زیادہ سوچنا ذہنی تناؤ اور اضطراب کی بنیادی وجہ ہے
از قلم : حافظ محمد چاند پاشاہ
لیکچرر معاشیات ، گورنمنٹ جونیر کالج نارائن پیٹ
اللہ رب العزت نے انسان کے جسم میں دو عظیم نعمتیں دی ہیں ایک دل دوسرا دماغ، دل انسان کے جذبات کا اور دماغ انسان کے خیالات کا مقام رکھتا ہے۔ جو خیال انسان کے ذہن میں ہوتا ہے یہ اس کی عقل کا کام ہے کہ اس پر تانا بانا شروع کر دے گا۔ چنانچہ اس عقل کی وجہ سے انسان اچھے اور برے کے درمیان فرق کر سکتا ہے۔ تاہم سوچ کے دواند ز ہوتے ہیں، ایک مثبت اور دوسرا منفی۔ مثبت سوچ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ امید کی کرن نظر آتی ہے اور یہ کامیابی کا ذریعہ بنتی ہے۔ جبکہ منفی سوچ جلد ہی انسان کے ذہنی سکون اور صحت کو متاثر کرنا شروع کر دیتی ہے۔
زیادہ سوچنا مسائل سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ عام طور پر زیادہ سوچنا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہو پاتے بلکہ ڈپریشن اور بے چینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر چار میں سے ایک شخص کو زیادہ سوچنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ عادت نہ صرف ذہنی مسرت کو ختم کرنے کا باعث بنتی ہے بلکہ نئے مسائل کو بھی جنم دیتی ہے۔ بہت سے لوگوں میں تناؤ اور اضطراب کی بنیادی وجہ زیادہ سوچنا ہے۔ ماہرین اس کو کم کرنے کے لیے کچھ عادتیں اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جو یہ ہیں۔
* کاغذ پر وہ چیزیں لکھیں جو آپ کو سب سے زیادہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ آپ کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کے ممکنہ حل کیا ہیں؟ مسئلہ آپ کے جذبات کو کیسے بدلتا ہے؟ ان تینوں چیزوں کو ہر بار کاغذ پر لکھنے سے خیالات آہستہ آہستہ کم ہوتے جائیں گے۔ ڈپریشن اور بے چینی ختم ہوگی۔
* آپ کو ان حالات اور اوقات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے جب آپ زیادہ سوچتے ہیں۔ کن دنوں کے خیالات آپ کو پریشان کر رہے ہیں؟ ایسا کب ہوتا ہے اس کو پہچاننے سے آپ کو دوسرے عوامل سے آگاہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو زیادہ سوچ کو متحرک کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کو ایسے خیالات آتے ہیں جب آپ گھر میں فارغ ہوتے ہیں یا آرام کرتے ہیں، تو آپ اس وقت کو دوسرے کاموں میں گزار سکتے ہیں۔ اگر یہ اس وقت آتا ہے جب آپ دوستوں کے ساتھ یا دفتر میں ہوتے ہیں، تو آپ صورتحال کو بدلنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
جان لو کہ اپنے خیالات کی وجہ آپ خود ہیں۔ جب تک آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے مسائل کی وجہ دوسرے ہیں، غصہ اور پریشانی بڑھے گی لیکن کم نہیں ہوگی۔ تو جان لیں کہ اپنے خیالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ ترجیح دینا شروع کریں۔
* جن لوگوں کو ضرورت سے زیادہ سوچنے کی عادت ہو چکی ہے اگر وہ اس کے لیے کچھ وقت نکالیں تو حد سے زیادہ سوچنے کی عادت آہستہ آہستہ کم ہو جائے گی۔ ہر روز ایک چوتھائی گھنٹہ مراقبہ کے لیے مختص کرنا چاہیے۔ اس وقت آپ کو اپنے خوف اور شبہات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ جب وقت ختم ہو جائے تو دوسرے کام میں مشغول ہو جائیں۔ ماہرین کا یہ مشورہ جتنا مضحکہ خیز لگتا ہے اتنی ہی یہ تکنیک اچھی طرح کام کرتی ہے۔
* ان کے علاوہ روزانہ ورزش کرنے، کبھی کبھار سفر کرنے اور گیمز کھیلنے سے دماغ متحرک ہوتا ہے۔ منفی خیالات کم ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو زیادہ سوچنے کی وجہ سے ڈپریشن میں چلے گئے ہیں اور اپنے خیالات پر قابو نہیں پا سکتے اگر وہ ماہر نفسیات سے ملیں تو کچھ مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔