
مضمون نگار : ڈاکٹر ابو شجاع محمد قطب الدین (ماہر نفسیات شکاگو امریکہ)
عید الاضحیٰ کے موقع پر ہم سب ایک عظیم سنت کی پیروی کرتے ہوئے قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ جانور ذبح کرتے وقت ہم جو دعا پڑھتے ہیں، "بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو ربّ العالمین ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمین میں سے ہوں،” یہ محض ایک دعا نہیں بلکہ ایک عہد ہے، ایک زندگی بھر کی کمٹمنٹ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر ہم اس پیغام کو عید کے دنوں تک محدود کر دیتے ہیں اور پھر سال بھر اس کی اصل روح کو بھلا دیتے ہیں۔ یہ دعا قرآن کریم کے سورۃ الانعام کی آیت 162-163 کا حصہ ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہماری ہر چیز، ہماری نماز، ہماری قربانی، ہماری زندگی اور ہماری موت، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے وقف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر لمحہ اور ہر شعبہ زندگی میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھنا ہے۔
قربانی کا مفہوم صرف جانور ذبح کرنے تک محدود نہیں۔ یہ ایک وسیع تر تصور ہے جو ہماری پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:”اللہ کو ہرگز ان کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ان کا خون، بلکہ اسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔” (الحج: 37)یہ آیت واضح کرتی ہے کہ قربانی کا اصل مقصد جانور کا خون بہانا نہیں، بلکہ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف اور اس کی رضا کا حصول ہے۔ یہی وہ روح ہے جو ہمیں ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہنے کا درس دیتی ہے۔
*اللہ کے دین کے لیے قربانی:* قرآنی ہدایات اور سیرتِ نبوی سے رہنمائی
مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ہمیشہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے قربانی دینے کو تیار رہنا چاہیے۔ یہ قربانی کئی شکلیں اختیار کر سکتی ہے، جس کی تائید قرآن و حدیث دونوں سے ملتی ہے:
* *وقت کی قربانی:* اللہ کے دین کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے اپنا قیمتی وقت صرف کرنا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی دین کی اشاعت اور اس کی تفہیم کے لیے وقف تھی۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی ترغیب دی۔ قرآن میں بھی فرمایا گیا ہے:
"اے ایمان والو! صبر کرو اور صبر میں ثابت قدم رہو اور (اللہ کی راہ میں) چوکس رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔” (آل عمران: 200) یہ آیت ہمیں دین کے لیے وقت اور محنت صرف کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ * *مال کی قربانی:* اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا، چاہے وہ زکوٰۃ کی صورت میں ہو، صدقہ و خیرات کی صورت میں ہو یا دین کے فروغ کے لیے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔” (صحیح مسلم) قرآن کریم میں بارہا مال خرچ کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے:
"جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس نے سات بالیں اگائیں، ہر بال میں سو دانے ہوں، اور اللہ جسے چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔” (البقرہ: 261) * *خواہشات کی قربانی:* اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ کے احکامات کے تابع کرنا، حلال و حرام کی تمیز کرنا اور برائیوں سے پرہیز کرنا۔ یہ نفس کی سب سے بڑی قربانی ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"جس نے مجھ سے عداوت رکھی اس نے میرے لیے جنگ کا اعلان کیا، اور میرا بندہ کسی ایسی چیز سے مجھ سے قریب نہیں ہوتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں، اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں۔” (صحیح بخاری)
یہ حدیث نفس کی قربانی اور اللہ کے قرب کا حسین نقشہ پیش کرتی ہے۔
* *آرام و سکون کی قربانی:* دین کی خاطر جدوجہد کرنا، مشکلات کا سامنا کرنا اور اپنے آرام کو ترک کرنا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس کی بہترین مثال ہے۔ آپؐ نے دین کی خاطر ہجرت کی، جنگیں لڑیں، اور ہر طرح کی تکالیف برداشت کیں۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
"جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اپنی راہیں دکھاتے ہیں، اور بے شک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔” (العنکبوت: 69)
*ملک و معاشرے میں عزت سے جینے کے لیے قربانی:* اسلامی تعلیمات کا نچوڑ
اس دعا کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں ملک و معاشرے میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کے لیے بھی قربانی دینے کو تیار رہنا چاہیے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ:
* *اصولوں پر ڈٹے رہنا:* حق اور سچ کی خاطر کسی بھی دباؤ کے سامنے نہ جھکنا، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لوگوں میں سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔” (سنن ابی داؤد، ترمذی)
قرآن کریم بھی حق پر ثابت قدمی کا حکم دیتا ہے:
"اور حق کو باطل سے نہ ملاؤ اور حق کو نہ چھپاؤ جبکہ تم جانتے ہو۔” (البقرہ: 42)
* *ظلم کے خلاف آواز اٹھانا:* جہاں بھی ظلم یا ناانصافی دیکھیں، اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور مظلوموں کا ساتھ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔” (صحیح بخاری)
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مظلوم کی مدد تو ہم کرتے ہیں، ظالم کی کیسے کریں؟ آپؐ نے فرمایا: "اسے ظلم سے روک دو۔”
* *ایمانداری اور دیانتداری:* ہر حال میں ایمانداری اور دیانتداری کو اپنا شعار بنانا، چاہے اس میں مالی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔” (التوبہ: 119)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تاجر اگر سچا اور امانت دار ہو تو وہ انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔” (سنن ترمذی)
* معاشرتی ذمہ داری: معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے اور اچھائیوں کو فروغ دینے کے لیے فعال کردار ادا کرنا۔ قرآن کریم میں امت مسلمہ کو بہترین امت اسی لیے قرار دیا گیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے:
"تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔” (آل عمران: 110)
* تعلیم اور علم کا حصول: علم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا، کیونکہ علم ہی ترقی اور سربلندی کی کنجی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” (سنن ابن ماجہ)
قرآن مجید میں بھی علم والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے:
"کیا وہ لوگ برابر ہیں جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے؟” (الزمر: 9)
قربانی کا یہ پیغام ہمیں ہر سال عید الاضحیٰ پر تازہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اسے اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنا سکیں۔ یہ نہ صرف ہماری انفرادی زندگیوں کو بہتر بنائے گا بلکہ ایک مضبوط، باوقار اور بااصول معاشرے کی تشکیل میں بھی مدد دے گا۔ آئیے، ہم سب اس عہد کو اپنی زندگی کا ہر لمحہ یاد رکھیں اور قربانی کے اس پیغام کو ہمیشہ عملی جامہ پہناتے رہیں۔