جنرل نیوز

دینی اور عصری علوم میں امتزاج وقت کا تقاضا جامعہ ریاض الصالحات، اعظم پورہ میں ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد کا توسیعی لکچر

حیدرآباد۔اسلام دین و دنیا کی وحدت کا علمبردار ہے۔اس کے نزدیک زندگی کو دین و دنیا کے خانوں میں تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے۔کیوں کہ دین کا دائرہ کار مکمل زندگی ہے۔لیکن امتداد زمانے کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنی زندگیوں کو ان دو خانوں میں بانٹ لیا۔ اس کااثر تعلیم کے شعبہ پر بھی پڑا۔ مسلمانوں میں دینی اور عصری علوم کی اصطلاحات رائج ہوئیں۔ایک طبقہ دینی علوم کا خوگر ہوگیا اور دوسرے نے عصری علوم کے حصول کو اپنی معراج سمجھ لی۔

 

اس غلط سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ امت کا جو طبقہ دینی علوم میں دسترس حاصل کیا وہ دنیاوی امور سے بے بہرہ رہا۔ اور جس نے عصری علوم کے حصول کو اپنی منزل سمجھا وہ دین کے بنیادی اصولوں سے بھی واقف نہ رہا۔ اسلئے وقت کا تقاضا ہے کہ امت اپنی تعلیمی ترجیحات پر ازسر نو غور کرے اور ملت کی نو خیز نسل کو دونوں علوم سے آراستہ کرنے کی منطم کوشش کرے۔ دینی اور عصری علوم میں امتزاج وقت کا تقاضا ہے۔اگر اس تقاضے کو نظر انداز کر کے قدیم طریقہ تعلیم پر ہی اصرار کیا جائے تو مستقبل میں اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، امیر مقامی جماعت اسلامی ہند چار مینار نے آج جامعہ ریاض الصالحات، اعظم پورہ میں ”دینی اور عصری علوم میں امتزاج ” کے عنوان پر تو سیعی لکچر دیتے ہوئے کیا۔

 

انہوں نے کہا کہ دینی اور عصری علوم کی یہ تقسیم صرف ڈیڑھ سو سالہ قدیم ہے۔ورنہ اسلام کی چودہ سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قرون اولی کے مسلمان دونوں علوم میں ماہر تھے۔ علم کی اس غیر فطری تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ عصری علوم کی زمام کار دوسری قوموں کے ہاتھوں میں چلی گء۔ آج ہندوستان میں مسلمان تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں۔علم دین کے حاصل کرنے والوں میں اکثریت کو ملت کے تعلیمی،معاشرتی، سیاسی،معاشی اور دیگر مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اس لئے ضرورت ہے کہ عصری مدارس اور کالجوں میں دین کی بنیادی تعلیمات سے نوجوانوں کو واقف کرایا جائے اور دینی مدارس کے طلباء و طالبات کو عصری علوم کی معلومات دی جائیں تاکہ وہ دینا کے امور سے واقف ہوسکیں۔دینی مدارس میں مروجہ قدیم درس نظامی کا جائزہ لیتے ہوئے اس میں نئے علوم کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔اس وقت ہندوستان میں اور خاص طور پر شمالی ہند میں دینی مدارس کے تئیں حکومت کا جو معاندانہ رویہ ہے اس کی روک تھام کے لئے دینی مدارس کے ذ مہ دار اپنے طور پر وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جدید نصاب مرتب کریں۔

 

اس میں ترجیح بحرحال قران،حدیث، فقہ اور تاریخ اسلام کو دی جائے لیکن ساتھ میں تاریخ ہند،دستور ہند اور معاشیات وغیرہ جیسے مضامین بھی شامل نصاب ہوں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بہت ساری یونیورسٹیوں میں دینی جامعات سے فارغ طلباء و طالبات کو داخلہ دینے کی گنجائش نکل آئی ہے۔ان کی اسناد کو یونیورسٹی تسلیم کررہی ہے۔اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دینی جامعات کے طلباء و طالبات اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹی کا رخ کریں۔جدید مسائل کے حل کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ہر دو علوم پر مکمل دسترس نہ بھی ہو تو اس کی ضروری معلومات طلباء کو دی جائے۔انہوں نے کہا کہ فقہا نے ایسے علوم کو ”فرض کفایہ ” قرار دیا ہے جو امت کے لیے ضروری ہوں۔امت کو جس علم کی ضرورت ہو اس کو سیکھنا لازمی ہے۔اس وقت پیشہ صحافت اور وکالت امت کی اہم ضرورت ہے لیکن اس جانب منصوبہ انداز میں کوشش نہیں ہورہی ہے۔اس پر مسلمانوں کی نمائندہ شخصیتوں اور تنظیموں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 

لکچر کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا۔لکچر میں طالبات کے علاوہ معلمات نے بھی شرکت کی۔اس موقع پر صدر معلمہ جامعہ محترمہ عالمہ حمیراء نشاط بھی موجود تھے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button