مضامین

گداگری

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا ، بھیک مانگنا اور گداگری کرنا ، انسانی غیرت وحمیت اور خود داری کے خلاف ہے ، اب بھی سماج میں بڑی تعدادمیں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو بھوکے رہنا ، فاقہ پر فاقہ کرنا اور اپنی ضروریات کو مفلسی کی باعزت چادر تلے دبا کر سوجانا پسند کرتے ہیں ، وہ بے چین ضرور ہوتے ہیں ؛لیکن اس بے چینی میں بھی انہیں اتنا اطمینان ہوتا ہے کہ سر کے نیچے تکیہ نہیں ہوتا تو اپنی ہتھیلی کو تکیہ بنا لیتے ہیں، دن بھر کی سخت محنت ومشقت کے بعد بھی ان کے سروں پر چھت نہیں ہے ، اوروہ برسہا برس؛ بلکہ کبھی پوری زندگی فٹ پاتھ پر سو کر گذار دیتے ہیں، کیو نکہ اس حالت میں ان کی خودداری اور غیرت کو ٹھیس نہیں لگتی ہے ، اور وہ مانگنے کی ذلت سے بچ جاتے ہیں ، لیکن سماج کا ایک طبقہ وہ ہے جن کے نزدیک گداگری بھی دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشہ ہے ، باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گدا گر بنانے کے لئے پورا ریکٹ کام کرتا ہے ، چھوٹے بچوں کو اغوا کرکے انہیں اپاہج بنا دینا ، اور انہیں گداگری کے پیشے سے لگا دینا عام سی بات ہے ، سڑک کے کنارے اورعام گزر گاہوں پرایسے گداگروں کی بڑی تعداد آپ روزانہ دیکھتے ہیں جن کے اعضاء وجوارح اس طرح ناکارہ ہیں کہ وہ جانوروں کی طرح رینگ بھی نہیں سکتے ، یہ پیدائشی اپاہج نہیں ہیں ، انہیں پڑھے لکھے گداگروں نے اس حالت تک پہونچا دیا ہے، انہیں صبح سویرے کوئی متعینہ مقام پر چھوڑ جاتا ہے اور دیررات گئے  اٹھا کر لے جاتا ہے ،غذا کے لئے چند لقمے کے بدلے دن بھر کی حصولیابی پر قبضہ جما لیتا ہے ، ہم انہیں معذو ر سمجھ کر مدد کرتے ہیں ، لیکن ہماری امدا د ان کے کام نہیں آ کران طاقتور گداگروں کے کام آتی ہے ، جو اسے ایک صنعت سمجھتے ہیں ، اوربغیر کسی پونجی کے آمدنی کا ذریعہ بھی، یہ ذریعہ اتنا کارگر ہے کہ ایک سروے کے مطابق ممبئی کے بھکاریوں کی کل سالانہ آمدنی ایک سو ا سی کروڑ روپے ہے ، اور پیشہ وارانہ چپقلش کی وجہ سے قتل وغارت گری تک کی نوبت آگئی ہے ، پولس کو ایک قتل معاملہ کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ یہ فقراء سو د پر روپے کا لین دین کرتے ہیں اور قتل اسی لین دین میں گڑبڑی کی وجہ سے ہوا ہے۔
ہمیں اس صور ت حال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے کی تعلیم وتربیت میں کوئی کمی ہے، جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کو گدا گری کے پیشے سے منسلک ہونے پر مجبور ہوناپڑ رہا ہے ، غور طلب یہ بھی ہے کہ روز گار کے حصول کی غیر یقینی صورت حال ، استحصال اور سخت جدوجہد کا خوف تو اس کا محرک نہیں ہے، ہم نے جن مقاصد کے حصول کے لئے تعلیم کے سارے شعبوں کی ڈور معاش کے حصول اور روزی روٹی سے جو ڑ دیا ہے ، کہیں ہم اس میں ناکام تو نہیں ہوگیے ہیں ، سوا ل یہ بھی ہے کہ ہم نے جن پیشہ وارانہ تعلیم میں بچوں کو لگایا تھا، کیا اس میں معیار کی کوئی کمی رہ گئی ، یا ہم ان کی تربیت اس انداز میں نہیں کرسکے، جو ان کے اندر غیرت وخوداری جیسے اوصاف حمیدہ پیدا کر پاتی ، جس کے نتیجے میں ان کے اندر مفت خوری کا مزاج پروان چڑھ گیا ، سوالات اور بھی کئی ہیں جو ہر آدمی اپنی سطح سے سوچ سکتا ہے ۔
اسلام نے گداگری کو ہمیشہ ناپسند کیا ہے ، اس کی تعلیم یہ ہے کہ مانگنا ذلیل کام ہے ، اس لئے اس سے ہر ممکن اجتناب کرنا چاہئے اگر کسی کے پاس وقتی گذارے کے لئے کچھ ہے اور مفلسی و محتاجی اتنی نہیں ہیکہ وہ بھوکے مرجائے گا تو اسے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہئے ، اسے صرف اور صرف اس رب العالمین سے مانگنا چاہئے جو ہمار ی ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے ، اور جس کے سامنے عاجزی ، انکساری ، اورگرگرانا ذلت نہیں، عبادت ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو تے کا تسمہ بھی مانگنا ہو تو اللہ سے مانگو ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علہیم اجمعین نے اس فرمان پراس قدر سختی سے عمل کیا کہ سواری پر جاتے ہوئے جانوروں کو تیز رفتار کرنے والا کوڑا گرجاتا توسوار ی سے اتر کر خود اٹھاتے  اور کسی سے یہ نہیں کہتے کہ ذرا کوڑا بڑھا دو ، یہ ان کی غیرت کی انتہا تھی ، اسی غیرت وخوداری کی وجہ سے وہ پیوند پر پیوند لگے کپڑے پہن لیا کرتے تھے ، پیٹ پر پتھر باندھ کر گذارہ کر لیتے تھے ، ایک کپڑے میں زندگی گذار دیتے تھے لیکن کسی انسان سے مانگنے کوباعث شرم وعار اور انسانی نفس کی عظمت کے خلاف تصور کرتے تھے ۔
دوسری طرف ایسے گدا گروں کے لئے جن کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ سامان موجود ہے ، پھر بھی وہ گدا گری پر اتر آتے ہیں ، وعیدیں بھی آئیں کہ وہ قیامت کے دن اپنے چہروں کو نوچتے ہوئے آئیں گے ان کے چہرے پر گوشت کا نام و نشان نہیں ہوگا ، ہڈیاں ہی ہڈیاں ہوگی۔ الامان والحفیظ ۔
مانگنے والوں سے متعلق اس فرمان کا تقاضہ ہے کہ گدا گری سے حد درجہ اجتناب کیا جائے اور نفس کی عزت کو ذلت میں نہ بدلا جائے یہ ہدایات مانگنے والوں کے لئے ہیں ،اب اگر کوئی اپنے کو ذلیل کرنے پرہی آمادہ ہوتو جودوبخشش ودادودہش کرنے والوں کو دوسرے احکام دیئے گئے ، اللہ ر ب العزت نے حکم دیا کہ جو مانگنے والا آئے اس کو جھڑکومت اور اپنے رب کی نعمتوں کوبیان کیا کرو ، بیان کبھی تو زبان سے ہوتا ہے ، اور کبھی حال سے ،نعمتوں کے بیان کی یہ بھی ایک شکل ہے کہ فقرا کو کچھ دیدیا جائے اور اگر کچھ دینا ممکن نہ ہو تو انتہائی نرمی سے معذرت کرلی جائے، اس سلسلے میں مانگنے والوں کی ظاہری ہیئت کو معیار نہ بنایا جائے ، حدیث میں آیا ہے کہ اگر مانگنے والا ایسے گھوڑے پر سوار ہوجس کی لگام سونے کی ہوتو بھی اس کو برا بھلا نہ کہا جائے ، نہ معلوم وہ کن حالات کا شکار ہے ، جس کی وجہ سے وہ تمہارے دروازہ پر آگیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک متوازن نظام دیا گیا ہے ، جس میں کچھ ہدایات گداگروں کے لئے ہیں ، اور کچھ دادوہش کرنے والوں کے لئے ، دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے، روز گار کے مواقع پیدا کرنے چاہئے ، استْحصال سے باز آنا چاہئے اور تعلیمی اداروں میں عزت نفس غیرت وخود داری کے فروغ کے لئے تربیتی نظام کو قائم کرنا چاہئے تاکہ گداگر کوگدا گری کومعیوب سمجھنے لگیں ۔

متعلقہ خبریں

Back to top button