب وہ بولتا ہے تو ذکر کررہا ہوتا ہے اور جب دیکھتا ہے تو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ ایک عقل مند اور بے وقوف انسان میں فرق ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس زبان میں بہت سی خوبیاں رکھی ہیں اور بہت سے عیوب بھی، ہر خوبی اور عیب کی نشاندہی قرآن شریف اور حدیث پاک میں کی گئی ہے اور اس سلسلے میں بہت سی ہدایات دی گئی ہیں۔

زبان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت اور لطائف صنائع میں سے ایک لطیفہ ہے۔ اس کا حجم اگرچہ مختصر ہے لیکن اس کی اطاعت بھی زیادہ ہے اور گناہ بھی بڑا ہے۔علم کے دائرے میں جتنی بھی چیزیں ہیں خواہ وہ حق ہوں یا باطل، سب کی سب زبان ہی کے ذریعہ بیان کی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو زبان کو دوسرے تمام اعضاءسے جوڑتی ہے۔ان میں صرف زبان ہی ایسا عضو ہے جس کا دائرہ اختیار انتہائی وسیع ہے۔ جس طرح زبان خیر کے میدان میں دوڑ سکتی ہے اسی طرح شر کے میدان میں بھی اسے کوئی شکست دینے والا نہیں۔اسلئے زبان پر قابو رکھنا نہایت ضروری ہے۔ جو شخص زبان پر قابو نہیں رکھتا شیطان اس سے نہ جانے کیا کچھ کہلوا لیتا ہے اور اسے برے انجام کی طرف لے جاتا ہے۔زبان کے شر سے وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو اسے شریعت کی لگام پہنائے اور سنت کی زنجیریں ڈال دے۔ اور صرف اس وقت آزاد کرے جب کوئی ایسی بات کرنی ہو جو دین و دنیا کےلئے مفید ہو اور اسے ہر ایسی بات سے روکے جس کی ابتدا یا انتہا سے برے انجام کی توقع ہو۔ تاہم یہ بات معلوم کرنا کہ کون سی بات اچھی ہے اور کون سی بات بری،کہاں زبان کو بولنے کےلئے آزاد کرنا بہتر ہے اور کہاں برا ہے، انتہائی دشوار ہے۔ اور معلوم بھی ہوجائے تو اس پر عمل کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ انسان کے اعضاءمیں سب سے زیادہ نافرمانیاں زبان سے سر زد ہوتی ہیں کیونکہ اسے حرکت دینے میں نہ کوئی دقت ہے اور نہ تعب و تھکن۔ لوگ زبان کی آفات سے بچنے میں تساہل برتتے ہیں اور اس کے شر کو معممولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ شیطان کا مو¿ثر ترین ہتھیار ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جسم انسانی میں کسی عضو کو بے کار نہیں بنایا، ہر ایک کے سپرد ایک کام رکھا ہے۔ جس طرح کسی مشین میں کوئی پرزہ بے کار نہیں ہوتا، اس کا کچھ نہ کچھ کام ہوتا ہے، اس کی خرابی سے پوری مشین پر اثر پڑتا ہے اسی طرح جسم انسانی ایک مشین ہے، سر سے لیکر پیر تک ہر عضو اس مشین کا پرزہ ہے اور کارآمدہے، اس کی ذرا سی خرابی سے پورے جسم پر اثر پڑتا ہے، ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی۔ اس وقت ہم اس کی دینی، باطنی اور روحانی حیثیت کو پیش نظر رکھ کر کچھ عرض کریں گے ، اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو صرف کھانے اور من مانی زندگی گزارنے کےلئے پیدا نہیں کیا ہے: ”اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔“ (الذاریات:۵۶) اسلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے جسم کے سارے اعضاءسے وہ کام لیں جس میں اللہ کی رضا اور خوشنودی ہو اور ان کاموں سے بچائیں جن کے کرنے سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ جسم انسانی میں چند اعضاءکو بڑی اہمیت حاصل ہے ، ان میں آنکھ، کان ، زبان ، دل اور دماغ ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔“ (الاسراء:۳۶ )

موجودہ دور کا سب سے بڑا المیہ دکھاوا ہے۔ دکھاوے کی عادت نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔دکھاوا ایک ایسی انسانی کمزوری ہے جس نے لامتنا ہی مسائل کھڑے کردئیے ہیں۔ اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے برتر ثابت کرنے کیلئے اپنی چادر سے زیادہ پاﺅں پھیلانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ آج پورا معاشرہ دکھاوے جیسی برائی میںمبتلا دکھائی دیتا ہے۔دکھاوے کی عادت آپ کے احساس کمتری میںمبتلا ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ اپنی شان وشوکت دکھانے کیلئے، اپنی واہ واہ کی خاطر لوگ اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔قرض لے کر اپنی اندھی خواہشات کو پورابھی کرتے ہیں۔تاکہ دنیا ان سے مرعوب ہو، اپنی خواہشات کی غلامی کرنے والے لوگ سود پر بھی قرض لیتے ہیں وہ اسے بھی برا نہیں سمجھتے ،ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اخراجات کئے جاتے ہیں۔ شان وشوکت دکھانے کی دوڑ میں ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے۔ انہیں حرام اورحلال کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ ہم آخر کس راستے کی طرف چل پڑے ہیں۔ سادگی مسلمان کا شعار ہے، اس بات کو ہم فراموش کرچکے ہیں۔ ایک دوسرے کی اندھی تقلید ہمیں کس گہری کھائی کی طرف لے جارہی ہے، ہم اس سے بے خبر ہیں۔ دکھاوے کی عادت نے ہماری آنکھوں پر بے حسی کی پٹی باندھ دی ہے۔ پھوٹے مکانوں میں بھی خوشیاں رقص کرسکتی ہیں جہاںدکھاوا نہ ہو وہاں لوگ چین کی نیند سوتے ہیں۔ کیونکہ ان کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے، ان کے ضمیر پرکوئی بوجھ نہیں ہوتاہے۔ دکھاوے کا جھوٹ سے بھی گہرارشتہ ہے، دکھاوا کرنے والا شخص کبھی بھی سچا نہیں ہوسکتا۔ دکھاوا کرنےوالے کی بات جھوٹ سے شروع ہوکر جھوٹ پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔انسان جھوٹ بولنا چھوڑدے تو ہر برائی خود بخود ختم ہوجایا کرتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کےلئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اللہ، کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔(سورة البقرہ) دکھاوے کی زندگی اورزبان ‘بڑے کام کی چیز ہے۔اللہ تعالیٰ لکھنے والے اور پڑھنے والوں کو اپنی مرضیات پر چلائے اور زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ خبریں

Back to top button