کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں _ بھارت میں آبادی کے بڑھنے اور گھٹنے پر کش مکش کیوں؟
تحریر:سید سرفراز احمد،بھینسہ تلنگانہ
دنیا کا نظام چلانے والی ذات اللہ کی ہے جس نے زمین و آسمانوں کی تخلیق کی ہے بلکہ اس زمین پر موجود ہر جاندار و بے جان کو بہترین سانچے میں بھی ڈھالا ہے جس نےسب سے بہترین تخلیق انسان کی ہے جس کو فطرت نے عقل شعور سوچنے والا دل عطا کیا ہے تاکہ وہ اس حقیقی تخلیق کار کو پہچان سکے جو دونوں جہاں کا مالک ہے لیکن انسانوں کا اپنا بنایا ہوا کلچر جو خود ایک ناقص موقوف رکھتا ہے اس نے فطرت میں ہی نقائص ٹٹولنا شروع کیا جدید ٹکنالوجی کے نام پر قدرت کی کاریگری پر قدغن لگانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹا گیا بلکہ قدرت کی تخلیقات سے مقابلہ کرنے کی ہمہ تن کوشش کرتا ہے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان نہ تو اس کی بنائی ہوئی زمین کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے نہ آسمان کی بلندیوں کو ناپ سکتا ہے پھر بھی للکارنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے لیکن یہ بات طئے شدہ ہے کہ انسان جب کبھی بھی قدرت سے پنگا لینے کی کوشش کرتا ہے تو منہ کی ہی کھانی پڑتی ہے۔
ہمارے ملک میں کبھی بڑھتی آبادی پر ہنگامہ ہوتا ہے تو کبھی گھٹتی آبادی پر آخر یہ شور و غل کیوں ہوتا ہے؟اس کی کیا وجوہات ہیں؟حد تو یہ بھی ہوجاتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی پر منفی پروپیگنڈے چلاۓ جاتے ہیں جو محض ایک سیاسی بھوک کے مترادف ہے لیکن ملک کی اکثریت اس سچ کو جانے بناء اس منفی پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتی ہے کسی بھی ملک کے لیئے بڑھتی آبادی نہ کبھی مسلئہ بنا ہے نہ کبھی مستقبل میں بن سکتا ہے ہاں گھٹتی آبادی ضرور تشویش کا باعث بن سکتی ہے اب یہ سوال سامنے آۓ گا کہ بڑھتی آبادی سے ملک کو مختلیف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا سچ یہ ہے کہ یہ صرف ایک وہمی بیماری ہی ہوسکتی ہے چونکہ مسائل بڑھتی آبادی سے نہیں بلکہ گھٹتے وسائل سے پیدا ہوتے ہیں۔
فطرت نے اس دنیا میں وسائل کی کمی نہیں رکھی ہے اگر چہ کہ انسان ان تک پہنچ سکے چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی آبادی چند سال پہلے تک دنیا کی سب سے بڑی آبادی تھی لیکن اب بھارت نے سبقت حاصل کرتے ہوئے اول مقام حاصل کرلیا سروے کے مطابق آج بھارت کی کل آبادی 1.45بلین ہے وہیں چین کی آبادی 1.42 بلین ہے آبادی کے بڑھنے سے جو مسائل پیش آتے ہیں اس کا اصل نکتہ وسائل کی کمی ہے لیکن چین میں وسائل کی کمی نہیں ہے آج بھی چین طاقتور ترین ممالک میں سرفہرست ہے دنیا کے سب سے مصروف ترین لوگ چین کے ہیں جو کم وقت میں ذیادہ کام پر توجہ دیتے ہیں روزگار کی کوئی کمی نہیں ہے چین کے لوگ غیر ممالک جاکر روزگار نہیں کرتے وجہ یہی ہے کہ ان کے یہاں آبادی کے ساتھ ساتھ وسائل کو پیدا کیا گیا لیکن ہمارے ملک میں وسائل کے اضافے پر توجہ دینے کے بجاۓ بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے منصوبے بناۓ جاتے ہیں یعنی اس چیز کو مرض ایک ہےاور دوا دوسری کے مترادف کہا جاسکتا ہے جو ایک ترقی یافتہ ملک کی نشانی ہرگز نہیں ہوسکتی۔
چند روز قبل آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو نے ریاست میں گھٹتی آبادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوۓ دو سے زائد بچوں کی تولید کا مشورہ دیا مزید کہا کہ دو سے زائد بچے پیدا کرنے والوں کو حکومتی اسکیمات اور بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا ٹھیک اس کے ایک روز بعد ٹاملناڈو کے وزیر اعلی اسٹالن نے ایک اجتماعی شادی کی تقریب میں شرکت کرتے ہوۓ نوبیاہتا جوڑوں کو سولہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا ان کے ذریعہ ریاست کی عوم کو بھی یہی پیغام دیا سوال یہ ہے کہ جس ملک میں آبادی کے بڑھنے کا خدشہ لگا ہوا ہے آج اس ملک کے جنوبی ہند کی ریاستی حکومتیں زائد بچے پیدا کرنے کی ترغیب کیوں دے رہے ہیں؟بتایا گیا کہ جنوبی ہند کی ان ریاستوں میں معمرین افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور بچوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ تشویش کا باعث بناہوا ہے۔
یہ قدرت کے کارخانے میں انسانوں کی دخل اندازی کا نتیجہ ہے شمالی ہند کی ریاستوں میں آبادی بڑھ رہی ہے اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں آبادی گھٹ رہی ہے یہ مسلئہ صرف آندھرا اور ٹاملناڈو کو ہی نہیں ہے بلکہ جنوبی ہند کی دیگر تین ریاستیں تلنگانہ،کیرالا،کرناٹک میں بھی پیدا ہوا ہے توقع ہے کہ آئندہ دنوں میں ان ریاستوں سے بھی اعلان ہوگا کہ دو سے زائد بچے پیدا کیئے جائیں ایک وقت میں ہم دو ہمارے دو کا نعرہ دیا گیا تھا مسلمانوں کو حال ہی میں زائد بچے پیدا کرنے والے کا لقب دیا گیا تھا پھر آئندہ دس سالوں میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زائد ہوجانے کے منفی پروپیگنڈے چلاۓ گئے جو ابھی بھی چلاۓ جاتے ہیں ہم نے کچھ ماہ قبل ہی اے بی پی کے ایک پرانے سروے کا حوالہ دیا تھا کہ آئندہ سو سالوں میں بھی مسلمانوں کی آبادی اس ملک میں ہندوؤں پر سبقت نہیں لے جاسکتی۔
رپورٹ کے مطابق آندھرا پردیش میں اس وقت جملہ آبادی کا 11 فیصد تناسب معمرین کا ہے جو 2047 میں بڑھ کر 19 فیصد تک جاسکتا ہے یہ بھی بتایا گیا کہ مردوں میں اس وقت تولیدی عمر عمر 32سے 33 سال ہے جبکہ خواتین میں 29 سال ہے جو بڑھ کر 2047 میں مردوں میں 40 اور خواتین میں 38 سال تک جانے کا قیاس لگایا گیاٹوٹل فرٹیلیٹی ریٹ (TFR)میں جنوبی ہند کی پانچ ریاستوں کا اوسط قومی تناسب 2.1 کے مقابلے 1.73ہے جب کہ شمالی ہند کی ہارٹ لینڈ ریاستوں اترپردیش،مدھیہ پردیش،جارکھنڈ،راجستھان اور بہار کا اوسط (TFR) ٹوٹل فرٹیلیٹی ریٹ 2.4 ہے جنوبی ہند میں گھٹتی آبادی پر سب سے ذیادہ تشویش سیاسی پارٹیوں کو نظر آرہی ہے اس کی خاص وجہ ایک تو ووٹ بینک اور دوسرا 2026 میں لوک سبھا نشستوں میں اضافہ ہونے اور ان کو ترتیب دینےکے امکانات ہیں یعنی لوک سبھا کی موجودہ تعداد سے 543 سے بڑھاکر 753 تک کیا جاسکتا ہے جو آبادی کی مناسبت سے ہی بڑھاۓ جاسکتے ہیں شائد اسی لیئے اس پر تشویش جتائی جارہی ہے جب کہ بڑھتی آبادی کو روکنا ہی خود ایک سنگین مسلئہ ہے۔
جن غلطیوں کو ماضی میں دہرایا گیا آج یہ اس کا خمیازہ ہے نائیڈو نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ایک وقت میں ہم نے خود کہا تھا کہ آبادی پر کنٹرول کریں لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ آبادی ہی ہمارا اہم اثاثہ ہے یقیناً آبادی ہر ملک کا قومی اثاثہ ہوتا ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں بہتر ہی ثابت ہوسکتا ہےاب آتے ہیں ہم ان اہم سوالات کی طرف کہ اگر نسلیں اسی رفتار سے دنیا میں آنکھیں کھولیں گی تو ملک کے مفاد میں کیا کیا نقصانات پیش آئیں گے؟اول تو سب سے بڑا نقصان ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگی کیونکہ کسی بھی ملک کا سرمایہ معمرین نہیں نوجوان ہوتے ہیں اگر نسلیں نہیں آئیں گی تو ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگی دوسرامعمرین میں اضافہ ہوگا جن کی دیکھ بھال اور خدمت کے لیئے افراد دستیاب نہیں ہونگے بلکہ جو چیز طئے شدہ ہے کہ دنیا سے جانے والے جاتے رہیں گے تو آنے والوں کو کیوں روکا جاۓ؟
تیسرا اگر اس فطرتی نظام کو انسان روکنے کی کوشش کرے گا تو جنسی طور پر عدم توازن کی کیفیت کا بھی مسلئہ پیدا ہوگا یعنی اگر لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کی تولید میں اضافہ ہوگا تو اس سے سماجی مسائل پیدا ہونگے آج بھی دنیا کے کئی ممالک آبادی کو بڑھانے کے لیئے حکومتی اعلانات کررہے ہیں غیر ممالک سے آنے والوں کو فوری طور پر شہریت دی جاتی ہے کیونکہ انھیں اس چیز کی قدر ہے جن کے یہاں موجود نہیں ہے اور ایک ہمارا ملک آبادی کو لے کر کبھی بھی ایک موقف پر اٹل نہیں رہا بلکہ کش مکش اور الجھن کا شکار ہوتا رہا آبادی کو روکنا خود ہماری ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مترادف ہے غور طلب بات یہ کہ ہمارے ملک نے آبادی پر قابو کا نعرہ کا لگاکر کتنی ایسی زہین نسلوں کو اس دنیا میں قدم رکھنے سے روکا ہوگا جو شائد اس ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کرنے والے تھے۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہونی چاہیئے کہ اس ملک کے مسلمانوں کی اکثریت کو بڑھتی آبادی پر کبھی تشویش نہیں ہوئی حالانکہ مسلمان اس ملک کا صرف 20 فیصد حصہ ہے لیکن مسلمانوں نے کبھی اپنے ہم وطنوں کی اکثریت پر سوال کھڑا نہیں کیا وہ اسی لیئے کہ مسلمان آبادی کو اس زمین پر بوجھ نہیں سمجھتا بلکہ اس کا اس بات پر یقین ہے کہ پیدا کرنے والا اس کا رزق اور اس کی تقدیر لکھ کر پیدا کرتا ہے نہ وہ اپنی تقدیر کا کچھ حصہ کم حاصل کرسکتا ہے نہ ذیادہ جب کہ سیاسی شعبدہ گر اسی بیس فیصد مسلمانوں اور ان کی بڑھتی آبادی کا خوف دلاکراکثریتی طبقے کی زہن سازی کرتے ہیں اس سے تو خود ملک کے مفاد کا نقصان ہوتا ہے بہر حال ہمارے ملک کو اس بڑھتی آبادی کے خوف نے ترقی کی متضاد سمت زوال کی طرف ڈھکیل رہی ہے اور ہم اسی کش مکش میں مبتلاء ہیں آج جنوبی ہند میں گھٹتی آبادی کا بحران پیدا ہوا ہے شائد آنے والے کل میں یہی بحران شمالی ہند میں بھی پیدا ہوسکتا ہے پھر شائد ملک بھر میں بھی ہوسکتا ہے اس چنگل سے نکلنے کی سخت ضرورت ہے چونکہ حال کی غلطی مستقبل کو بگاڑ سکتی ہے لہذا بڑھتی آبادی کا بہترین متبادل اور وسائل کو تلاش کرنا وقت کے حکمرانوں کی اہم زمہ داری ہے۔بقول علامہ اقبال
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں