مضامین

ملت کی معاشی پسماندگی کا ادراک کون کرے گا؟

قوموں کے عروج و زوال میں اخلاقیات کے بعد سب سے اہم کردار معاشی خوش حالی کا ہے

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی،بجنور
9897334419
زندگی میں معاشیات کی وہی اہمیت ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہے۔ تجارت اور معیشت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اچھی اور منافع بخش تجارت مضبوط اور مستحکم معیشت کو جنم دے کر ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ اسلام دین کامل ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں رہ بری اور ر ہ نمائی کے لیے جامع اصول و قواعد فراہم کرتا ہے۔روزی روزگار انسان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ دنیاوی منافع کو قرآن میں ”فضل“ اور ”خیر“ کہا گیا ہے، رسول اکرم ؐنے حلال طریقے سے رز ق کے حصول کو طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ (مشکوٰۃ) فرما کر دوسرے درجہ کا اہم فریضہ قرار دیا ہے۔یعنی نماز،زکوٰۃ،روزہ،حج کے بعد مسلمان پر اہم فرض ”رزق حلال“ کماناہے۔اس کے یہ معنی بھی ہوئے کہ مسلمان جب روزی کمانے کی سعی کرتا ہے اور روزی کمانے میں سرگرداں رہتا ہے تو ایک اہم فریضہ انجام دیتا ہے۔ لیکن اسلام نے معیشت کو مقصد زندگی قرار نہیں دیاہے اور دوسرے معاشی نظاموں کی طرح انسانی زندگی کا محور اور نصب العین نہیں بنایاہے، بلکہ اسلام نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ انسان دنیا کو ایک عبوری دور سمجھے اور ساری کوششوں، ساری توانائیوں اور ساری جدوجہد کا محورصرف پیٹ کو ہی نہ بنائے۔کیوں کہ اس دنیا کے بعد ایک دوسری ابدی زندگی آخرت کی شکل میں آنے والی ہے جس کی فلاح و کامیابی درحقیقت انسان کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام انسان کو معاشی حیوان نہیں بناتابلکہ وہ دنیا کو آخرت کی کھیتی سے تعبیر کرتا ہے۔
رزق صرف پیٹ بھرنے کی چیز نہیں ہے۔بلکہ اس کے اثرات معدے کے ساتھ ساتھ اخلاق اور کردار پر بھی پڑتے ہیں،اس کے ساتھ ایک مومن کا معاملہ تو آخرت میں نجات کا بھی ہے جو رزق حلال کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے اسلام رزق کے سلسلے میں سب سے زیادہ محتاط ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ خود طیب ہے اور وہ اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو طیب ہو۔“(مسلم)ایک موقع پر حضور سرورِ کائنات ؐنے فرمایا: ”اس کھانے سے بہترکوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیاہو۔“ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ؐنے فرمایا:”جو تم کھاتے ہو ان میں سب زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمہارے کسب سے حاصل ہوااور تمہاری اولاد بھی من جملہ کسب کے ہے۔“(ترمذی،ابن ماجہ)۔یعنی اولاد کی کمائی بھی انسان کے لئے مالِ حلال میں شمار ہوگی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: ”جنت میں وہ گوشت داخل نہیں ہوگا جو حرام کھانے سے پلا،بڑھاہواور ہر وہ گوشت جو حرام خوری سے بڑھا ہو دوزخ کے زیادہ لائق ہے“۔(مسند احمد بن حنبل،بیہقی) حضورؐ نے فرمایا: الکاسب حبیب اللہ ” کمائی کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔“(بیہقی)کتنی فضیلت والی بات ہے ان حضرات کے لئے جو رزق حلال کماتے ہیں کہ زبان نبوتؐنے انہیں اللہ کا دوست ہونے کی بشارت دی ہے،یہ کوئی عام فضل وعنایت نہیں بلکہ انسانیت کی معراج ہے۔
امت مسلمہ جس طرح دوسرے امور و معاملات میں افراط و تفریط کا شکار رہی ہے اسی طرح اس نے معاشیات کے شعبے میں بھی اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پس پشت چھوڑ دیا ہے۔امت کے ایک گروہ نے معاشی سرگرمیوں کو لایعنی سمجھ لیا۔اس نے اعلان کردیا کہ بازار میں جانا شیطان کا جھنڈا بلند کرنا ہے۔اس نے کہا کہ اللہ خود فرماتا ہے ”کہ ہم تم سے رزق نہیں چاہتے“ (سورہ طٰہ 132)اللہ چاہتا ہے کہ صرف اس کی عبادت کریں۔”میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے،میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں“(الذاریات 56-57)ان آیات کی غلط تعبیر تشریح اور فقر فاقہ کی فقیری داستانوں نے امت کے اندر تجارت،معیشت،کاروبار،کمپنیاں بنانے، کارخانے لگانے کی طرف سے غفلت کو عبادت قرار دے دیا۔مانگ کر کھانے کی ممانعت کے باوجود فقراء کی ایک پوری برادری وجود میں آگئی۔آپ کسی بھی شہر میں چلے جائیں،ہر گلی،ریسٹورینٹ،اسٹیشن،چوک،بازار میں فقیروں کی بھیڑ نظر آجائے گی۔اس میں بیشتر مسلمان ہوں گے۔ایک دوسرا گروہ جس نے خالص جدید تعلیم حاصل کی،جدید ماحول میں پرورش پائی،جس کو اسلام کی ہر تعلیم میں دقیانوسیت نظر آئی،جس نے مذہب کو فرسودہ اور افیون کہہ کر ترک کردیا لیکن وہ اپنے اردونام سے مسلمان ہی سمجھے گئے۔اس نے معاشی خوشحالی کو خدا کی خوشنودی کا معیار قراردے دیا۔انھوں نے ان کی پیروی کی جنھوں نے کہا”اللہ فقیر ہے اورہم مال دار ہیں“(آل عمران 181)
اسلام اعتدال اور فطرت کا دین ہے۔اللہ نے پیٹ بنایا ہے،بھوک لگائی ہے،غذائیں پیدا کی ہیں،کھانے کو منھ عطا فرمایا ہے،کمانے کو دوہاتھ دیے ہیں۔اللہ کے نبی ﷺ نے ذریعہ ئ معاش اپنا کر امت کے لیے اسوہ چھوڑا ہے۔اصحاب رسول ؓ نے تجارتی بازار قائم کرکے دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیا ہے۔ اسلامی حکومت نے عوام کو معاشی خوش حالی سے روبرو کرایا ہے۔مال داروں اور غریبوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں،آجر اور مزدور کی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔صدقات و زکوٰۃ کا پورا نظام بنایا گیا ہے۔نبی رحمت ؐ نے(”کاد الفقر ان یکون کفرا“)غربت کو بنائے کفر تک فرمایا ہے۔لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اسلام تمام معاشی سرگرمیوں کو الٰہی ہدایات کا پابند بناتا ہے۔وہ انسان کو شتر بے مہار کی طرح کھلا نہیں چھوڑتا کہ جہاں چاہے منھ مارتا پھرے۔
اسلام غربت کو خوش حالی میں بدلنا چاہتا ہے۔بلکہ اسلامی نظام خلافت میں یہ منظر دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہے کہ حضرت عمر ؓکے زمانے میں لوگ زکاۃ کے مستحقین تلاش کرتے پھرتے تھے۔اس نے غربت دور کرنے کے لیے سائل اور محروم کا حق متعین کیا ہے۔وَالذِیْنَ فِیٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ
لِّلسَّآءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔ (سورہ المعارج: ۴۲،۵۲) ”ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔“ذخیرہ اندوزی کو حرام کیا ہے اور دولت کی گردش کا انتظام فرمایا ہے۔ سورہ حشر میں مال فئی کی تقسیم کے ساتھ فرمایا گیا۔”جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔“(الحشر۔۷)
سوال یہ ہے کہ موجودہ ہندوستان میں مسلمان جہاں تعلیمی،سیاسی اور اخلاقی پسماندگی کا شکار ہیں،وہیں وہ معاشی پسماندگی کا شکار بھی ہیں۔بلکہ ملت کی تمام پسماندگی کے پیچھے معاشی پسماندگی کارفرما ہے۔یہ پسماندگیاں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔مسلمانوں میں جہالت اس لیے ہے کہ غربت ہے اور غربت اس لیے ہے کہ جہالت ہے۔بیماری اس لئے ہے کہ صفائی نہیں،صفائی اس لیے نہیں کہ پیسہ نہیں،یا شعور نہیں،شعور اس لیے نہیں کہ تعلیم نہیں۔اس کا مطلب ہے کہ امت کے زوال کو روکنے اور اس کی گاڑی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے معاشی خوشحالی ضروری ہے۔تاریخ شاہد ہے کہقوموں کے عروج و زوال میں اخلاقیات کے بعد سب اہم کردار معاشی خوش حالی کا ہے۔
میں نے بہت غور کیا،ملک میں ملی تنظیموں اور جماعتوں کا جائزہ لیا۔میں نے دیکھا کہ امت کے زعماء سب سے زیادہ تعلیم کی جانب فکر مند ہیں،اس کے بعد وہ اصلاح معاشرہ پر جلسے کرتے ہیں،صحت کی جانب بھی کچھ توجہ ہوئی ہے۔لیکن معاشی پسماندگی دور کرنے کے لیے شاذ و نادر ہی کوئی ادارہ ہے۔جنوب میں کچھ کوششیں ہوئی ہیں۔شمال خالی ہے۔مسلم فنڈ کے نام سے بھی سودی نظام کو تقویت دی گئی ہے۔زکوٰۃ کا اجتماعی نظم کہیں نہیں ہے۔مسجدیں عالیشان بنائی جارہی ہیں۔لیکن مسجد میں سجدہ کرنے والے فاقہ کش مسلمانوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔جس طرح مسجد اللہ کا گھر ہے،اسی طرح قلب مومن بھی اسی کا گھر ہے۔اللہ کے بندے اگر فقرو فاقہ کا شکار ہوکر اللہ سے منھ موڑنے پر مجبور ہوجائیں گے تو عالیشان مساجد میں سجدے کون کرے گا؟حال ہی میں کچھ ایسی رپورٹیں آئی ہیں کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادی کررہی ہیں۔اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ مسلم نوجوان معاشی پسماندگی کا شکار ہیں۔میری رائے ہے کہ ہر مسجد میں ایک بیت المال قائم کیا جائے،اس مسجد کے حلقہ میں غریب،پسمادہ اور بے روزگار افراد کو خوش حال بنانے کا منصوبہ بنایا جائے۔مدارس کے طلبہ کو صنعت و حرفت کی تعلیم دی جائے۔مسلم اہل خیر حضرات غریب مسلم نوجوانوں کو کار آمد بنانے کے لیے منصوبہ بندی کریں۔علماء تجارت کرنے،معاشی خوش حالی لانے،کفایت شعاری اپنانے،فضول رسموں پر پیسہ خرچ کرنے سے باز رہنے کی تلقین کریں۔اللہ کا تقویٰ اختیار کریں،اس کا شکر ادا کریں،کیوں کہ وہ اپنے شکر گزار بندوں کو مزید دیتا ہے۔

مضمون نگار ماہنامہ اچھا ساتھی ایڈیٹر،سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button