عید کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے یا گلے ملنے سے دل سے کدورت دور ہوجاتی ہے ،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا نماز عید سے قبل خطاب

عید کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے یا گلے ملنے سے دل سے کدورت دور ہوجاتی ہے ،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا نماز عید سے قبل خطاب
حیدرآباد 8جون (پریس ریلیز ) تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد میں منعقدہ عید الاضحی کے ایک بڑے اجتماع سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد خطاب کرتےہوئے بتلایا کہ,ملاقات کا اسلامی طریقہ دنیا بھر کے مذہبی اور غیرمذہبی طریقوں سے ممتاز اور خوبیوں سے لبریز ہے۔ اس میں ایک طرف الفت و محبت، شفقت و عظمت اور انسیت و ہمدردی کا اظہار ہے تو دوسری طرف یہ گناہوں کی بخشش کا سبب بھی ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں مصافحے کا رواج تھا؟
قَالَ: نَعَمْ.
انہوں نے فرمایا: ہاں۔
ملاقات کے وقت دو مسلمان مصافحہ کریں تو ان دونوں کی بخشش کا سبب ہے:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملیں تو مصافحہ کریں اور اللہ کی حمد و ثنا کریں اوراُس سے معافی چاہیں تو دونوں کو بخش دیا جاتا ہے۔
أبي داود، السنن، 4: 354، رقم: 5211، دار الفکر
اور دوسری روایت میں ہے:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں تو اُن کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
ملاقات کا اندازِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درج ذیل ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب کسی کی ملاقات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک منہ نہ پھیرتے جب تک وہ خود نہ پھیرتا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک وہ خود نہ چھوڑتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی ملاقاتی کے سامنے پاؤں نہیں پھیلائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل یمن کو مصافحہ میں پہل کرنے والے قرار دیا:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اہلِ یمن حاضر بارگاہ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں جو مصافحہ شروع کرنے میں سب سے پہلے ہیں۔
جس طرح مسلمانوں کے درمیان ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرنے کا طریقہ رائج تھا اسی طرح ملاقات کرتے ہوئے معانقہ کرنے کا ثبوت بھی احادیث مبارکہ سے ملتا ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے تو مصافحہ کیا کرتے تھے اور جب سفر سے آتے تو معانقہ کیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حجرہ میں تشریف فرما تھے حضرت زید رضی اللہ عنہ ������������� ��نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برہنہ (قمیض کے بغیر) ہی کپڑا کھینچتے ہوئے ان کی طرف بڑھے۔ اللہ کی قسم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ تو اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد کبھی برہنہ دیکھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں:فَاعْتَنَقَهُ وَقَبَّلَهُ.
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں گلے لگایا اور ان کا بوسہ لیا۔ترمذي، السنن، 5: 76، رقم: 2732
حضرت ایوب بن بشیر عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزہ کے ایک آدمی نے ملکِ شام میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ میں آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثوں میں سے ایک حدیث پوچھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا کہ اگر کوئی راز نہ ہوا تو میں تمہیں بتادوں گا۔ میں عرض گزار ہوا کہ وہ راز نہیں ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاقات کے وقت آپ حضرات سے مصافحہ کیا کرتے تے؟ فرمایا:
میں جب بھی ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے مصافحہ فرمایا اور ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلوایا لیکن میں گھر میں نہیں تھا۔ جب میں آیا تو مجھے بتایا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یاد فرمایا ہے۔ تو میں حاضر بارگاہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تخت پر جلوہ افروز تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے معانقہ فرمایا (یعنی گلے ملے)، یہ بڑی عمدہ بات ہے بڑی عمدہ ہے۔
أبي داود، السنن، 4: 354، رقم: 5213
اور ایک روایت میں ہے:
حضرت شعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت جعفر بن ابو طالب سے ملے تو ان سے معانقہ فرمایا اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔أبي داود، السنن، 4: 356، رقم: 5220
مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ ملاقات کرتے وقت مصافحہ اور معانقہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے۔ کسی موقع پر بھی مصافحہ اور معانقہ کی ممانعت نہیں ہے۔ بروزِ عید گلے ملنے اور ہاتھ ملانے میں کوئی حرج نہیں، یہ ایک مسنون عمل ہے۔انھوں نے مذید بتلایا کہ عیدالاضحی ایک انتہائی بامقصد اور یادگار دِن ہے، اس دِن کی دُعائوں کی قبولیت کا عندیہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیا گیا ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ روزِ عید ہم سب مل کر توبہ استغفار کریں۔ زبانی نہیں، عملی توبہ ۔ پروردگار کے حضور گڑگڑا گڑگڑا کر دُعا کریں، اپنی کوتاہیوں، گناہوں کی معافی طلب کریں اور اپنے رب کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یاد رہے، دُنیا کی ابتدا ہی سے قربانی تمام مذاہب کا ایک لازمی حصّہ رہی ہے۔ یہ اللہ کے حضور جان کی نذر ہے، جو کسی جانور کو قائم مقام ٹھہرا کر پیش کی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کے دن جانور کے گلے پر رسماً اور عادتاًچھری چلائی جائے تو بہت آسان ہے لیکن اگر اسوۂ ابراہیمی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کے لئے انسان کو پہلے ان مراحل کو سامنے رکھنا پڑتا ہے جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزرے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی مسلسل قربانیوں سے عبارت ہے’انھوں نے بتلایا کہ عید قرباں کا مقصد صرف عمدہ لباس پہن لینا،اور لذیز کھانا کھالینا نہیں ہے عید کا صحیح کا مقصد گناہوں سے توبہ کی جائے۔اوراطاعت وعبادت کی کثرت کر کے رب کا شکراداکیا جائے اور آپسی بھائی چارگی ،امن وسلامتی ،اتحاد واتفاق کا پیغام عام کیا جائے ،بلاشبہ ان دنوں امت مسلمہ جن مشکلات اور مصائب اختلاف وانتشار سے دوچار ہے وہ کسی بھی ذی شعور پر مخفی نہیں ہے ۔امت مسلمہ کا المیہ تو یہاں تک خراب ہوگیا ہے لوگ آپسی رنجش ،حسد ،کینہ ،قتل وقتال ،اختلاف وانتشار حد سے زیادہ تجاوز کر چکے ہیں جس کے سبب قوم مسلم کو ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے آئے دن آپسی اختلاف سے ہمارااتحادی شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے ۔لہذا ان نا مساعد حالات میں وقت کی ضرورت کے پیش نظر صبر واستقامت ،عزم وحوصلہ سے مسلمانوں کو کام لینے چاہئے ۔عید مبار ک کا دن یہ وہ منزل جس کی نشاندہی کے لئے اللہ تبارک وتعالی ہمیشہ اپنے بندوں کو خاص ایام عطا فرماتا ہے ان خاص دنوں میں ہمیں تعلیمات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کی ضرورت ہے،عید کادن اپنے آپ میں خاص برکت واہمیت رکھتا ہے اس دن کی دعاؤں اور عبادتوں کو اللہ کے نزدیک خاص قبولیت ہے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ پیار محبت اور یکتائی کو عام کریں تاکہ ایک اچھے معاشرہ کی تشکی ہوسکے جو ہم سب کا ملی ومذہبی فریضہ ہے,قربانی عربی زبان کے لفظ قُرب سے ہے، جس کا مطلب کسی شے کے نزدیک ہونا ہے۔ قُرب، دوری کا متضاد ہے۔ قربان قرب سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ امام راغب اصفہانی قربانی کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:قربانی وہ چیز ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، شرع میں قربانی سے مراد جانور ذبح کرنا ہے۔قربانی کے لیے قرآن کریم میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
قربانی
منسک
نحر
لفظ قربانی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہیَ جب دونوں نے (اللہ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے حسداً و انتقاماً) کہا: میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بے شک اللہ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے‘‘۔