مضامین

راہول جی،پہلے کانگریس جوڑو

ڈاکٹر تبریزحسین تاج

جوائنٹ ایڈیٹر منصف ٹی وی، حیدرآباد

(نوٹ اس مضمون میں شامل مواد رقم کی سوچ وفکر کانتیجہ ہے اُس سے ادارہ کا کوئی تعلق نہیں ہے) 

 

کانگریس پارٹی کے سابق صدر، وائناڈ لوک سبھا حلقے کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی ان دنو ں بھارت جوڑو یاترا کررہے ہیں۔ان کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ راہل کا یہ اقدام دیر آید پر درست آیدکے مترادف ہے۔7ستمبر کو تمل ناڈو کے کنیاکماری سے راہل نے اپنی اس یاترا کو شروع کیا۔150دنوں کی یہ طویل یاتر املک کے بارہ ریاستوں سے گزرتے ہوئے جموں وکشمیر کو پہنچے گی۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاتراکمزور کانگریس پارٹی کے لے کافی فائدہ مند ثابت ہوپائے گی۔ کیونکہ جمہوریت کے علمبرداری کا دعوی کرنے والی کانگریس پارٹی میں اندورنی جمہوریت اتنی عروج پر ہے کہ پارٹی داخلی انتشار کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ سینئر قائدین خود اپنی ہی پارٹی میں اپنی ناراضگیوں کو کھل کر میڈیا کے سامنے رکھ رہے ہیں۔جبکہ غلام نبی آزاد جیسے سینئر قائد اپنے مستقبل کو لیکرپارٹی چھوڑ چکے ہیں جبکہ اور کئی اضطراب آمیز کیفیت میں مبتلہ ہیں۔ان تمام سرگرمیوں سے بھارت کی عوام کو یہ واضح پیام مل رہا ہے کہ کانگریس میں قیادت کا فقدان ہے کیونکہ گزشتہ ایک طویل عرصہ سے پارٹی عبوری صدر کی قیادت میں چلائی جاررہی ہے۔جبکہ ملک میں موجودہ اپوزیشن چھوٹی چھوٹی پارٹیوں میں بکھر گئی ہے۔کانگریس قائد راہل گاندھی کے لے سب بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ان تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک چھت کے تلے لانے میں کامیاب ہوپائیں گے؟بنگال میں ممتا، بہار میں لالو نتیش، مہاراشٹر میں شردپوار، کرناٹک میں کمارا سوامی، یوپی میں اکھلیش، مایا، تلنگانہ میں کے سی آر، آندھرا میں جگن وچندرابابو، تمل میں اسٹالن اسی طرح دوسری ریاستوں میں دیگر قائدین اپنی اپنی متعلقہ ریاست کے ووٹروں میں اچھی پکڑ بنائے ہیں۔ عام آدمی پارٹی اپنے آپ کو بی جے پی کے متبادل کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے پنچاب میں کامیابی کے بعد گجرات میں قسمت آزمارہی ہے۔اوردیگر ریاستوں میں بھی پر کھولنے کی کوشش میں ہے۔ کانگریس کامقابلہ ان ریاستوں میں بی جے پی کے ساتھ ان علاقائی پارٹیوں سے بھی ہے۔تو ایسے میں راہل گاندھی کی کیا حکمت عملی ہوگی کیا وہ قبل از وقت انتخابی تحاد کرکے عام چناؤ میں جائیں گے یا پھرالیکشن کے بعد ایک جٹ ہونے کی کوشش کریں گے یہ واضح ہونے کی ضرورت ہے۔ راقم الحروف نے تلنگانہ کے درجنوں اسمبلی حلقہ جات میں کانگریس قائدین سے بات کی تو اُس میں اکثرقائدین کی یہی شکایت تھی کہ پارٹی میں ٹکٹ کو لیکر کوئی یقین دہانی نہیں اس لے اب اگر کام کریں تو پیسے اور وقت کا ضائع کرنا ہے۔ کیونکہ آج کل دنیا مفاد پرستی کی سمت آگے بڑھ رہی ہے۔ ایسے موجودہ دور کے قائدین کی اکثریت پارٹی مفاد سے زیادہ نجی مفادات کو ترجیح دئیے ہوئے ہیں۔کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ حالات بھانپ لیتے ہوئے اگر انتخابات سے دو سال قبل ہی کانگریس پارٹی اُمیدوار طئے کرتی ہے تو اس کے مثبت نتائج برامد ہوسکتے ہیں۔

 

کانگریس پارٹی کے لے صدرکاانتخاب بھی ایک بڑا چیلنج بناہوا ہے۔ کیونکہ صدارتی عہدے کیلئے دوڑ میں شامل اشوگ گہلوت کے حامیوں نے راجستھان میں کانگریس کے لے ایک نیا بحران کھڑا کردیا ہے۔کانگریس کے اس سردود کولیکر شوسل میڈیا میں زور وشور سے یہ چل رہا ہے کہ بھارت کو جوڑنے نکلے راہل پہلے سچن اور گہلوت میں مفاہمت کروائیں۔جب راہل نے بھارت جوڑو یاتر ا شروع کی ٹھیک اُسی وقت گوا میں کانگریس کے آٹھ ارکان اسمبلی نے کانگریس چھوڑو پر عمل کیا اور پارٹی کو شدید جھٹکہ دیا۔

 

برسراقتدار جماعت بوتھ لیول پر اپنے کارکنوں کو پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ الیکشن کے بوتھ سطح پر بھی میکر و بلاکنگ کرکے چندووٹروں کے ایک ایک گروپ بناکر ایک ایک کارکن کواس کی ذمہ داری فراہم کرنے کے عمل میں جٹی ہوئی ہے ایسے کارکنوں سے محروم کانگریس کیا اس مقابلہ کرسکتی ہے؟کیونکہ کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط نہیں دکھائی دے رہا ہے۔سیاسی اُمور کے ایک ماہر سے میں نے اس تحریر کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا تو انہوں نے یہ تبصرہ کیا کہ ایک طویل عرصہ سے کانگریس چلتے آرہی ہے اسی لے اب بھی لوگوں کے دماغوں میں کانگریس باقی ہے۔ اگر ایسی ہی صورتحال رہے گی تو کانگر یس نئی نسل کے لے تاریخ کا ایک باب بن جائیگی۔علاقائی جماعتیں اپنی اپنی ریاستوں میں عروج پر رہیں گی۔اُن کا یہ ماننا تھا کہ قومی مسائل کو لیکر کانگریس کو ہمیشہ عوام کے بیچ رہنا ہوگا۔

 

مذکورہ ان تمام امور کا جائزہ کیا راہل اور اُنکی ٹیم لے سکے گی۔بھارت جوڑو یاترا کانگریس قائدین کو اپنے وجود کا آئینہ دکھا پائیگی ایسے ہی بیشتر سوالات کے جوابات آنے والا وقت دے پائیگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ خبریں

Back to top button