مضامین

موبائل کی دنیا

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

موبائل کی وجہ سے معلومات کی بر وقت فراہمی بہت آسان ہو گئی ہے اور ہم سب کے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ دنیا بھر کی معلومات آن واحد میں جمع کر لیں، نیٹ کی سہولت دستیاب ہو تو سکنڈوں میں گوگل آپ کو بتادے گا کہ وقت کے کس حصہ میں دنیا پر کیا آفت آئی اور کس طرح اس پر قابو پایا گیا، اب انسائکلو پیڈیا کی موٹی موٹی کتابیں کھنگالنے کے بجائے واکی پیڈیا ہی مطلوبہ معلومات مالہ وما علیہ کے ساتھ بتا دیتا ہے ، تلاش بسیار کی جھک ماری سے اب کسی کو نہیں گذرنا پڑتا ، ایک دور وہ تھا جب مجھے قرآن کریم میں اللہ کے محبوب بندے کی تلاش کرنی تھی ، تو پورے قرآن کریم کی تلاوت حرفا حرفا کرنی پڑی تھی ، تب ایک فہرست محبوب بندے کی بن پائی تھی، آج ”ان اللہ یحب“ ڈال دیجئے اور پوری فہرست سکنڈوں میں آپ کے پاس موجود ، اس اعتبار سے دیکھیں تو موبائل اور نیٹ کی سہولیات اللہ رب العزت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اور اس پر بندے کو شکر گذار ہونا چاہیے ۔

دوسری طرف یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ایک آلہ ہے اور آلہ کا صحیح استعمال صحیح ہے اور غلط استعمال غلط ہے ،چاقو سے پھل کاٹیے، اچھا ہے، لیکن کسی کے پیٹ میں گھونپ دیجیے تو غلط ہے ، بندوق سے اپنی حفاظت کیجیے ، خوب ہے، لیکن کسی بے گناہ پر گولی چلا دیا تو غلط ہے، یہی حال موبائل کا ہے، اس غلط استعمال کی وجہ سے ہی اس کا نام بعض حضرات نے” آلہ شیطانی“ رکھا ہے ، شیطان کیا غلط کرائے گا ، جتنا اس آلہ شیطانی سے انسان خود ہی کر رہا ہے ، شیطان خوش ہے کہ انسان نے اپنی مرضی سے ہی ہمارے کام کو سنبھال لیا ہے ، اورلوگ خود ہی بے راہ رو اور گناہوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، موبائل کے غلط استعمال کی وجہ سے ہی پہلے کیرالہ نے تعلیمی اداروں میں دوران تعلیم اس کے استعمال پر روک لگا دی تھی اور اب کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی تدریسی اوقات میں اس کو ساتھ رکھنے سے منع کر دیا ہے ، مدارس اسلامیہ خصوصا دار العلوم دیو بند میں اسمارٹ فون رکھنے پر پابندی ہے اور پکڑے جانے پر اخراج کی بھی نوبت آ سکتی ہے ، بیرون ملک میں ملیشیا کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے ، جس میں طلبہ کے پاس پائے گئے موبائل کو ہتھوروں سے توڑا جا رہا ہے ، یہ نوبت صرف اس کے غلط استعمال کی وجہ سے آئی ہے ، نوجوان نسلوں میں موبائل پر گندی فلمیں اور فحش سائٹوں کے کھنگالنے کی بیماری آگئی ہے،

موبائل پر گیم کھیلنا عام سی بات ہے ، یہ گیم کہنے کو تو کھیل ہیں، لیکن زیادہ تر کھیل یا تو جنسیات پر مبنی ہیں یا مار دھاڑ پر ، جنسیات پر مبنی کھیل سے انسانی جسم کھوکھلا ہو رہا ہے ، اور اس کی وجہ سے مختلف قسم کے امراض پیدا ہو رہے ہیں، بینائی متاثر ہو رہی ہے ، ہاضمہ خراب ہو رہا ہے ، مار دھاڑ پر مبنی کھیلوں سے دہشت گردی اور غنڈہ گردی کا مزاج بنتا ہے اور بچے جو کھیل میں دیکھتے ہیں، اسے زمین پر حقیقت میں دیکھنے کے تجربے کرتے ہیں، ایسے بچے جو موبائل پر کھیلتے ہیں، انہیں جب شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان پرجھنجھلاہٹ طاری ہوتی ہے اور چونکہ سامنے حریف موجود نہیں ہوتا، اس لیے سارا غصہ اپنے اعصاب پر ہی اترتا ہے ،جو اعصابی بیماریوں کا بڑا سبب ہے، ان میں بعض کھیل ایسے بھی ہیں جو جیت کا ہدف پانے کے لیے خود کشی پر ابھارتے ہیں اور اونچی بلڈنگ سے کود پڑنے کا مشورہ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں بچے کی موت ہوجاتی ہے ،ایسا اس سے پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے ، اور اب بھی ہوتا رہتا ہے ، اس لیے بچے بچیاں ، طلبہ وطالبات کا موبائل سے دور رہنا ،اور انہیں دور رکھنا انتہائی ضروری ہے ، اس سے پڑھنے کے لیے انہیں وقت ملے گا اور موبائل کے مضر اثرات جو جسم و جاں پر پڑتے ہیں اس سے بھی بچے بچیاں محفوظ رہ سکیں گی ؛لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں بچوں کی ذرا بھی فکر نہیں ہوتی وہ موبائل پر رات رات بھر کیا دیکھ رہے ہیں، کس سائٹ سے ان کی دلچسپی ہے، ہمیں دیکھنے اور نگرانی کی فرصت ہی نہیں ملتی، رات بھر بچیاں چھت پر کس سے بات کر رہی ہیں، ہم کبھی بھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے ، ایک شخص نے بڑی پکی بات کہی کہ ہمیں اپنے بچے بچیوں کی اتنی بھی فکر نہیں ہے ، جتنا دیہات میں مرغیوں کی فکر کی جاتی ہے ۔ سرشام اگر وہ گھر نہ آئیں تو تلاش شروع ہوجاتی ہے ، جب کہ لڑکے بارہ بجے رات اور اس سے زیادہ گھر سے باہر رہتے ہیں اور ہمیں پوچھنے تک کی توفیق نہیں ہوتی، ببیں تفاوت رہ از کجا است تا بکجا۔

آج کے دور میں موبائلز بچے بچیوں کے ہاتھ سے لے لینا ذرا مشکل کام ہے؛لیکن صحیح استعمال کی طرف راغب کرنا چنداں دشوار نہیں۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button