مضامین

اور وہ مرگئی …

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721

وہ میری چاہت ہی نہیں میرا عشق تھی۔ دیوانہ وار عشق۔ اگرچہ کہ اوروں کے دل میں بھی اس کی چاہت تھی لیکن بس ایک وقت گزاری کے شوق کی حد تک۔ میرا یقینِ محکم تھا کہ میں اس کو حاصل کرکے رہوں گا اس لئے سبھی گواہ ہیں کہ میں نے زندگی کے پچاس سال اسے دے دیئے۔ زندگی کا سکون اور کاروبار اس کے لئے تباہ کردیا۔شہر شہر اور گاؤں دیہات اس کے پیچھے پھرتا رہا۔ اب جبکہ وہ مرچکی ہے تو پولیس مجھے ہراساں کررہی ہے۔ وہ تمام جواس کے لئے تھوڑی بہت چاہت دل میں رکھتے تھے،وہ بھی بری طرح ڈر گئے کہ کہیں پولیس ان کو بھی پریشان نہ کرے۔اب سارے عوام اور خواص ایک زبان ہو کر مجھ پر ملامت کررہے ہیں۔ ظاہر ہے عوام تو یہ چاہتے تھے کہ وہ ایک داشتہ کی طرح ان کے ساتھ ٹائم پاس کرتی رہے، نہ کسی کو خبر ہو، اور نہ جیب سے کچھ مال خرچ ہو۔ خواص نے تو اس کو خوب استعمال کیا، اس سے دھندہ بھی کروایا اور اس کے ذریعے کسی نے مال کمایا، کسی نے شہرت، تو کسی نے منبرومحراب پر قبضہ حاصل کیا۔

وہ دیوانی تھی، ہر ایک کا کھلونا بنتی رہی۔ اس کو استعمال کرنے کا صحیح فن سب سے زیادہ لیڈروں، ملاّؤں اور مرشدوں کے پاس تھا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ وہ مرچکی ہے، لیکن یہ مجھے جھٹلا رہے ہیں جبکہ میرے پاس زندہ ثبوت ہیں۔ لیکن ان لوگوں نے اگر اس کے مرنے کا اعتراف کرلیا تو ان کے دھندے بند ہوجائیں گے۔پھر نہ لیڈروں کو ووٹ ملیں گے نہ مولویوں کو لفافے، نہ درگاہوں کے غلّے۔

اب لوگوں کو یہ کیسے یقین دلایا جائے کہ وہ مرچکی ہے۔ میں اسی کے جنون میں ہر روز ایک نئی تحریک، ایک نئی تقریر یا نئی تحریر لیکر لوگوں کو رِجھاتا رہا کہ کسی کے دل میں تو اس سے عشق کی آگ بھڑکے گی۔اس نے مجھے یقین دلایا تھا کہ لوگ دیوانہ وار اس کا ساتھ دیں گے، گھروں سے نکل پڑیں گے۔ لیکن اس کو بھی دھوکہ ہوا اور مجھے بھی۔ وہ تو مرگئی میں زندہ رہ گیا۔وہ جھوٹی نہیں تھی مگر سچّی بھی نہیں تھی۔ شائد غلطی میری ہی تھی، میں نے ہی اس کو ایک زندہ معجزہ انگیز حقیقت سمجھ لیا تھا، وہ بچوں کو بہلانے والی ایک جھوٹی تسلیّ تھی، میں جسے چٹان سمجھ رہا تھا وہ تو ریت کا تودہ تھی۔ شائد یہی وجہ تھی کہ جب بھی میں نے اس کی طرف لوگوں کو بلایا، لوگوں نے میری باتوں کو ایک ممکری آرٹسٹ کا آئٹم سمجھا۔

اگرچہ کہ پچھلے پچیس تیس سال میں میں نے کئی بار وارننگ دی کہ اگر اس کا ساتھ نہیں دو گے تو کیا انجام ہوگا۔ ایک ایک پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی، لیکن کوئی وقت پر اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ کسی نے کہا کہ ہمیں اولیااللہ کی قبریں بچالیں گی تو کسی نے کہا کہ ہمیں ہماری جماعت بچالے گی۔ مرحومہ کو میں نے بہت طاقتور سمجھا تھا لیکن وہ بہت کمزور نکلی۔ اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ لوگ قرآن کو تھام لیں، اسی سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے، لیکن قرآن کے اوپر فقہی فتوے بازیوں، حدیث کی بحثوں، منکرینِ حدیث کی کٹ حجّتیوں، تصوّف کی موشگافیوں، مسلکیت، فرقہ واریت، سنّیت، شیعیت، سلفیت، قاسمیت، بریلویت، پرویزیت، قادیانیت، مہدیویت، اور بالآخر لامذہبیت کے لاکھوں ٹن کا بوجھ رکھ دیا گیاتھا،اس سے کہیں زیادہ بوجھ تو ہر شخص کی اپنی دانشوری کا بوجھ تھا جس کے ذریعے وہ قرآن کو سمجھے بغیر قرآن کی تفسیر اور تعبیر کرسکتا تھا۔ اتنے لاکھوں ٹن کے کچہرے کو ہٹا کرایک دو کِلو کی قرآن کو باہر نکالنا ممکن نہیں تھا۔ شائد وہ بے چاری اسی بوجھ کو ہٹانے کی ناکام کوشش میں کہیں دب کر مرگئی۔الزام مجھ پر لگایا جارہا ہے کہ میں اس کے مرنے کی غلط افواہ پھیلا رہا ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس لئے مرگئی کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لوگ تو اسے اسی حد تک رکھنا چاہتے تھے جس حد تک گھر میں ایک دو جانمازیں یا اذکار کی ایک دو کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگوں کے اس سلوک کی وجہ سے ہی کئی سال سے اس کو ٹی بی ہوچکا تھا۔ہر روز کا اخبار ایک نہ ایک ذلت، رسوائی، اور شکست کی خبر دے رہا تھا۔ کوئی خبر ایسی نہ تھی جس سے اسے ایک سانس مل جائے۔وہ اگرچہ کوما میں تھی لیکن جب بھی کوئی دھرم سنسد ہوتا، کسی مسجد پر یا حجاب پر حملہ ہوتا، وہ تڑپ کر اٹھتی کہ شائد اب اس قوم کی غیرت جاگ جائیگی، لوگ ضرور جاگتے لیکن صرف اتنا جیسے نیند میں کوئی مچھر کاٹ لے تو۔ یہ دیکھ کر پھر وہ کوما میں چلی جاتی۔وہ جانتی تھی کہ لوگ نبیوں کے جعلی وارثوں کی انگلی پکڑ کر چلنے کے عادی ہوچکے ہیں، رفع یدین یا تین طلاق یا میلاد کا معاملہ ہو تو یہ محمد ﷺ کے وارث ہیں بلکہ ایسی سنتوں کے لئے تووہ مسجدوں کو میدانِ جنگ بھی بناسکتے ہیں، لیکن بات جب حقوق، مساوات، اور انصاف کے لئے جہاد کرنے کی آئیگی تو یہ پتہ نہیں یہ کس نبی کے وارث بن جاتے ہیں۔ یہ دیکھ دیکھ کر تو وہ بہت پہلے مرچکی تھی، بس اس کی لاش باقی تھی۔جس طرح شہید حافظ جنید کی ماں نے کہا تھا کہ اگرایک دو لوگ بھی ٹرین سے اتر کر آجاتے تو میرا بیٹا بجرنک دل کے غنڈوں سے بچ جاتا، اسی طرح اگر یہ ساٹھ ساٹھ ستّر سال کے بوڑھوں کی فوج جو پوری قوم پر ایک بوجھ ہیں، یہ آجاتے، یا یہ این آر آئی اپنی جیبوں سے مال نکالتے، یا نوجوان جو موبائیل کے گندے نالوں میں ڈوبے ہوئے، ایک نظر اٹھا کر اُسے دیکھ لیتے تو وہ نہیں مرتی۔ مگر اب کوئی نہیں آئے گا۔ اگر آئے بھی تو میں شائد پہلے جیسی خوشدلی کے ساتھ نہ ملوں۔ کیونکہ جس کے عشق میں ہر ایک سے دیوانہ وار ملتا تھا وہ تو مرچکی۔ میں پچاس سال اس کے ساتھ رہا۔ اس کی نبضوں کو محسوس کیا، اس کی دھڑکنوں کواپنے اندر سمالیا۔وہ جو میری زندگی تھی، میرا مقصدِ حیات تھی،جس کو لے کر میں بڑی بڑی جماعتوں، مسلکوں، سیاسی اور سماجی رہبروں، تعلیم یافتہ اور ان پڑھوں کی محفلوں میں پھرتا رہا، اب وہ نہیں رہی۔ اب میں تنہا ہوں۔ لوگ مجھے اس کے بغیر دیکھ کر ایک تعزیت بھری نظروں سے دیکھیں گے۔

آپ ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر وہ کون تھی، وہ میری امید تھی۔ اپنی قوم کے جاگ جانے کی امید۔نشاۃ ثانیہ کی امید۔امید کے زندہ ہونے کی امید ویسی ہے جیسے ایک جھوٹے لیڈر کے ”اچھے دن آئیں گے“ والے فقرے کے سچ ہونے کی امید۔

ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اب یہ قوم پہاڑ سے ٹوٹی ہوئی چٹان کی طرح بہت تیزی سے نیچے آرہی ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔یہ پاش پاش ہوکر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اب ان کی جگہ قوماً آخرین کو لائے گا جس طرح اس نے ترکوں اور منگولوں کو لایا۔مدرسہ اپنا نصاب کبھی تبدیل نہیں کرسکتا۔ قرآن کو برائے نام رکھ کر وہی فقہی مسائل پڑھاتا رہے گا جن کی افادیت کو ختم ہوئے زمانے گزر چکے۔ یہاں سے سند لے کر نکلنے والے انبیا کے وارث ہونے کا دعویٰ توکریں گے لیکن زمانے کی قیادت سکھانے والے کسی مضمون کو نصاب میں شامل نہیں ہونے دینگے۔ جہیز اور بارات کے کھانوں کے خلاف دھوم کی تقریریں کرینگے لیکن خوشی سے لین دین کا جواز پیش کرکے قوم کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ انبیا کے ان وارثین میں بہترین سنّی اور شیعہ، بہترین حنفی اور شافعی یا مقلد اور غیرمقلد تو ہوں گے لیکن ان میں دور دور تک حقیقی اسلام کا شعور نہیں ہوگا۔حافظ لاکھوں پیدا ہوتے رہیں گے لیکن سنسکرت کے بغیر سمجھے اشلوک رٹنے والے پنڈتوں کی طرح۔ قرآن نہ تو یہ خود سمجھیں گے اور نہ سننے والے۔مختصر یہ کہ جس طرح شودر پنڈت کی انگلی پکڑ ے بغیر چل ہی نہیں سکتے، اسی طرح یہ قوم بھی مرشدوں، ملاّوں، اور منافق لیڈروں کی انگلی پکڑے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ یہ سب انہی امیر لیڈروں کے پیچھے چلتے رہیں گے جن کی دولت اوقاف کی زمینوں پر قبضوں، کمزوروں کی حق تلفی، دلالی اور فاشسٹوں سے ہاتھ ملالینے کے نتیجے میں جمع ہوئی ہے۔ دوسری طرف صحافی اور کالمسٹ اخباروں یا سوشیل میڈیا میں حالاتِ حاضرہ پرایک بیوا جیسا رونا روتے رہیں گے، ظالم کے ظلم کو بیان کر کر کے پوری قوم کی شکست، ہزیمت اور ذلت کو تسلیم کرتے رہیں گے۔

میں جانتا ہوں یہ سب پڑھتے ہوئے قارئین کے ذہن میں ایک تنقیدی مضمون چل رہا ہوگا۔ ”مایوسی کفر ہے“، ولا تھنوا ولا تحزنوا، نصر من اللہ فتح قریب جیسی خوشخبریوں سے مجھے نصیحت فرمانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن وقت گزرچکا ہے۔ اب یہ تسلیاں بچے کو کل چاند دِلانے والی تسلیاں ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ امید مرچکی ہے۔ جولوگ انکار کررہے ہیں وہ ایسے ہی لوگ ہیں جو، جب ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے نکل کر کہتا ہے کہ مریض انتقال کرگیا ہے تو کہتے ہیں ”نہیں وہ نہیں مرسکتا، وہ زندہ ہے“۔

کچھ لوگ کہیں گے کہ راقم الحروف کو صرف اللہ سے صلہ حاصل کرنے کی امید رکھنی چاہئے تھی۔ لوگوں سے صلہ حاصل کرنے کی تمنا میں یہی انجام ہوتا ہے اور لوگوں سے گِلے شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ مثالیں بھی دیں گے کہ فلاں مجاہد تھے، انکا بیٹا بھی شہید ہوگیا تھا، فلاں جیل گئے تھے لیکن انہوں نے شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پر کبھی نہیں لایا، ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ صرف احتجاج اور اپوزیشن میں اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے؛ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہی اسلام نہیں بلکہ ظلم کا ہاتھ پکڑنا اور زمامِ حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنا بھی اسلام ہے۔ پچھلے دیڑھ دو سو سال سے مسلمان صرف ماضی کا رونا روتے آئے ہیں۔ کبھی انگریزوں کے جبرواستبداد کا رونا روتے تھے، پھر کانگریس کا اور اب فاشسٹوں کا۔17 ستمبر کو سقوطِ حیدرآباد کے موقع پر ہم نے دیکھا کہ ایک طرف فاشسٹ لبریشن ڈے آف حیدرآباد مناتے ہوئے جوشیلے وجوان جلوس اور جلسوں کے ذریعے ملک کے مستقبل کی تصویر دکھارہے تھے، تو دوسری طرف ریٹائرڈ بوڑھوں کی زوالِ حیدرآباد پر میٹنگیں ہورہی تھیں، جن میں یا تو 1947 کا ماتم، فریاد اور ہائے ہائے ہورہی تھی یا پھر نواب میر عثمان علی خان کے احسانات گنائے جارہے تھے۔ جیت اسی کی ہوتی ہے جو مسقتبل کی منصوبہ بندی کی بات کرتا ہے۔ اگر صرف اللہ سے صلہ کی تمنا میں فقط مخالفت کرنا، کانگریس اور فاشسٹوں کے خلاف تقریریں کرنا، اور جیل جانا ہے تو بخدا یہ اسلام نہیں۔ اسلام حلف الفضول اور میثاقِ مدینہ بھی ہے جس میں مشرکین اور یہود سے ہاتھ ملاکر حق اور انصاف قائم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اللہ کی رضا محض اردو اخبارات میں بیان بازی سے نہیں ملتی بلکہ پورے ملک کے میڈیا کو بدلنے کی تحریک سے ملتی ہے۔

مسلمانوں کے دماغ سے ابھی تک ہم ”ایک ہزار سال کی حکومت“ کا نشہ نہیں نکال سکے۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ جمہوریت، سیکولرزم اور سمودھان کوبچانے کے لئے دوسری ذاتوں کے ساتھ مل کر کس طرح پہلے اپنا وجود باقی رکھنا ہے۔اسی لئے مسلمان جب بھی بات کرتے ہیںگویاپورے عالمِ اسلام کے لیڈر ہیں۔ حکومتوں کے خلاف بولتے بھی اس طرح ہیں گویا وہ سارے حکمران سامنے سر جھکا کر کھڑے ہیں، اور یہ ان کے کان مروڑ رہے ہیں۔ اگر اسی سے اللہ کی رضا ملتی ہے تو آئندہ سو سال تک بھی اسی طرح اولڈ سٹی میں لیڈرشپ چمکانے کے لئے تقریریں کرتے رہئے اور امید کو زندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہئے، کچھ حاصل نہیں ہوگا۔دوسرے کچھ لوگ مرحومہ امید کوزندہ ثابت کرنے کے لئے ایک نئی تھیوری پیش کرینگے کہ 2024 کے بعد حالات بدل جائیں گے۔ یہ بھی ایک خود فریبی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ ایک سرکار کے گِرنے کے بعد ساری قومیں آپ کو پھول کے ہارپہنائیں گی، اور کہیں گی کہ سرکار اب آپ حکومت سنبھالئے، بنک، ایجوکیشن، ایڈمنسٹریشن اور میڈیا وغیرہ سنبھالئے۔

آپ یہ مت بھولئے کہ آپ اقلیت میں ہیں۔ اکثریت کے رحم و کرم پر ہیں۔ حکومت بہت طاقتور ہے۔ فاشسٹوں کی دولت، طاقت، اور ذہانت کا آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ زیادہ آواز کرنے پر وہ کس طرح دبوچ سکتی ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں سامنے موجود ہیں۔کلاشنکوف کے سامنے غلیل یا ڈنڈے لے کر نکلنے سے پہلے سوچ لیجئے۔ ایمان کی طاقت پر جنگیں جیتنے کی مثال اس مردہ قوم پر فٹ نہیں ہوتی۔نہ آپ کے پاس عہدے حاصل کرنے کے قابل نوجوان ہیں، نہ وسائل ہیں، اور نہ ان کا شعور۔نشاۃ ثانیہ کو واپس لانے کی دور دور تک نہ کوئی تمنا ہے، نہ شعور اور نہ ہمت۔ ایک معمولی مسجد کی کمیٹی نہیں چلا سکتے ہیں، مسجد کو گندی سیاست سے آلودہ کردیتے ہیں، حکومت چلانے کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ سمجھتے ہیں کہ فاشسٹ خود ہی ابو بکر، عمر اور علی ؓ کی تاریخ پڑھیں گے اور خود ہی آپ کو ایسی حکومت قائم کرنے کی درخواست کریں گے۔پھر آپ کی حکومت قائم ہوجائیگی۔ ہرطرف انصاف ہی انصاف ہوگا۔ کوئی مسلمان نہ جھوٹ بولنے والا رہے گا، نہ جاسوس، اور نہ زمینوں پر قبضے کرکے شادی خانے بنوانے والا۔

تاریخ پڑھئے۔ مسلمانوں کی اکثریت پہلے شودر تھی۔ آپ کے آباواجداد کبھی حکمران نہیں رہے۔ وہ پہلے پنڈتوں کے غلام تھے، پھر افغان، ترک یا عرب بادشاہوں کے غلام سپاہی تھے، پھر انگریزوں کے غلام ہوئے، پھر اس فاشسٹ جمہوریت کے۔صدیوں سپاہی گری کرتے رہے یا ان بادشاہوں کے درباروں میں آداب اور قدم بوسی بجا لاتے رہے۔ آپ صدیوں سے غلام تھے، غلام ہیں اور غلام رہیں گے۔ اب”ہم نے ہزار سال حکومت کی“کے زعم میں رہنے والی قوم کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ اب یہ قوم صرف چوہوں کی قوم ہے۔ چوہے جو خالی کمروں میں خوب دندناتے پھرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ چوہے، دیندار چوہے، سوٹ اور شیروانیوں والے چوہے، اپنی ہی قوم کے کمزور چوہوں کو دبانے والے طاقتور چوہے، اک ذرا بلیّ کی آواز کیا آجائے پورے کے پورے ڈر کر بھاگتے ہیں اور بِلوں میں گھس جاتے ہیں۔ جاتے جاتے یہ مشورے بھی دے جاتے ہیں کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دیجئے۔ کوئی ٹھہرتا نہیں۔ انہیں ای ڈی کا خوف، این آئی اے، سی آئی ڈی، یو اے پی اے، ٹاڈا وغیرہ کا خوف لگا رہتا ہے۔ وہ تو دور کی بات ہے صرف ایک کانسٹیبل گھر پر آجائے تو تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔کیا 2024 کے بعد اچانک یہ سارے چوہے شیر بن جائینگے؟

آپ بھلے ان باتوں کا مذاق اڑایئے، بھلے ان باتوں کا اعتبار نہ کیجئے۔یہ ایک نوشتہئ دیوار ہے۔ پچاس یا سو سال بعد آنے والی نسلیں خود فیصلہ کریں گی کہ یہ باتیں سچ تھیں یا جھوٹ۔ اور وہ نسلیں بھی کل اپنے باپ دادا کو اسی طرح کوسیں گی جس طرح آج آپ اور ہم اپنے باپ دادا کو ان کی غفلت اور مستی کی وجہ سے کوس رہے ہیں۔اگر وہ صرف دعوتِ دین کا کام ہی صحیح کردیتے تو آج ہندوستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ اگرنسلوں کو مکمل غلامی میں جانے سے بچانا چاہتے ہیں توسب سے پہلا کام یہ کیجئے کہ اپنے آپ سے صرف ایک ہی سوال پوچھئے کہ آپ خود کیا کرسکتے ہیں، کتنا وقت اور کتنا مال خرچ کرسکتے ہیں۔ کچھ حرکت کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ اگر کوئی مثبت جواب مل جائے تو آجایئے یا فون کیجئے، اور بتایئے کہ آپ کیا کرسکتے ہیں۔اور اگرکچھ نہیں کرسکتے تو کم سے کم اتنا کیجئے کہ خدارا مشورے مت دیجئے، اور تبصرے مت کیجئے، اور نہ مضمون کو داد و تحسین سے نوازیئے۔ یہ سن کر میں بیمار ہوجاتا ہوں، میں اب باقی کے دن جو مرحومہ کی مغفرت کے لئے کچھ دعاؤں میں گزارنا چاہتا ہوں، فضول مشوروں سے اس میں خلل پڑتا ہے۔ پلیز

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button