مضامین

طاقت کا سر چڑھ کر بولتا نشہ…ایوان کا تقدس پامال

علیم خان فلکی

پچھلے ہفتہ ایک فرقہ پرست فاشسٹ ایم پی نے ایک مسلم ایم پی کوپارلیمنٹ کے بھرے اجلاس میں اپنی Hate speech کا نشانہ بنایا، یوں تو اس سے پہلے بھی کہیں زیادہ شرمناک Hate speeches  اوروں نے بھی کیں لیکن وہ پارلیمنٹ کے باہر تھیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ کسی غنڈہ مزاج نے پارلیمنٹ کے اندر یہ جسارت کی ہے۔ پارلیمنٹ کو سموِدھان کا مندر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں قانون بنایا جاتا ہے، اس کو یہیں سے چلایا جاتا ہے اور قانون کی مکمل حفاظت پارلیمنٹ سے ہی کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ جگہ سموِدھان کے لئے ایسی ہی مقدس ہے جیسے ہندؤوں کے لئے مندر یا مسلمانوں کے لئے مسجد۔ اگر کسی دوسرے دھرم کا کوئی آدمی کسی مندر، یا مسجد یا گردوارے یاچرچ میں جاکر غلط حرکت کرے تو اُس دھرم کے لوگ اس کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں، وہ لنچنگ سے بھی زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ لیکن پارلیمنٹ اور سمودھان کے دھرم کی دھجّیاں اڑا دی گئیں اس گستاخ کو سزا دینا تو درکنار، خود اسپیکر اور بھگوا پارٹی کے کئی ممبر ہنس ہنس کر اس کی ہمت افزائی کرتے نظرآئے۔ نہ حکمران پارٹی کے اور نہ اپوزیشن پارٹی کے کسی ممبر آف پارلیمنٹ نے بروقت ایکشن لیا، نہ  واک آوٹ کیا اور نہ اپنے پارٹی ورکرز کے ساتھ سڑک پر آیا، جبکہ یہ لیڈر اپنے دھرم یا جاتی یا اپنی پارٹی ایجنڈے کے خلاف اگر کوئی بات ہو تو پارلیمنٹ کو سبوتاج کرڈالتے ہیں۔اور وہ ایم پی جس کو ذلیل کیا گیا نہ اُس کے پاس اتنی غیرت تھی اور نہ اُس کی پارٹی میں اتنی ہمت تھی کہ دھرنا دیتے، فلور پر اُس وقت تک احتجاج کرتے جب تک اُس غنڈے کو پارلیمنٹ سے معطل نہیں کردیا جاتا۔ اگرچہ کہ راہل گاندھی اور دوسرے کئی اپوزیشن لیڈروں نے مذمّتی بیانات دیئے لیکن یہ بیانات دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی سڑک حادثے کے زخمی کو جِسکی فوری آپریشن کی ضرورت ہے، اُس کے زخموں کو Dettol سے دھوکر ڈریسنگ کرکے بھیج دیا جائے۔

 

 

اگر حل تلاش کرنا ہو تو پہلے اِس غنڈہ حرکت کرنے والے کی ہمت کی اورپھر ڈر کر خاموش رہ جانے والوں کی سائیکالوجی کو سمجھنا ہوگا۔جس نے پارلیمنٹ کے Ethical rules کا وائلیشن کیا ہے اس غنڈے ایم پی کے پیچھے چلنے والوں کی تعداد جس کو Mass strength کہتے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے جو کہ اس کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر آسکتے ہیں۔ جب کہ گالیاں کھانے والوں کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ خود انہیں کوئی معمولی سڑک چلتا بھگوا غنڈہ گالی دے تو گھر میں چھپ جاتے ہیں، سڑک پر نہیں آتے۔ اسی سائیکالوجی کا فائدہ اٹھا کر طاقتور ہمیشہ تھرمامیٹر کی طرح لوگوں کے دلوں میں ڈر کتنا ہے اس کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ سنجیوبھٹ، جسٹس لویا، اعظم خان، چدمبرم، بھیم کورے گاؤں، تری پورہ،پی ایف آئی، عمرخالد، منی پور، نوح اور میوات جیسے مسلسل واقعات وقتاً فوقتاً مریض کے ٹیسٹ کی طرح کئے جاتے ہیں، تاکہ اگر کہیں لوگوں میں احتجاج، بغاوت یا سڑکوں پر آنے کی ہمت باقی ہو تو ایسے باغیوں کو جیلوں، انکاؤنٹر، ای ڈی، یو اے پی اے یا پوٹا وغیرہ کے ذریعے ہمیشہ کے لئے ختم کیاجاسکے۔ ایسا جس کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے بزدل سوسائٹی کی یہ علامت ہوتی ہے کہ خود اس شخص کے قریبی لوگ بھی اس کا نام لیتے ہوئے  ڈرتے ہیں، اس شخص کا نام فون اور سوشیل میڈیا سے بھی ہٹا دیتے ہیں۔یہ بزدل لوگ باطل طاقتوں کے وفادار تو نہیں بنتے لیکن اپنی خاموشی اور فرار کے ذریعے باطل طاقتوں کو اور طاقتور بنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف باطل طاقتیں دھرم یا مذہب کے نام پر اپنے اندھ بھگتوں کی حمایت حاصل کرکے اندھا دھند دولت اور پاؤر حاصل کرلیتے ہیں۔پھر فطری بات ہے کہ پولیس، فوج، میڈیا، عدالتیں، جج اور EVM سب ان کے پیچھے ان کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں، کیونکہ سب کو اپنی اپنی نوکری اور پروموشن کی ہوس ہوتی ہے۔ جب اتنی طاقتیں پیچھے ہاتھ باندھ کر حکم کا انتظار کررہی ہوں تو ایک مرد تو کیا ایک ہیجڑا بھی اتنی ہمت پیدا کرلیتا ہے کہ پستول ہوا میں لہراتے ہوئے، پولیس والوں کو اطراف لے کر ”گولی مارو سالوں کو“کہتے ہوئے کھلے عام پھرتا ہے۔

 

 

دوسری اہم نفسیات یہ سمجھئے کہ یہ معاملہ ہندو مسلمان کا نہیں ہے۔یہ Power  اور Powerless  کی جنگ ہے جو روزِ ازل سے چلی آرہی ہے۔ کربلا میں دونوں طرف کلمہ پڑھنے  والے  ہی تھے۔ پاکستان بنگلہ دیش، عراق ایران، سعودی اور یمن، سوڈان کے دونوں متحارب گروپس، ترک اور عرب، یہ سارے وہی کلمہ پڑھنے والے لوگ تھے جنہوں نے ایک دوسرے کا Bloodshed کیا۔ دوسری طرف ہزاروں بدھسٹوں کا قتل ہوا، مرہٹوں نے چار لاکھ بنگالیوں کا قتل کیا، مرہٹوں نے ہی ساؤتھ کی مندریں لوٹیں، ہندوستان میں مسلمانوں کے داخلے سے پہلے تک ہر ریاست ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارتگری کررہی تھی، یہ تمام مثالیں ہیں کہ دونوں طرف اسی رام کو ماننے والے تھے۔ اسی طرح China square پر ٹینکوں سے عوام کو کچل دیا گیا، ہر دو طرف چینی تھے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں اکثریت جو ایک دوسرے کو قتل کررہی تھی، وہ ساری عیسائی تھی۔ اسی طرح سری لنکا، یوگانڈا، نیکاراگوا، انگلینڈ کے پروٹیسٹنٹس اور کیتھولکس، وغیرہ اگرچہ سارے ایک ہی دھرم کے لوگ تھے لیکن ایک دوسرے کے اوپر پاؤر حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے قتل کرتے رہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک چلنے والا ہے۔سوال وہی آتا ہے کہ حل کیا ہے؟ کیا کبھی کمزوروں کو بھی  طاقت حاصل ہوگی؟ کیا کبھی طاقتور شکست کھائیں گے؟  اِس نفسیات کا قرآن بہترین تجزیہ بھی کرتا ہے اور حل بھی پیش کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ طاقتور ہو کہ کمزور، اہلِ ایمان ہوں کہ انکار کرنے والے، دونوں کے پاس جہاد اور قتال کا ہی راستہ ہے۔ سورہ نسا آیت 76 ”جو ایمان والے ہوتے ہیں وہ قتال کرتے ہیں، اور جو انکار کرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی قتال کرتے ہیں۔ پس قتال کرو ان سے جو شیطان کے دوست ہیں، اور بے شک شیطان کی چالیں ضرور کمزور پڑتی ہیں“۔

 

 

جو بھی قتال کے لئے تیار ہوگا، طاقت اسی کا حق ہے۔ جس کی شاندار مثال یہی کہ اندھ بھگت ہر وقت جلسے جلوسوں اور فسادات کے ذریعے قتال کے لئے تیار رہتے ہیں، اسی لئے انہیں پاؤر حاصل ہے۔ ارتغرل نے قتال کیا اُسے چھ سوسال کا پاؤر ملا۔عبدالعزیز ابن سعود نے قتال کیا سو سال سے اس کا خاندان سعودی عرب پر حکومت کررہا ہے۔ لیکن آج کے مسلمانوں کی طرح جو قتال کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور اسی سورہ کی آیت 77 کے مصداق نماز اور زکوٰۃ پر تو خوب عمل کریں گے لیکن قتال سے بھاگیں گے“ وہ اسی سزا کے مستحق ہوں گے جو سزا انہیں گجرات، آسام، مؤ، مظفرپوراور سقوطِ حیدرآباد  وغیرہ میں مل چکی ہے، اور بقول مولانا سجاد ندوی کے ”ابھی تو اور جوتے پڑنے باقی ہیں“۔پہلا حل یہی ہے کہ ہر ہر شخص پہلے کسی مضبوط جماعت میں شامل ہوجائے۔ جماعت مضبوط نہ بھی ہو تو اس کو مضبوط کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں شامل کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ڈاکٹر امبیڈکر نے صحیح کہا تھا کہ ”Mass strenth  پاؤر کی Master key ہے۔ مکہ میں نبیﷺ ایک تھے۔ تیرہ سال میں 70+ ہوئے جنہوں نے ہجرت کی، بدر میں 313، غزوہ تبوک میں دس ہزار اور حجۃ الوداع میں ایک لاکھ پچیس ہزار، اور خلافتِ راشدہ تک کئی لاکھ، جس کے نتیجے میں ایک تہائی دنیا پر اسلام کے دامن میں پناہ  لے چکی تھی۔

 

قتال کے لئے سب سے پہلا ہوم ورک یہی ہے کہ Mass strength پیدا کی جائے۔ اسیِ کو جماعت کہتے ہیں، اسی لئے پیغمبرﷺ نے حکم دیا کہ ”انا آمرکم بالخمس، ۱۔ جماعۃ۔۔۔۔۔“ یعنی میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں، سب سے پہلے ہے جماعت“۔ یہ بھی فرمایا کہ جس نے جماعت کا ساتھ چھوڑا وہ ایمان سے پِھر گیا۔ ہر شخص پر لازمی ہے کہ کسی نہ کسی جماعت میں پہلے شامل ہوجائے۔ صحیح جماعت کی کسوٹی ایک ہی ہے کہ وہ یقییمون الصلوۃ کے ساتھ ساتھ کونوا قوامین بالقسط کے لئے کھڑی ہو یعنے کمزوروں کے حقوق اور انصاف کے لئے سڑکوں پرآنے کا منصوبہ رکھتی ہو۔ سڑکوں پر آنا ہی جہاد و قتال کا پہلا قدم ہے۔ گاندھی جی، محمد علی جناح، Arab Spring، خمینی، آریس یس، بجرنگ دل، کمیونسٹ، بی جے پی، مارٹن لوتھر کِنگ، منڈیلا وغیرہ سب اسی طرح سڑکوں پر آکر Mass strength پیدا کرکے انقلاب لانے کی مثالیں ہیں۔ لیکن اس کے لئے سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ سب اپنی اپنی امیری، پراپرٹی، ڈگریوں اور خاندانوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف ایک والنٹیئر کے طور پر پیش کرکے کام کریں جیسے کہ صحابہ ؓ نے کام کیا اور صرف 23 سال میں ایک تہائی دنیا کے لیڈر بن گئے۔آر یس یس اس کی دوسری زبردست مثال ہے جس نے جماعت کے بنیادی اصول پر کام کیا، اور ان کے تمام ارکان قابلِ تعریف ہیں جنہوں نے اپنی اپنی قابلیت اور انا کو بازو ہٹا کر صرف ایک والنٹئر کی طرح کام کیا اور آج بھی کررہے ہیں۔  تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بہترین والنٹئر ہی بہترین لیڈر بنتے ہیں۔ لیکن امت کی ٹریجڈی یہ ہے کہ جو ایجوکیٹیڈیا مدرسوں کے فارغ یا اہلِ سلسلہ ہیں وہ تو خودساختہ لیڈر، دانشور، عالمِ کُل ہیں ہی، لیکن جو آٹو والے، میکانک، سیلزمین یا فقیر بھی ہیں وہ بھی اپنے آپ کو بہت بڑے دانشور اور لیڈر سمجھتے ہیں۔ ہر وقت مشورے، تبصرے اور اعتراضات کے انبار اپنی جیبوں میں لئے پھرتے ہیں۔ سارے امام ہیں مقتدی کوئی نہیں، کوئی انصاف کو قائم کرنے والے گروپ کو اختیار کرنے اس لئے تیار نہیں کہ ہر گروپ اس  شخص کے مسلک، عقیدے،سوچ اور مشوروں کے سامنے اُس سے بہت چھوٹا ہے۔ پاؤر ہر شخص کی خواہش ہے لیکن اس کے لئے وقت لگانا، جہاد و قتال کے لئے تیار ہونا، جیب سے مال نکالنا اس کے لئے ناممکن ہے۔ شادی بیاہ پر تو لاکھوں خرچ کرے گا، اس کے لئے گھر بھی بیچے گا، بھیک بھی مانگے گا، لیکن انصاف کو قائم کرنے والیل کسی گروپ میں شامل ہوکر اپنے جان و مال کا نذرانہ دینے تیار نہیں ہوگا۔ایسی قوم کے لئے دوسرا حل یہ ہے کہ قانون نے ووٹ کا جو انتہائی طاقتور ہتیار دیا ہے کم سے کم وہ تو استعمال کرے۔ یہاں بھی مسئلہ یہی ہے کہ مسلمان ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلتے ہی نہیں۔ اگرچہ یہ کہ مسئلہ دوسروں کے ساتھ بھی ہے۔ SC جیتنے والا ہو تو BC  یا ST ووٹ ڈالنے نہیں آتا، مالا کھڑا ہو تو مادیگا یا ویلما اس کو ووٹ ڈالنے نہیں آئے گا۔ برہمن کو ووٹ ڈالنے تو ہر نچلی ذات آئیگی لیکن کسی نچلی ذات کو ووٹ ڈالنے برہمنوں کی اکثریت نہیں آئے گی۔ لیکن پھر بھی اُن کی اوسط ووٹنگ 50 to 60% ہوہی جاتی ہے، لیکن مسلمان مشکل سے بیس تیس فیصد گھروں سے نکلتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی علاقے سے مسلمان کا جیتنا یقینی ہو تو وہاں کئی کئی بے ضمیر، بے حِس، اور لالچی مسلمان ووٹ کاٹنے دوسری پارٹیوں سے پیسہ لے کر یا اپنی لیڈری چمکانے کی حِرص میں کھڑے ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کوئی بھی سو دو کروڑ خرچ کرنے والا جیت جاتا ہے۔

 

اگر سو فیصد مرد اور عورتیں یہ فیصلہ کرلیں کہ انہیں ہر قیمت ووٹ ڈالنا ہے تو ملک میں پاؤر کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ موجودہ جمہوریت بھی ایک ناکام طرزِ حکومت ہے، اس سے کوئی انصاف قائم ہونے والا نہیں ہے۔ اسی کے ذریعے جتنے لوگ پاؤر میں آتے ہیں، ان میں آدھے سے زیادہ لوگ کرائمس اور مقدمات میں ملوّث ہوتے ہیں، لیکن ان کو ہٹانے کے لئے بھی تو وہی کورس کرنا پڑے گا، یعنی سڑکوں پر آنا، ایک جماعت بننا اور ووٹ کا بھرپور استعمال کرنا۔ یہی تو اس جمہوریت اور سیکولرزم کو بچانے کا آخری راستہ ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوریت حرام، ووٹ حرام صرف خلافت جائز وغیرہ وغیرہ۔لیکن سالہاسال سے یہ فکری نادانی ہورہی ہے خلافت کے لئے بھی  Mass strength  چاہئے،وہ کہاں سے آئے گی؟ اس لئے جو ذریعہ یعنی ووٹ موجود ہے، اس سیڑھی کا استعمال کرکے تو پہلے اپنی شناخت، اپنی حالت اور تھوڑا بہت پاؤر چاہے خیرات میں ملے اُسے حاصل تو کیجئے ورنہ اِس وقت تو نہ کوئی نیشنل پارٹی آپ سے بات کرنا چاہتی ہے نہ آپ کو مائناریٹی سیل سے آگے بڑھا کر نیشنل لیڈر بنانے تیار ہے۔ کیا آپ اُس وقت کا انتظار کرنا چاہتے ہیں جب آپ سے ووٹ ڈالنے کا بھی حق چھین لیا جائیگا؟

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721

 

متعلقہ خبریں

Back to top button