تلنگانہ

محبوب نگر پارلیمانی حلقے میں سہ رخی مقابلہ۔۔ اقلیتوں کو بادشاہ گر موقف حاصل۔ 

از: ڈاکٹر تبریزحسین حیدرآباد

تلنگانہ اسٹیٹ میں لوک سبھا کی 17نشستیں ہیں۔ ان پارلیمانی حلقوں میں محبو ب نگر پارلیمانی حلقہ بھی ہے جس کے حدود شہرحیدرآباد سے لگ بھگ 30کلومیٹر کے فاصلے یعنی شادنگر اسمبلی حلقے کے کوتور منڈل سے شروع ہوتے ہیں۔محبوب نگر پارلیمانی حلقہ ملک بھر میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔سال 2009کے ازسرنو حلقہ بندی سے قبل اس پارلیمانی حلقے میں گدوال، عالم پور اور ونپرتی اسمبلی حلقہ جات بھی شامل تھے تاہم سال 2009کے ازسرنو حدبندی کے بعد اس میں نئے تشکیل پائے نارائین پیٹ کو شامل کیا گیا جبکہ گدوال، عالم پور اور ونپرتی کو نکال کر جڑچرلہ اور شادنگر اسمبلی حلقوں کو محبوب نگر کا حصہ بنایا گیا ہے۔

لوک سبھاحلقہ محبوب نگر نے ملک کو کئی اہم قائدین دیئے ہیں۔ سال 1952کے لوک سبھا انتخابات میں یہاں سے عام زمرے میں کے جناردھن ریڈی اور ایس سی زمرے میں مالا طبقے کے پلی راماسوامی منتخب ہوئے تھے۔ اس حلقے سے جے رامیشورراو، ایس جئے پال ریڈی، ڈاکٹر ملیکارجن اور کے چندراشیکھرراو جیسے عظیم قائدین نے نمائندگی کی ہے۔ ڈاکٹر ملیکارجن آنجہانی اندراگاندھی اور آنجہانی پی وی نرسہماراو کی کابینہ میں وزیر کے طورپر خدمات انجام دی ہیں۔ جبکہ ایس جئے پال ریڈی نے بھی آنجہانی اندرکمار گجرال اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی کابینہ میں بطورکابینی وزیر خدمات انجام دیگر قومی سطح پر ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ جبکہ سابق چیف منسٹر و بی آر ایس کے سپریمو کے چندراشکھرراو کو یہ اعزازحاصل ہے کہ انہوں نے 15ویں لوک سبھا میں بطور رکن پارلیمنٹ محبوب نگر ہی تلنگانہ کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اب بھی یہ حلقہ پارلیمنٹ اس لئے سرخیوں میں ہے کہ اسی پارلیمانی حلقے میں شامل کوڈنگل اسمبلی سے نمائندگی کرنے والے اے ریونت ریڈی ریاست کے چیف منسٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔اسی لئے محبوب نگر پارلیمانی حلقہ چیف منسٹر تلنگانہ ریونت ریڈی کا آبائی حلقہ ہونے کی وجہ سے دلچسپی کا مرکز بناہوا ہے۔

اب محبوب نگر کے پارلیمانی حلقے میں لوک سبھا الیکشن کی گہماگہمی دیکھی جارہی ہے۔ پرچہ نامزدگیاں داخل کرنے کا عمل ختم ہوچکا ہے۔ ریاست بھر کے تمام پارلیمانی حلقوں کے بشمول یہاں بھی 13مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔محبو ب نگر پارلیمانی حلقے میں جملہ 16لاکھ 80ہزار417ووٹرس ہیں۔خواتین ووٹوں کی تعداد مرد وں کے مقابلے زیادہ ہے خواتین ووٹرس 848293ہیں تو مرد ووٹرس 832080ہیں۔ یہ اعداد شمار فروری تک کے شامل کیے گئے ہیں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے مزید ووٹرس کے ناموں کو قطعی فہرست رائے دہندگان میں شامل کیا گیا ہے۔ بحرحال مجموعی طورپر محبوب نگر پارلیمانی حلقے میں 16لاکھ سے زائد ووٹرس ہیں۔جن کے لئے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے1916پولنگ بوتھس بنائے گئے ہیں۔

یہاں بی آر ایس کی جانب سے موجودہ ایم پی منے سرنیواس ریڈی ایک بار پھر اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔ واضح رہے کہ سال 2009میں سابق چیف منسٹر کے چندراشیکھرراو کے منتخب ہونے کے بعد سے یہ حلقہ بی آر ایس کی جھولی میں ہی ہے۔ کانگریس کی جانب سے ڈی وٹھل راو اس حلقے سے آخری بار سال 2004میں کامیابی حا صل کی تھی۔ جبکہ سال 2014 میں قدرآورشخصیت وقومی شناخت رکھنے والے قائد ایس جئے پال ریڈی کو بطور کانگریس اُمیدوار یہاں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس بار کانگریس کی جانب سے راہل گاندھی کے قریبی سمجھے جانے والے ومشی چندرا ریڈی ہی میدان میں ہیں گزشتہ 2019کے چناو میں ومشی چندرا ریڈی نے ہی یہاں کانگریس کی جانب سے انتخاب لڑا تھا اور انہیں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ لیکن اس بار حلقے کیفیت مختلف ہے۔ کیونکہ سال 2019میں اس حلقے میں شامل تمام اسمبلی حلقہ جات پر بی آر ایس کا قبضہ تھا جبکہ اب ان تمام اسمبلی حلقوں میں کانگریس کے اُمیدوار بطور ایم ایل اے کامیابی حاصل کرچکے ہیں جن میں ریونت ریڈی چیف منسٹر بھی شامل ہیں۔ اسی لئے ومشی چندرا ریڈی اس بار کامیابی کا دعوی کررہے ہیں۔بی جے پی کی جانب سے بی جے پی کی قومی صدر و سابق ریاستی وزیر ڈی کے ارونا میدان میں ہیں۔ ڈی کے ارونابی جے پی میں رہنے کے باوجود اقلیتی طبقے بشمول تمام طبقات میں بھی ایک اچھی شبہی رکھتی ہیں۔اس حلقے میں خواتین ووٹروں کی اکثریت اور مودی لہر کی بنیاد پر وہ بھی اپنی کامیابی کا عوی کررہی ہیں۔ ڈی کے ارونا گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں لگ بھگ 34فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر تھیں۔انہوں نے شکست کے باوجود گزشتہ پانچ برسوں سے عوام کے درمیان ہی رہیکرایک منفرد پہنچان بنالی ہے۔انھیں جے جے ماں اور فائر برانڈ قائد کے طورپر حلقے میں جاناجاتا ہے۔ وہ ضلع میں ایک مقبول ترین قائد کا درجہ رکھتی ہیں۔

اس حلقے کے بی آر ایس قائدین کا ماننا ہے کہ مقابلہ بی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان ہی ہے۔ اسی لئے گزشتہ دنوں بی آر ایس کے سپریمو کے سی آر نے اپنے بس یاترا اور محبوب نگر میں روڈ شو کے دوران بی جے پی پر جم کر تنقید کی اور کہا کہ بی آر ایس سیکولر اصولوں سے ہرگز سمجھوتہ نہیں کریگی۔ جبکہ کانگریس قائدین کاماننا ہے کہ اصل مقابلہ اُن کے (کانگریس) اور بی جے پی کے درمیان ہی ہے۔اسی لئے چیف منسٹر اب تک کئی مرتبہ انتخابی تشہیر میں حصہ لے چکے ہیں۔ وہیں بی جے پی لیڈر س کا کہنا ہے کہ حلقے میں مودی لہر چل رہی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کی جیت یقینی ہے۔ وزیراعظم مودی بھی ڈی کے ارونا کی انتخابی مہم چلانے کے لے 4مئی کو نارائین پیٹ ضلع مستقر کا دورہ کرنے والے ہیں۔

سیاسی ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ مقابلہ چاہئے کسی کے درمیان کیوں نہ لیکن اس حلقے میں اقلیتی طبقے کے ہاتھ میں اُمیدواروں کے قسمت کا فیصلہ ہے۔کیونکہ کہ اس حلقہ انتخاب میں 2لاکھ 60ہزار سے زائد اقلیتی طبقے کے ووٹرس ہیں اوریہ اقلیتی ووٹرس کسی بھی اُمیدوار کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اقلیتی طبقے کے ماہرین اقلیتی ووٹرس کو دانشمندی، اپنے وجود کی وبقاء کے شعورکوپیش نظر رکھتے ہوئے کامیاب حکمت عملی اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button