نیشنل

کرناٹک نتائج کا اثربی جے پی نے بدلی حکمت عملی، اب جنوبی ہند میں کانگریس کو روکنے کے لیے بنایا یہ منصوبہ

نئی دہلی: لوک سبھا انتخابات 2024 میں جیت درج کرنے کے لیے بی جے پی ہر ریاست میں مختلف حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ بی جے پی جلد ہی آندھرا اور تلنگانہ کے لیے بڑا فیصلہ لے سکتی ہے۔کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج کے دن جب رجحانات آنا شروع ہوئے تھے، بی جے پی لیڈر اپراجیتا سارنگی نے کہا تھا، ’’ہم کبھی نہیں ہارتے، یا تو جیتتے ہیں یا ہم سیکھتے ہیں‘‘۔ کرناٹک کے انتخابی نتائج مکمل طور پر واضح ہونے سے پہلے ہی بی جے پی ایک بار پھر جنوبی ہند کے لیے اپنی حکمت عملی کو درست کرنے میں مصروف تھی۔ کرناٹک جنوب کی واحد ریاست تھی جہاں بی جے پی کی حکومت تھی۔

 

 

گزشتہ ہفتہ کے اواخر میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا نے ٹی ڈی پی سربراہ چندرابابو نائیڈو سے ملاقات کی۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ میٹنگ بی جے پی کے بدلے ہوئے پلان کا حصہ تھی اور اب دونوں پارٹیاں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے انتخابات کے لیے شراکت داری کی تیاری کر رہی ہیں۔ امکان ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی چندرا بابو نائیڈو کے ساتھ بھی میٹنگ کر سکتے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو بھی بی جے پی کے اتحاد کو اپنے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی تلنگانہ میں فائدہ حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی جارحانہ طور پر بی آر ایس کو نشانہ بنا رہی ہے اوراس کے نشانہ پر کانگریس بھی ہے۔

 

 

ٹی ڈی پی کے ساتھ بی جے پی کا اتحاد پون کلیان کی جناسینا پارٹی کو بھی اپنے ساتھ لے سکتا ہے۔ اس سے بی جے پی کو دونوں ریاستوں میں کانگریس کی تعداد کو نمایاں طور پر کم کرنے میں مدد ملے گی۔ بی جے پی لیڈروں کے مطابق کرناٹک میں شکست کے بعد بی جے پی کی حکمت عملی یہ ہے کہ کانگریس کو کسی بھی دوسری جنوبی ریاست میں قدم جمانے سے روکا جائے۔

 

 

بی جے پی بلدیاتی انتخابات میں اپنی تعداد بڑھانے میں کامیاب ہوتی نظرآئی تھی۔ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو صرف 1 سیٹ کے ساتھ 7 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے تھے۔ سال 2020 کے جی ایچ ایم سی انتخابات میں پارٹی نے نہ صرف 150 وارڈوں میں سے 48 میں کامیابی حاصل کی جبکہ اسے 35 فیصد ووٹ بھی ملے۔ حال ہی میں ہوئے ضمنی انتخابات میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی۔

 

 

ٹی ڈی پی 2018 تک این ڈی اے کا حصہ تھی۔ چندرا بابو نائیڈو آندھرا کو خصوصی درجہ دینے کے مطالبہ پر الگ ہوگئے۔ انہوں نے تلنگانہ میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا۔ تاہم اس کے باوجود انہیں اسمبلی اور پھر لوک سبھا انتخابات میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد اس کے زیادہ تر لیڈر بی آر ایس سمیت دیگر پارٹیوں میں چلے گئے۔بی جے پی کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ تلنگانہ میں ٹی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کی پارٹی کی جانب سے سخت مخالفت کی گئی تھی لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ قومی قیادت نے انہیں اپنے اعتماد میں لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امیت شاہ 8 جون کو وشاکھاپٹنم اور 10 جون کو تروپتی میں جے پی نڈا جلسہ عام کریں گے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button