مضامین

آوارجہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

محترم جناب محمد شکیل خان اپنے اصلی نام سے کم اور قلمی نام شکیل سہسرامی کے نام سے زیادہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں، 5/ جولائی ۶1966ء؁ کو ہیڈ مولوی عبد الوحید خان غازی شمسی مرحوم اور پاکباز صالحہ خاتون کے گھر سہسرام میں اپنی آنکھیں کھولنے والے شکیل سہسرامی ان دنوں رحمن مسجد کے پاس سمن پورہ، راجہ بازار، پٹنہ میں مقیم ہیں، گو اصلی پتہ مولوی عبد الوحید منزل، کرن سرائے، سہسرام آج بھی ہے۔ ان کے ایک بھائی مختار احمد خان شگفتہ سہسرامی سے جو خوش گلو شاعر ہیں میری ملاقات برسوں پرانی ہے، البتہ پہلی ملاقات جامعہ ایوبیہ چک نصیر، ضلع ویشالی کے سنگ بنیاد کے موقع سے ہوئی تھی، جہاں ہم دونوں الحاج محمد سلیم رضوی مرحوم مالک ڈیزی ہوٹل دریاپور، سبزی باغ، پٹنہ کی دعوت پر جمع ہوئے تھے۔

”آوارجہ“ شکیل سہسرامی کی دوسو سے زائد غزلوں کا مجموعہ ہے، اوربقول ان کے یہ پختہ شاعر کی نا پختہ شاعری ہے، انہیں احساس ہے کہ

یہ اور بات کہ اس میں ہیں خامیاں کافی مگر خوشی ہے کہ سارا کلام اپنا ہے

آپ اس اعتراف کو ان کی تواضع اور انکساری پربھی محمول کر سکتے ہیں، البتہ ان کے اس بیان میں حقیقت ہے کہ انہوں نے ابتداء سے تا حال اپنے بالیدہ ذوق کے ساتھ مسلسل فنی ریاضت اور عصری تناظر میں مسائل ِحیات و کائنات پر اپنی بساط بھر غور و فکر کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ آوارجہ اسی غور و فکرکا نتیجہ ہے۔آوارجہ کی غزلوں میں سادگی ہے، تنوع ہے اور فطری طرز تکلم کو برتا گیا ہے، مجموعہ میں تشکیلیات اور ساختیات کے قبیل کے الفاظ بھی نہیں ہیں، شاعر نے سامنے سے چیزوں کو اٹھا کر قاری کے سامنے رکھ دیا ہے اور اس فطری طرز تکلم میں رفعت تخیل اور فکری ندرت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کا ایک فائیدہ یہ ضرور ہوا کہ ان پر مشکل پسندی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی شاعری”از دل خیزد، بر دل ریزد“ کی مصداق بنے، شکیل سہسرامی نے اپنی غزلوں میں جن چیزوں کو برتا ہے، ان کو ”کلمات خویش“ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ اقتباس پڑھئیے:”میں نے واضح شعور کے ساتھ روش عام سے ذرا ہٹ کر سہی، مگر ٹھکرائے ہوئے لفظوں کو دانستہ طور پر گلے لگایا ہے، مجھے یقین ہے کہ میری غزلوں میں سادگی و سلاست، تکلمی زبان، مقامی رنگ و آہنگ، جدید عصری الفاظ کا استعمال، احساسات کو مشاہدات کی سطح پر لا دینے کا انداز، کلام مشاہیر سے بہ طرز خاص غذا یافتگی کا عنصر، دعاء و تلمیح، رعایت لفظی، مناسبات تجنیس، تضاد و تکرار،ا مثال و محاورات۔ کچھ خاص لفظی حوالے اور تجربے سے عکس تضادات، عصری ایجادات کی لفظیات، بعض مصرعوں میں مقولے کی کیفیت، تراکیب کا حسن، طنز کا تیکھا پن، سیاقت عددو سیاقت تخلص، قوافی کا خاص انتخاب اور اصطلاحات و ہندی الفاظ کا استعمال، یقینا اہل ذوق کے لیے حظ و نشاط اور مسرت و بصیرت کے اسباب مہیا کر سکے۔“

اقتباس ذرا طویل ہو گیا، لیکن مجموعہ کی خصوصیات کو سمجھنے کے لیے اسے گوارہ کر لیجیے، البتہ ان تمام کو جوڑ کر اس طرح مت دیکھئے گا کہ یہ محض شاعرکی خوش فہمیوں کا صدقہ نظر آئے اور آپ ان کے درمیان تضادات تلاش کرنے لگیں، اگر آپ نے ایسا کیا تو یہ شاعر پر زیادتی ہو گی، کیوں کہ یہ تفصیلات کسی ایک غزل میں نہیں سما گئی ہیں، بلکہ الگ الگ غزلوں میں ان چیزوں کا استعمال ہوا ہے اور تناقض کے لیے زمان و مکان کی وحدت ضروری ہوا کرتی ہے۔

آوارجہ کا انتساب”تمام متشاعروں کے نام“ ہے، کچھ سمجھا آپ نے؟متشاعر کہتے ہیں بتکلف شاعر بننے کو، یہ تکلف سرقہ اور اساتذہ کے اشعار کو اپنے نام سے پیش کرنے کے سلیقہ سے بھی سامنے آتا ہے، کبھی کبھی تو توارد کا سہارا لے کر پوری پوری غزل متشاعر ہضم کر جاتا ہے، آج بہت سارے شاعر ہمارے درمیان حقیقتاً متشاعر ہیں۔ ٹھیٹ زبان میں کہیں تو وہ شاعر کم، گویّا زیادہ ہیں، ایسی تان سے پڑھتے ہیں کہ ”تان سین“ فیل ہو جائے، ایسے میں قافیہ وردیف کے تار سیمیں پر بل پڑ جاتا ہے۔

شکیل سہسرامی متشاعر نہیں،شاعر ہیں، ان کی غزلوں میں آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں ہے، مضامین کے اعتبار سے ان کی بعض غزلیں کلاسیکی انداز کی ہیں، جن کے اشعار میں محبت و عشق کی کیفیات، جذبات و احساسات کی بھر پور عکاسی ملتی ہے، بعض غزلیں غم روزگار اور عصری مسائل و مشکلات پر مرکوز ہیں، ان کے تجزیہ سے ترقی پسندی کی بو آتی ہے۔ آج کے دور میں ایسی شاعری کو عصری حساسیت پر مبنی قرار دے کر یہ کہا جا تا ہے کہ شاعر اپنے گرد وپیش کے حالات سے با خبر ہے اور وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنی یہ باخبری قاری تک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ شکیل سہسرامی غم یار کی بات کرتے ہوں یا غم روزگار کی، قاری کو اپنی گرفت سے باہر نہیں نکلنے دیتے، سادے اور صاف اسلوب میں وہ قاری کے ذہن و دماغ پر حملہ آور ہو تے ہیں اور اس حملے کے نتیجے میں قاری کے ذہن و دماغ کے سارے دروازے وا ہو جاتے ہیں۔ شکیل سہسرامی نے اپنی شاعری میں جن لفظیات کو استعمال کیا ہے، ان میں تعقید لفظی و معنوی، تنافر حروف اور غرابت لفظی کا کہیں گزر نہیں ہے۔سوائے اس مجموعہ کے نام ”آوارجہ“ کے جس کے معنی تک پہونچنے کے لیے قاری کو ذہنی جمناسٹک بھی کرنی پڑے گی، اور لغت کے اوراق بھی پلٹنے پڑیں گے۔آوارجہ کی متنی خواندگی لغت میں ”آوَارِجَہ“ کے اعراب کے ساتھ درج ہے، یہ فارسی الاصل ہے، مذکر لفظ ہے اور اس کے معنی آمد و خرچ کے حساب کی کتاب ”بہی کھاتہ“، ”روکڑ بہی“ کے آتے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں اس کے معنی ابتری، پریشانی، سراسیمگی، بے سر و سامانی، بیہودگی، خرابی، ویرانی، لُچپن، بد معاشی اور بد چلنی کے درج ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ شاعر نے اس مجموعہ کا نام آوارجہ کس معنی میں رکھا ہے، آج کل لوگ ساختیات اور تشکیلیات کے حوالہ سے ایسا نام رکھتے ہیں۔ لیکن یہ تو تشکیلیات کے قبیل کا لفظ نہیں ہے، سر ورق پر جو تصویر دی گئی ہے، اس میں کتاب کے اوپر دو دل کی بھی تصویر مرصع ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ احوال دل کا بہی کھاتہ ہے۔قاری شکیل سہسرامی کے کسی شعر میں تو نہیں اٹکے گا، کیوں کہ وہ صاف اور سادہ ہیں، لیکن نام میں اٹک کر رہ جائے گا، اور اٹکنے کے بعد وہ شکیل سہسرامی کی یہ عبارت پڑھے گا تو اسے محسوس ہو گا کہ یہ محض لفاظی ہے۔”دو از کار علامات و استعارات، خود رو پودوں کی مانند یوں قدم قدم پر پھیلا دیے جائیں کہ ترسیل و ابلاغ نہیں؛ بلکہ صرف اس کے المیے ہی المیے رہ جائیں اور کوئی’کلمہ تعوذ‘ قاری کو اس عفریت کے شکنجے سے پناہ نہ دے سکے۔“

ارم پبلشنگ ہاؤس دریا پور کے مطبع ارم پرنٹرس کے مطبع میں محکمہئ سکریٹریٹ اردو ڈائرکٹوریٹ کے تعاون سے چھپی اس دو سو چونسٹھ صفحے کی کتاب کی قیمت دوسو پچاس روپئے ہے، بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ سے قیمتاً اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button