مضامین

کیا بھاجپا لڑکھڑا رہی ہے؟

سید سرفراز احمد،بھینسہ,تلنگانہ

 

لوک سبھا انتخابات اس وقت لفظی جنگ میں پوری طرح سے تبدیل ہوگئے ہیں شہنشاہ اورشہزادے جیسے القاب سے کھینچائی ہورہی ہے عمل کا رد عمل سیاست پر سیاست اور جھوٹ پر جھوٹ بلکہ بھاجپا کی جانب سے فرقہ واریت کا ڈنکا جم کر بجایاجا رہا ہے بھارت کے لوک سبھا انتخابات میں پاکستان کا تذکرہ بار بارکیا جارہا ہے رام مندر کی تعمیراور پران پرتشٹھا کے بعد بھی بابری مسجد کو یاد کیا جارہا ہے بھارت میں مسلمانوں کی آبادی اور تحفظات پر بھی سیاست ہورہی ہے ہندو خواتین کو ڈرایا جارہا ہیکہ سونا منگل سوتر بیچ کر مسلمانوں کے حوالے کردیا جائے گا جن امیروں کو دس سال سے اپنے جھولے میں بٹھاکر گھوم رہے تھے آج اسی تھالی میں چھید بھی کردی گئی ووٹ کو ووٹ جہاد کا بھی نام دے کر رائے دہندوں کو اغوا کرنے کا کام کیا گیا جو زبان دس سال سے گونگی تھی اور صرف تاناشاہی چلارہی تھی اچانک اس منہ میں زبان کہاں سے آگئی؟ جو صرف زہر اگل رہی ہے یعنی نفرت کے بازار کی منڈی پوری سجاوٹ کے ساتھ لگائی جارہی ہے لیکن کوئی بھی اس جانب جانے کو تیار نہیں ہے کہا جاتا ہیکہ اقتدار کا نشہ انسان کو اندھا بنادیتا ہے لیکن عوام میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ اس نشے کو اتارنا بھی اچھا جانتی ہے بھلے ہی ہمارے ملک کی جمہوریت دم توڑ رہی ہو لیکن اسی دم توڑتی جمہوریت کے دفاع میں آج ملک ایک جٹ ہورہا ہے شعور کی کیفیت میں پہلے سے بہت ذیادہ اضافہ ہوا ہے سچ کہیں تو عوام نفرت کی سیاست سے بدظن ہوچکی ہےجسکو بھاجپا نے پوری طرح سے بھانپ لیا ہے کہ تیسری بار کے اقتدار کا نشہ صرف نشے تک ہی محدود نہ رہ جائے اسی لیئے فرقہ واریت کی سیاست میں تیزابئیت سے کام لیا جارہا ہے کوشش کی جارہی ہیکہ آنے والے چار مرحلوں میں رائے دہی کا تناسب بڑھے تاکہ بھاجپا کو ووٹ مل سکے جسطرح سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھاجپا نے سی اے اے،این آر سی،دفعہ 370،رام مندر پر جم کر سیاست کی تھی اس بار شکست کے خوف کا سایہ آس پاس ہی منڈلا رہا ہے تب ہی مسلمانوں کے نام کے خوب قصیدے پڑھے جارہے ہیں لیکن تعجب تو یہی ہیکہ سماج کے کسی بھی طبقہ پر بالخصوص ہندو طبقہ پر بھی اسکا مثبت اثر نہیں پڑ رہا ہے یہی بھاجپا کے لڑکھڑانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

 

تین مرحلوں کی رائے دہی کے بعد نفرت کے پہاڑ کھڑے کیئے جارہے ہیں تاکہ باقی مرحلوں میں بھاجپا اسکا سیاسی فائدہ اٹھا سکے لیکن اب یہ سب نا ممکن نظر آرہا ہے تب ہی نریندر مودی نے تلنگانہ کے کریم نگر میں اپنے خاص دوستوں اڈانی امبانی کا تذکرہ چھیڑ ہی دیا جس کے بعد سب ہی ششدد رہ گئے کہ اچانک مودی نے اڈانی امبانی کو کانگریس سے کیسے جوڑ دیا؟مودی نے کہا کہ شہزادے پانچ سال تک اڈانی امبانی کا نام جھپ رہے تھے پھر اچانک چناؤ میں اڈانی امبانی کا نام لینے سے کیوں کترا رہے ہیں؟مودی نے الزام لگایا کہ راتوں رات کتنے ٹیمپو مال لیا گیا؟بوری بھر بھر کے کانگریس کے پاس کالا دھن جارہا ہے پھر کہا کہ دال میں کچھ کالا ہے مودی کا یہ بیان کس کے حق میں ہے یہ کہنا ابھی مشکل ہے لیکن اس بیان کے بعد سوشیل میڈیا پر سوالات کی بونچھار لگی ہوئی ہے کہ اگر کالا دھن اڈانی امبانی کے پاس ہے تو مودی سرکار نے کیوں انجام تک نہیں پہنچایا؟تفتیشی ایجنسیاں ای ڈی،سی بی آئی مودی سرکار کے پاس ہی تھیں توکیوں انھیں تفتیشی جانچ کیلئے انکے پیچھے نہیں لگایا گیا؟ مودی کے اس بیان کے بعد راہول گاندھی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہوامودی جی گھبرا گئے کیا۔۔۔یہ آپکا زاتی تجربہ ہے کیا۔۔۔آپ نے پہلی بار اڈانی امبانی کا نام لیا ہے کیونکہ ہمیشہ بند کمروں میں انکا نام لیا جاتا تھا آپ کے پاس جانچ ایجنسیاں موجود ہیں لگایئے انکے پیچھے اور جانچ کروایئے کس نے روکا ہے آپکو؟اس دلچسپ ردعمل کے بعد مودی جی کا ابھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن جسطرح مودی جی نے اڈانی امبانی کا نام جھپ کر کالے دھن کا تذکرہ کیا ہے شائد یہ بیان مودی اور بھاجپا پرالٹا اثر انداز ہورہاہے کیونکہ عوام جانتی ہیکہ پچھلے دس سالوں میں مودی اور اڈانی امبانی کا کیا رشتہ رہا ہے مودی چاہتے تھے کہ عوام کو بیوقوف بنایا جائے لیکن یہ سوشیل میڈیائی دور ہے سچائی دوڑ دوڑ کر سامنے آتی ہے کیونکہ اڈانی امبانی اور مودی کی کہانی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہے جبکہ مودی جی نے یہ بات بھی جھوٹ کہی ہیکہ راہول گاندھی نے انتخابات میں اڈانی امبانی کا نام تک نہیں لیا جبکہ راہول گاندھی کو کئی انتخابی ریالیوں اور جلسوں میں اڈانی امبانی کا نام لیتے ہوئے سنا گیا۔

 

مودی جی کے اڈانی امبانی بیان کے بعد اچانک ایک سروے رپورٹ آجاتی ہے جسمیں یہ بتایا جاتا ہیکہ سال 1950 سے لیکر سال 2015 تک مسلمانوں کی آبادی میں لگ بھگ 43 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ہندوؤں کی آبادی 8 فیصد تک گھٹ چکی ہے جس کے بعد ہندوتوا قائدین کے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے یعنی صاف الفاظ میں کہا جائے تو یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہیکہ آئندہ سالوں میں ملک میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ جائے گی جس سے ہندوؤں کو نقصان ہوسکتا ہے یتی نرسمہا نند نے تو ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب تک اس ملک سے مسلمانوں کے مدارس و مساجد کو ختم نہیں کیئے جائیں گے تب تک ہندو اس ملک میں چین سے نہیں رہ سکتا اور اس خبیث آدمی نے خباثتی جملے بازی کی ایسے ہی مختلیف بیانات کے ذریعہ ہندو طبقہ کو گمراہ کیا جارہا ہے یہ رپورٹ دراصل وزیر اعظم کی اکنامک اڈوائزری کونسل نے جاری کی سوال یہ ہیکہ اچانک عین انتخابات کے درمیان ہی یہ رپورٹ کیوں جاری کی گئی؟اور کیا اس رپورٹ میں سچائی ہے؟یا محض سیاسی پینترہ اپنانے کیلئے اس رپورٹ کو زبردستی ملک کے سامنے لایا گیا؟ اس ضمن میں اے بی پی کے پچھلے کچھ سالوں پہلے پیش کی گئی رپورٹ کے ویڈیو کو آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے ٹوئٹر پر پیش کیا جسمیں یہ صاف بتایا جارہا ہیکہ جب ملک کی آبادی 13 ہزار کروڑ ہوجائے گی تب ہندو اور مسلمان آبادی کے برابر تناسب میں آسکتے جس کیلئے مزید 270 سال کا انتظار کرنا ہوگا مزید دلچسپ بات یہ بھی بتائی گئی کہ آزادی کے وقت مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن آزاد ہندوستان کے پچھتر سال ہوچکے ہیں لیکن آج بھی ہندو طبقہ مسلمانوں سے چار گناہ ذیادہ ہے اعدادو شمار کے مطابق 1981سے 1991 میں مسلمانوں کی آبادی کا بڑھنے کا تناسب 32.9 تھا جو1991تا 2001 تک مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کا تناسب گھٹ کر 29.3ہوگیا اور 2001 سے 2011 میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کا تناسب مزید گھٹ کر 24.6 تک پہنچ گیا اسی طرح 1981 تا 1991 میں ہندوؤں کی آبادی کا بڑھنے کا تناسب 22.8 تھا جو سال 1991تا 2001 میں گھٹ کر 20 فیصد ہوگیا اور 2001 تا 2011 میں گھٹ کر16.8 فیصد ہوگیا حقیقت یہی ہیکہ ہندوؤں کی بہ نسبت مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ہندوؤں کی تعداد اتنی ذیادہ ہیکہ اگر اگلے دس سال میں مسلمان چار کروڑ بڑھیں گے تو ہندو سولہ کروڑ بڑھیں گے مطلب ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے چار گنا ذیادہ بڑھ جائی گی تو ہم اندازہ لگاسکتے کہ یہ رپورٹ صرف اور صرف سیاسی فائدے کیلئے تیار کی گئی ہے لیکن عوام کو سب کچھ سمجھ میں آرہا ہے مودی جی اور بھاجپا سیاسی بوکھلاہٹ میں ہر روز نئے حربے استعمال کررہی ہے لیکن اسکا انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور ابھی یہ ممکن ہیکہ مودی جی اپنے اگلے انتخابی جلسہ میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا جھوٹا حوالہ دے کر ہندوؤں کو ڈرانے کی کوشش کریں گے تاکہ ووٹ بینک کی سیاست کا فائدہ حاصل کیا جاسکے لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔

 

جنوبی ہند میں بھاجپا کا سیاسی جادو نہ کبھی کام کیا ہے اور نہ اس بار کرے گا بلکہ اس بار تو شمالی ہند میں بھی بھاجپا کی زمین آہستہ آہستہ کھسک رہی ہے میڈیا کے ذریعہ جو عوامی نظریات سامنے آرہے ہیں وہ بھی بھاجپا کی مخالف سمت کی طرف رواں دواں ہے وہاں کے لوگوں کا کہنا ہیکہ پچھلے دس سالوں میں کاروبار میں بہت ذیادہ گراوٹ آئی ہے تاجرین جی ایس ٹی سے پریشان حال ہے دس سالوں میں ہر فرد معاشی طور پر بہت کمزور ہوا ہے اس بار لوگوں نے تبدیلی لانے کیلئےاپنا من بنا رکھا ہے عوام کے اسی من کو بدلنے کیلئے بھاجپا کے قائدین نفرت اور زہر افشانی میں تیزی پیدا کردی ہے مہاراشٹر کے امراوتی کی بی جے پی رکن پارلیمان نونیت رانا نے اکبر الدین اویسی کے بارہ سال پرانے بیان کا حوالہ دے کر پندرہ سکنڈ پولیس کو ہٹانے کی بات کہی اور ریالی میں کہا کہ اگر آپ کانگریس کو ووٹ دیں گے تو اسکا مطلب ہیکہ آپ پاکستان کو ووٹ دیں گے مودی جی کہہ رہے ہیں کہ”مودی کو چار سو سٹیں چاہیئے تاکہ کانگریس رام مندر پر بابری تالا نہ لگادیں”۔امیت شاہ کہتے ہیں کہ سرجیکل اسٹرائیک سے راہول بابا کو پریشانی تھی اور کہا کہ کانگریس حکومت میں ہولی دیپاولی کو بجلی کاٹ دی جاتی تھی اور رمضان میں چوبیس گھنٹے بجلی سربراہ کی جاتی تھی لیکن اب مودی جی ہولی دیپاولی کو چوبیس گھنٹے بجلی دینے کا کام کررہے ہیں مدھیہ پردیش بھاجپا کے وزیر اعلی موہن یادو نے انتخابی ریالی میں کہا کہ ہم 63 ہزار سے ذیادہ اسپیکر مساجد سے ہٹانے کا کام کیا ہے یہ سب محض تیسری بار بھاجپا کو اقتدار کی گدی پر بٹھانے کیلئے مسلمانوں کے خلاف برادران وطن میں زہر بھرنے کا کام کررہے ہیں ہم نے ہمارے پچھلے دو مضمون میں اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ نفرت کے پرچار میں مزید بڑھنے کے امکانات ہیں جو سچ ثابت ہورہے ہیں یعنی بھاجپا کے قائدین لڑکھڑاتی کشتی کو نفرت اور زہر اگل کر بچانا چاہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوپارہا ہے ہواؤں نے اپنا رخ بدل دیا ہے تبدیلی کے واضح اشارے مل رہے ہیں شکست کا خوف اور بوکھلاہٹ کی کیفیت بھاجپا کے قائدین کی زبان سب کچھ ظاہر کررہی ہے سوشیل میڈیا پر بھاجپا کے اعلی قائدین کے پوسٹ کو پسند کرنے کی جو تعداد تھی اسمیں بھی بھاری گراوٹ آئی ہے اور عوام کی جانب سے سوشیل میڈیا پوسٹ پر جو تبصرے پیش کیئے جارہے ہیں اس سے بھی اندازہ مل رہا ہیکہ بھاجپا پوری طرح سے بیک فٹ پر آچکی ہے راہول گاندھی فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں گودی میڈیا بھی اب گود چھوڑنے کیلئے بے تاب نظر آرہی ہے کیونکہ انکی رپورٹنگ اور انداز بیان میں تبدیلی دیکھی جارہی ہے زمینی سطح سے لیکر سوشیل میڈیا پر بھاجپا پوری طرح سے لڑکھڑاتی نظر آرہی ہے اب کوئی کرشمہ بھی بھاجپا کی شکست کو نہیں روک سکتا سوائے ای وی ایم کی عدم شفافیت کے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button