مضامین

پردھان کی تقریر۔تلنگانہ کے عوام کی ذہانت کی توہین !

از : میر فاروق علی

تین اکتوبر یعنی پیر کے دن تلنگانہ میں سیاست گرماگئی جہاں ایک طرف الیکشن کمیشن کی ٹیم ریاست کے دورے پر پہونچی تو دوسری طرف کچھ سیاسی الزامات اور جوابی الزامات اور الفاظ کی جنگ دیکھی گئی ۔پردھان منتری نریندرمودی نے بھی تلنگانہ کے نظام اباد میں چند باتیں کہیں جو اس طرح ہیں :

پہلی بات یہ کہی کہ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راو این ڈی اے میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن خود وزیراعظم نے ایسا ہونے نہیں دیا اور منع کردیا ۔ اس طرح انہوں نے ایک سیاسی بم گرایا ۔دوسری بات انہوں نے جو کہی وہ یہ تھی کہ ’’ کرناٹک میں بی ار ایس نے کانگریس کی جیت میں مدد کی اب یہاں کانگریس بھارتیہ راشٹرا سمیتی کا قرض اتارنے کےلئے اس سے درپردہ مفاہمت کرچکی ہے اور وہ اب بی ار ایس کو تلنگانہ میں جتانا چاہتی ہے ۔ ‘‘

 

تیسری بات : انہوں نے اپنے سگنیچر اسٹائل میں کہا ’’ گجرات کے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے تلنگانہ کو نظام دور حکومت سے ازاد کرایا تھا اب اج ایک دوسرا بھائی تلنگانہ کی ترقی اور بھلائی کے لئے ایا ہے ۔ ‘‘اوپر بیان کی گئی ان تین باتوں کا جہاں تک تعلق ہے یہ کوئی سمجھدار اور ذہین سیاستداں کی تقریر نظر نہیں آئی ۔ انہوں نے ایک طرف جہاں کے سی ار کے این ڈی اے میں شامل ہونے کی بات کرکے کانگریس کے بی جے پی کی ’’ بی ٹیم ‘‘ کے خیال کو تقویت دی اور اسے ایک ہتھیار تھمادیا وہیں دوسری بات میں انہوں نے کرناٹک میں کانگریس کی جیت میں کے سی آر کی مدد کا حوالہ دیتے ہوئے اسے اُلٹ دیا ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کے سی ار کانگریس کو کرناٹک میں جتانے میں مدد کرسکتے ہیں تو وہ خود یہاں ان کی اپنی ریاست میں کامیابی کیوں حاصل نہیں کرسکتے  بہ الفاظ دیگر مودی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ یہاں کے سی آر کو ہرایا نہیں جاسکتا ۔

 

تیسری بات میں جس طرح وزیراعظم نے کہا کہ گجرات کا بھائی تلنگانہ کی ترقی اور بہبود کیلئے ایا ہے ‘یہ تلنگانہ کے عوام کی ذہانت کی توہین ہے ۔تلنگانہ بننے کے بعد مختصر عرصہ میں اس کی ترقی عیاں اور نمایاں ہے ۔ ساری دنیا تلنگانہ کی ترقی دیکھ کر حیران اور ششدر ہے ۔ یہاں ایک قابل لیڈرشپ اور دوراندیش قیادت موجود ہے ۔ پچھلے پانچ سالوں میں تلنگانہ کے فنڈس روکے گئے ۔ ریاست کو کمزور اور مقروض کرنے کی کوشش کی گئی ۔ عوام کو یہ پیغام پہونچانے کی کوشش کی گئی کہ تلنگانہ لٹی پٹی اور خزانہ سے خالی ریاست ہوگئی ہے ۔ وعدے پورے نہیں کئے گئے ۔ تلنگانہ کے عوام اور جذبات کو بار بار ٹھیس پہونچایا گیا ۔ غلط بیانی کی گئی ۔

 

اب جبکہ پرفارمینس کی بنیاد پر بی ار ایس الیکشن لڑنے جارہی ہے اور اگلے پانچ سال کا روڈ میاپ تلنگانہ کے عوام کے سامنے موجود ہے ‘ بی جے پی کے پردھان کی باتیں انتخابی جملے بازی اور زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

ایک اور بات :

وزیر ائی ٹی تلنگانہ کے ٹی ار نے اج ایک اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پردیش کانگریس کے صدر ریونت ریڈی ار ایس ایس شاکھا پرمکھ تھے ۔ انہوں نے سونیا گاندھی سے سوال کیا ہے کہ وہ کس طرح ایسے شخص کو صدر کانگریس کے عہدہ پر فائز کرسکتی ہیں جو ار ایس ایس سے تعلق رکھتا ہو ۔ اور ساتھ ہی کے ٹی ار نے چیالنج کیا کہ ریونت ریڈی بتائیں اگر یہ بات سچ نہیں ہے ۔

 

وزیراعظم کے ٹی ار ایس کے این ڈی اے میں شمولیت کے الزام کو جہاں وزیر کے تارک راما راو نے رد کردیا ۔ وہیں ریونت ریڈی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ شروع سے ہی کہتے ارہے ہیں کہ بی ار ایس اور بی جے پی میں خفیہ مفاہمت ہوچکی ہے اور یہ دونوں ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ۔ اس طرح اب کانگریس اپنی مہم میں اسی narrativeکو بھنانے کی کوشش کرے گی اور مسلمانوں کی سپورٹ حاصل کرنے کیلئے اے آئی ایم آئی ایم کی ریاستی حکومت کو تائید پر سوال کھڑے گی ۔

 

انتخابی میدان سج گیا ہے  اب جیسے جیسے وقت گذرتا جائے گا یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ تلنگانہ کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا آنے والے دن بڑے دلچسپ اور ایک سخت انتخابی جنگ کا اشارہ کررہے ہیں ۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button