مضامین

پاکیزہ معاشرے کے لئے صرف تقریر نہیں عمل کی ضرورت ہے!

تحریر: جاوید اختر بھارتی
کتنا آسان ہے مشورہ دینا، کتنا آسان ہے بڑھتی ہوئی رسم و رواج پر گھڑیالی آنسو بہانا، کتنا آسان ہے جہیز کے مطالبے کو لعنت و ناسور بتانا، کتنا آسان ہے تقریریں کرنا اور کرانا، کتنا آسان ہے بیٹیوں کو زحمت نہیں رحمت بتانا  کتنا آسان ہے راتوں میں چودہ سو سال پہلے کے واقعات کو بیان کرنا، نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات طیبہ پر روشنی ڈالنا، قرآن و احادیث بیان کرنا اور شائد اس سے بھی بہت آسان ہے دن کے اجالے میں ان تمام فرامین اور واقعات کی دھجیاں اڑانا-
ہاں یہ سچائی ہے آج کا مسلمان ساری حدوں کو پارکرتا جارہاہے شادی کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، بے حیائی اور برائی کا بازار گرم ہے، فضول خرچیوں کا زبردست ماحول ہے سجاوٹ، شامیانے اور پکوان کے نام پر پانی کی طرح دولت بہائی جارہی ہے قرض اور لون تک کا سہارا لیا جانے لگا لڑکی کے گھر ولیمہ نہیں تھا مگر آج لڑکی کے گھر پر ولیمہ اور طعام کے نام پر کمر توڑا جارہا ہے، قرض کے بوجھ تلے دبایا جارہا ہے اور تقریریں کرنے کرانے کا نہ جانے کیا مقصد ہے جب تقاریر کے اختتام کے چند گھنٹے بعد ہی وہ کام کئے جاتے ہیں جو سراسر وعظ و نصیحت کے خلاف ہوتے ہیں اور ان تمام خرافات میں سبھی خاص و عام شریک رہتے ہیں،، تو سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آخر کیوں کہا جاتا ہے کہ نکاح کو آسان بناؤ ،، حقیقت تو یہ ہے کہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آسان بنایا مگر آج امت محمدیہ نے نکاح کو بہت مشکل و کٹھن بنادیا غریبوں کے لئے آج زمین خریدنا اور گھر بنوانا جتنا مشکل ہے اتناہی بیٹیوں کی شادی کرنا بھی مشکل ہے نہ جانے کس مقصد کے تحت آئے دن اصلاح معاشرہ کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اصلاح معاشرہ کا عنوان دے کر جلسوں کا انعقاد و اہتمام کیا جاتا ہے راتوں میں قرآن و حدیث بیان کرنا اور کرانا اور دن میں اسی قرآن و حدیث کے خلاف ساری تقریبات کا اہتمام کرنا کیا قرآن و حدیث کی توہین نہیں ہے؟ رات میں صحابہ کرام کے واقعات بیان کرنا اور دن میں انہیں واقعات کے خلاف محفلوں کا اہتمام کرنا کیا صحابہ کرام کی توہین نہیں ہے؟
آئیے سب سے پہلے بارات کی بات کرتے ہیں جب دن تاریخ مقرر کرنے کے لئے لڑکی کے باپ کے دروازے پر لڑکے والے پہنچتے ہیں تو ناشتہ پانی کے بعد بات چلتی ہے کہ باراتی کتنے رہیں گے تو لڑکے والوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ باراتی مانگنے پر زور دیا جاتا ہے اور لڑکی کا باپ جو بات بھی بولتا ہے تو بہت ہی دبی ہوئی آواز میں بولتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکے والوں کی بات اور شرط لڑکی کے باپ کو منظور ہی کرنا پڑتا ہے،، آخر جلسوں میں کھل کر کیوں نہیں بولا جاتا ہے کہ بارات لے جانا ناجائز ہے اور لڑکی کے باپ کے دروازے پر سو دوسو آدمیوں کو لے جانا ، کھانا کھلانا سراسر غلط ہے راقم نے نے آج تک کسی جلسے میں برجستہ اس کی مخالفت نہیں دیکھی منہ میاں مٹھو والی بات بولنے کا انجام یہ ہوا کہ ہمارے ہی ملک میں کئی کئی غریب بیٹیوں نے ایک ساتھ خودکشی کی ہے اور ایک ساتھ کئی کئی سگی بہنوں کا جنازہ تک اٹھ چکا ہے،، ایسی شادی بھی ہوچکی ہے کہ۔ باپ نے قرض لیا داماد کی ساری خواہشات و فرمائش کو پورا کیا اب قرض چکانے کا اس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا شام کو بیٹی کی وداعی ہوتی ہے اور رات میں بیٹی اپنے باپ کے حالات پر نظر دوڑاتی ہے اسے یقین ہوجاتا ہے کہ میرے باپ کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور قرض کی ادائیگی کا کوئی ذریعہ نہیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میرا باپ سر اٹھاکر سماج میں رہے پہلی ہی رات میں بیٹی کو ہاٹ اٹیک آتاہے چیخ مار کر زمین پر گرتی ہے اور روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے صبح باپ کو خبر دی جاتی ہے باپ اپنے داماد کے گھر پہنچتا ہے کیا دیکھتا ہے کہ چارپائی پر ایک لاش پڑی ہوئی ہے اور اس کے اوپر سفید چادر اوڑھائی گئی ہے لڑکی کا باپ اپنے داماد کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ ائے لالچی بدبخت تونے سب کچھ مانگا کاش میری بیٹی کے لئے کفن بھی مانگا ہوتا مگر نہیں تونے تو صرف اپنے کھانے کے لئے ہڈیاں مانگی،، اتار کر سفید چادر کو پھینک دیا اور اپنی چادر اوڑھائی اور کہا کہ بیٹی تیرا باپ کتنا بدنصیب ہے کہ جو اپنے ایک رونگٹے کو قرض میں ڈوبا کر بھی تجھے کفن دینا بھول گیا اب گاؤں کے کچھ چاپلوس لوگ آگے بڑھتے ہیں کہ صبر کیجئے اب جو ہونا تھا ہوگیا لڑکی کے باپ نے گرجدار آواز میں کہا کہ خبردار کسی نے سمجھانے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا کل تم کہاں تھے جب یہ ظالم ہڈیاں مانگ رہا تھا اس وقت تمہارا ضمیر مردہ ہوگیا تھا اور تمہاری غیرت مرگئی تھی آج چلے ہو سمجھانے تمہاری نصیحت تمہاری باتوں کو میں جوتوں کی نوک پر ٹھکرا تا ہوں میری بیٹی کو نہ تمہارا کفن چاہئے اور نہ تمہارے قبرستان کی زمین،، میں اپنی چادر میں لپیٹ کر اپنے آباؤ اجداد کے قبرستان میں اپنی بیٹی کی تدفین کروں گا،، حق بات ڈنکے کی چوٹ پر اگر کہی جاتی اور بے جا رسم رواج کی عملی طور پر پرزور مخالفت کی جاتی تو ہرگز ایسا واقعہ رونما نہیں ہوتا،، اور آج بھی زبان نہیں کھلے گی تو انجام براہی نکلے گا،، کیونکہ سونا چاندی مانگا جانے لگا، موٹرسائیکل اور فورویلر بھی مانگا جانے لگا، نقدی رقم کا مطالبہ بھی کیا جانے لگا، باراتیوں کی عزت ہونی چاہئے یہ باتیں بھی کہی جانے لگیں شادی کے بعد عورت بیچی بھی جاچکی، شادی کے کچھ ہی دنوں بعد لعن و طعن کی شکار بھی عورت ہونے لگی بہت کچھ ہونے لگا ہے ناچ گانا باجا بھی ہورہا ہے مختلف علاقوں میں شادیوں کے موقع پر مسلمان ایسی ایسی رسمیں ادا کرتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دین کی ذرہ برابر بھی جانکاری نہیں یاکہ پھر جانکاری ہے تو گناہ کی کوئی پرواہ نہیں،، ایک طرف کہا جاتا ہے کہ جہیز کا خاتمہ ضروری ہے اور دوسری طرف دیکھا جارہا ہے کہ اب نکاح سے پہلے جہیز کا سامان لڑکے والوں کے گھر بھیجا جاتا ہے خدارا زبان کھولو اسٹیج پر علماء کرام زبان کھولیں، مساجد میں جمعہ کے دن خطیب و امام اپنی زبان کھولیں اور پوری طاقت کے ساتھ شادی بیاہ میں ہونے والی فضول خرچیوں پر روک لگانے پر زور دیں اور وہ مدارس جو صرف چندے کے لئے شادی بیاہ کے انعقاد کے لئے مدارس کا صحن بک کرکے پیسہ لیتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے قرآن و حدیث کے خلاف ایک سے بڑھ کر ایک رسمیں ادا کی جاتی ہیں وہ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کل میدان محشر میں وہ رب کی بارگاہ میں کیا جواب دیں گے جب پروردگار پوچھے گا کہ تو مدارس کا ذمہ دار ہوکر مدارس کو اسلام کا قلعہ بھی کہتا تھا اور دوسری طرف اسی اسلام کے قلعے میں تو نکاح کو آسان کرنے کے بجائے مشکل بھی کرتا تھا اور زنا کو مشکل کے بجائے آسان کرتا تھا،، یقیناً تماری پکڑ ہوگی اس لئے دولت مندوں کا منہ نہ دیکھو اور ان کے ذریعے فضول خرچیوں کے تم حمایتی یا معاون نہ بنو ویسے ہی آج ہمارے معاشرے کی لڑکیاں غیروں کے جال میں پھنستی جارہی ہیں اس لئے صرف تقریر و تحریر تک محدود نہ رکھو بلکہ شادی بیاہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرو دین نے جو طریقہ بتایا ہے اس کے مطابق کرو تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ دیگر مذاہب کی شادی کچھ اور ہے اور مذہب اسلام کے اندر شادی کچھ اور ہے،، ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ شرعی حیثیت سے شادی کو مذہب اسلام نے نصف ایمان کہا ہے تو لذت اندوزی کے لئے شادی کرنا حرام بھی کہا ہے-
       +++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
موبائل: 8299579972

متعلقہ خبریں

Back to top button