مضامین

رشتہ نکاح کے لئے لڑکیوں کا انتخاب اورخواتین کی بے اعتدالیاں

رشحات قلم
عبدالقیوم شاکر القاسمی
امام وخطیب مسجد اسلامیہ
نظام آباد. تلنگانہ
9505057866

گذشتہ چند دن قبل اخبارات وسوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے توسط سے یہ خبر پہونچی کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کئ ایک ذمہ داران اور دونوں ریاستوں کے منتخب علماء کرام کاایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں آسان نکاح مہم تجویز پر غوروخوض کرکے اصلاح معاشرہ کے حوالہ سے فکریں ہوئیں اس خبر کو پڑھ کر اور سن کر جی خوش ہوا اور دل سے دعائیں نکلی کہ باری تعالی اس مہم میں حصہ لینے والوں کو کامیابی سے ہمکنار کرے اور مسلم معاشرہ میں درآنے والی بے ہودہ رسومات کا خاتمہ فرماے
اس خبر خوش کن اورعمل خیر سے ہٹ کر راقم کا خیال ہیکہ آج پوری تنظیمیں دینی وملی سوسائٹیاں علماء کرام وائمہ عظام مفتیان کرام اور مقررین سب کی توجہ نکاح کو آسان بنانے پر لگی ہوی ہیں اور اس کی بنیادی وجوہات یہ بتای جارہی ہیں کہ مالداروں نے نکاح کو مشکل بنادیا جہیز کے لین دین نے نکاح کو مشکل بنادیا شادیوں میں ہونے والے بے جاخرچ اور اسراف نے نکاح کو مشکل بنادیا جس کی وجہ سے کئ لڑکیاں نکاح کے انتظار میں اپنی عمر کو گذاردے رہی ہیں اورکئ لڑکیاں بے راہ روی کاشکارہوتی چلی جارہی ہیں بعض تو نعوذ باللہ تبدیلی مذہب کا ارتکاب کرکے دین اسلام سے منحرف ہورہی ہیں اورمرتد بن کر غیروں سے شادیاں رچارہی ہیں
یہ سب کچھ اپنی جگہ مسلم ہے نیز علماء وتنظیموں کی اصلاح معاشرہ وآسان نکاح کے حوالہ سے ہونے والی فکریں ومحنتیں بھی قابل قدر ہیں
مگر
میرایہ خیال ہیکہ ارتداد اورنکاح کے انتظار میں عمریں گذاردینے کی سب سے اہم اوربنیادی وجہ رشتہ کے انتخاب میں خواتین اسلام سے ہونے والی بے اعتدالیاں ہیں
میں اس بات کو یوں ہی نہیں بلکہ مشاہدہ کی رو سے کہ سکتا ہوں اورمیرے اس خیال کی تائید بھی ابھی چند ماہ قبل شہر نظام آباد کے ایک بڑے عالم دین نے بھی اس حوالہ سے راست رابطہ کرکے کی اورمجھے حکم بھی دیا تھا کہ اس حوالہ سے عوام الناس میں شعوربیداری کرنا چاہیے اسی طرح ایک اورعالم دین نے نجی گفتگو کے دوران مسلم پرسنل لابورڈ کے منعقدہ اس اجلاس پر تبصر کرتے ہوے کہا کہ بورڈ اورعلماء کی لاکھ محنتیں ہوں مگر جب تک رشتوں کے انتخاب میں بے اعتدالیاں ختم نہیں ہوں گی یہ مسئلہ عقدہ لاینحل ہی رہے گا جس سے میرے خیال کی مزید تائید ہوگیء
بہرکیف
چھوٹا منہ بڑی بات کے لےء معذرت کے ساتھ رقم کررہا ہوں کہ آج ہمارے سماج اورسوسائٹی میں یہ رواج عام ہوچکا ہیکہ لڑکی خوبصورت ہوں اس کا رنگ بالکل فیر ہوں ذرہ برابر بھی کوی کمی اس کے چہرہ مہرہ میں نہ ہوں کھڑی ناک ہوں بال دراز لمبے ہوں گول چہرہ ہوں اس کے علاوہ کچھ لوگ مالداری کو معیار بناے ہوے ہیں کہ ہم اپنے لیول کی بچی تلاش کررہے ہیں مگر وہ مل نہیں رہی ہے بعض لوگ تعلیم کو معیار بناکر بیٹھے ہوے ہیں کہ لڑکی ایم بی بی ایس کری ہوی ہوں بی ایڈ کری ہوی ہوں حالانکہ ایسی بہت ساری لڑکیاں خود ان کو اپنے خاندان میں مل سکتی ہیں بلکہ مل رہی ہیں جن کی تعلیم گرچہ ہای فای نہیں لیکن خوب صورت اورخوب سیرت ہے مگر ہماری خواتین ان سے اپنے بچوں کانکاح کروانے کے لےء پیچھے ہٹ جاتی ہیں
اورمزید آگے بڑھیں تو کچھ لوگ نازک بدن دبلی پتلی لڑکی کی تلاش میں ہیں حالانکہ اچھے خاندان دینی ماحول کی پلی بڑھی بچی ہے مگر قدرے موٹاپہ آگیا تو اس کو ردکررہے ہیں کہیں خوبصورتی ہے تو تعلیم نہ ہونا رکاوٹ بن رہی کہیں تعلیم ہے تو غربت رکاوٹ بن رہی ہے کہیں مالداری ہے تو خاندانی نہ ہونا رکاوٹ بن رہی ہے کہیں خاندانی ہے تو رنگ روپ رکاوٹ بن رہی ہے
بس اسی میں ہمارامعاشرہ الجھا ہوا ہے جس کی وجہ سے آج لڑکیاں اپنی عمر کا ایک وافر حصہ اسی انتظار میں گذاررہی ہیں
میں سمجھتا ہوں کہ جہیز کی مانگ اچھے کھانے اورپکوان کامطالبہ یاخاندانی اسٹیٹس کو منٹن کرنایالین دین کی بات کرنا گھوڑے جوڑے کی رقم لینا یہ سب وجوہات بعد کی ہے مگر بنیادی طور پر انتخاب ہی میں تاخیر کرنا اورمعمولی وجوہات کو معیار بناکر تاخیر کرنایہ سب سے بنیادی وجہ اور علت ہے ہمیں اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے راقم الحروف ذاتی طورپر ایسی کئ لڑکیوں کو جانتا ہے جن کا انتخاب محض تعلیمی معیار یامالی معیار یا جسمانی معیار پر پورے نہ اترنے سے نہیں ہورہا ہے
ہمیں اس بات کو عام کرنا چاہیے اور عوام الناس کوبھی یہ بات خوب سمجھ لینا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ نے انتخاب رشتہ کے لےء جو راہنمایانہ خطوط متعین کئے ہیں اس سے تجاوز کرکے اپنی من مرضی کا رشتہ تلاش کرنا یا اسلام کے بتاے ہوے اصول وضوابط سے ہٹ کر اپنی پسندیدگی کی تلاش میں رہنا ایک حماقت ہی کہلاے گی
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی اوربتلایا کہ کسی لڑکی کا بیوی کے طورپر انتخاب کرنا ہوتو چارچیزوں کو معیار بنایا جاسکتا ہے
(1)اس کے حسن وجمال کو
(2)اس کے حسب ونسب کو
(3)اس کی مالداری کو
(4)اس کی دینداری کو
مگر تم اگر ترجیح دو تو صرف اس کی دینداری کو
جس کا صاف مطلب یہی ہواکہ دین اسلام نے کسی لڑکی کے انتخاب کے سلسلہ میں اگر مناسب سمجھا تو اس کے دیندار ہونے کو جس کی وجہ سے نکاح کے بعد وہ لڑکی تمہاری بیوی بن کر پورے خاندان اورگھرانہ کی دینداری کا ذریعہ بن سکتی ہے آجکل دوری اوربعد مسافت کو بھی لوگوں نے معیار بنایا ہوا کہ صاحب لمبی مسافت ہے لڑکے کو اتنا دور جانا پڑتا ہے وقت نہیں مل پاتا کیسے ممکن ہوگا وغیرہ وغیرہ
خوب سجھ لیں کہ مالداری کو یا دوری کو یا حسن وجمال کو یا خاندان کو معیار بناکر بیٹھ جانا اور خواہ مخواہ لڑکےاورلڑکیوں کے نکاح میں تاخیر کرنا قطعا مناسب نہیں ہے
اگر اچھی سیرت اوردیندار گھرانہ والی لڑکی مل جاے تو باقی تمام چیزوں کو حائل بناکر رشتوں کو ردنہیں کرنا چاہیے
حدیث پاک میں صاف لفظوں میں بتلادیا گیا کہ دینداری کو معیار بناکر جو مسلمان نکاح کرتا ہے تو اس میں دنیا کی بھلای اورآخرت کی سعادت ہے

متعلقہ خبریں

Back to top button