مضامین

پھرآیا6/ڈسمبر ۔۔۔۔۔کس کا ماتم منائیں؟

رشحات قلم

عبدالقیوم شاکر القاسمی

امام وخطیب مسجد اسلامیہ

نظام آباد. تلنگانہ

9505057866

 

ملک ہندوستان کی سرزمین ریاست یوپی کے ضلع فیض آبادکے شہر ایودھیا میں سلطنت مغلیہ کے عظیم فرمانروا بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب مغلیہ فن تعمیر کی حامل سہ گنبدان ایک عظیم شاہکار *بابری مسجد* کی شہادت آج پھر یاداگئ اورایسالگتاہیکہ یہ تاریخی یادگار شاید کبھی فراموش نہیں کی جاے گی جریدہ عالم پر جس کے اثرات اوریادیں ثبت کردی گئیں ہوں

بس دعاہیکہ پاک پروردگار بھارتی مسلمانوں کی اس مجرمانہ غفلت کو معاف فرمادے

ہم مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق روے زمین پر ایک مرتبہ اگر اللہ کا گھر تعمیر ہوجاے اور اذان ونماز کا عمل جاری ہوجاے تو رہتی دنیا تک کے لےء وہ مسجد ہی کے حکم میں رہے گی خواہ کسی بھی حوالہ سے وہ مظلوم بن جاے منہدم ہوجاے یا کسی اور کے قبضہ میں چلی جاے مگر وہ رہے گی مسجد ہی جس کا تقدس واحترام نہ ظاہری اعتبار سے ختم ہوسکتا ہے نہ ہی دلی اعتبار سے اس تعلق کو کوی طاقت توڑ سکتی ہے

میر باقی کی تعمیر کردہ یہ مسجد 1527عیسوی سے مسلمانوں کی عبادت گاہ بنی رہی مسلسل ایمان والوں کی جبینوں کے سجدوں سے یہ معمور ومنور رہی لیکن افسوس کہ اس ملک کے چند اشرار نے اس کو اپنی سیاسی کرسیوں کے تحفظ کے لےء استعمال کرلیا اور اس مقدس سرزمین کو ظالمانہ طور پر مقبوضہ بنالیا اور پھر وہ سب کچھ ہوا جس کو دنیا والوں نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا اور ہر کس وناکس کے ذہن وخیال میں وہ حالات گردش کرتے رہیں گے جس کو بیان کرنے کی نہ کسی زبان میں ہمت ہے نہ کسی قلم میں طاقت بس ایک دلی جذبات ہے جس کا رہ رہ کے احساس ہوتا ہے تو زبانیں گویا اورقلم لکھنے لگتے ہیں ۔۔۔

تاریخ شاہد ہیکہ 6/ڈسمبر 1992میں اس مسجد کوچند شرپسند عناصر نے حکومتی پشت پناہی کا سہارا لے کر منہدم کیا اور اس مسجد کے تقدس کو پامال کیا نیزغاصبانہ قبضہ کرکے اس کو ہندووں کی پوجا گاہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور دعوی کرڈالا کہ یہ مسجد نہیں ہے بلکہ یہاں پوجاپاٹ ہوتی تھی

بہرکیف

اس بابری مسجد مقدمہ کی مختلف عدالتوں میں شنوای ہوتی رہی مسلمان پورےملک میں اس تاریخ کو یوم سیاہ کے طور پررضاکارانہ بند مناتے رہے صداے احتجاج بلند کرتے رہے اپنے حقوق مانگتے رہے مطالبہ کرتے رہے بالاخر ان کی آواز ہر مقدمہ کی طرح اس مقدمہ میں بھی صداءبصحراء ہی ثابت ہوی اور پورے تیس سال کے انتظار کے بعد بھی اپنے حق سے محروم ہونا پڑا اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بھی تمام ٹھوس ثبوتوں اور مضبوط شہادتوں کے باوجود 9/نومبر 2019 کو انصاف کا خون کرتے ہوے ایک طبقہ کو مسجد کارقبہ حوالہ کردیا اورمسلمانوں کو اس حصہ ارض اور مسجد سے دستبرداری کا حکم نامہ جاری کرکے دوسری جگہ پر زمین دینے کی بات کہ دی

تو اب ہم ۔۔۔

*کس کا ماتم منائیں*

مسجد کی شہادت کا یا انصاف کے خون کا ؟؟؟؟

سلام ہو مسلمانوں کے صبر اور وعدہ وفای کو جنہوں نے مقدمہ کے دوران کہا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کریں گے اورقانون کی اس عدالت عظمی کے حکم کا احترام کریں گے (اسی امید پر کہ انصاف کا دامن نہ چاک کیا جاےگا) اور مسلمانوں نے اس کا ثبوت بھی دیا ہنوز اسی صبر کے ساتھ جی رہے ہیں مگریہ بات چونکہ عقیدہ مسلمہ سے وابستہ ہے اس لےء نئ نسل کویاد دلاتے رہیں گے کہ ایودھیا کی اس سرزمین پر ہماری مسجد ہے اورہم تاقیام قیامت اس کو مسجد ہی تسلیم کریں گے گرچیکہ مسلمانوں نے فیصلہ ہارا ہے مگر حوصلہ نہیں آج بھی وہی درد وکرب ہمارے دلوں میں ہے جو انہدام کے روزاول تھا اورکیوں نہ ہوجبکہ ہماراتعلق اللہ کے گھروں سے رسمی نہیں بلکہ ایمانی اوردینی تعلق ہے ہے اللہ پاک ہماراحامی وناصر ہواورہمیں ہمت وحوصلہ عطاء فرماے

مسلمانوں کی کئ ایک تنظیموں اورسیاسی وسماجی ملی ومذہبی جماعتوں نے اس حوالہ سے جو قابل قدر کوششیں کےء ہیں اللہ پاک ان سب کو اجرعظیم عطاء فرماے ۔۔۔۔۔۔

ساتھ ہی ساتھ میں ایک پیغام مسلمانوں کو دینا چاہوں گا کہ اس ایک بابری مسجد کی حصولیابی کے لےء ہم نے برسہابرس انتظار کیا اور کافی وقت گذاردیا لیکن غورطلب بات یہ ہیکہ مساجد ہمارے ہاتھ سے جاتی کیوں ہے ؟؟

یقینا اس طرح کی کارروائیوں میں ہم مسلمانوں کے عمل کا بھی دخل ہوتا ہے اگر ہم صد فی صد نمازی بن جائیں اور اپنے اپنے محلہ کی مسجدوں کو عبادات واعمال سے آباد کرلیں تو میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی مجال نہیں جو ہماری عبادت گاہوں اللہ کے ان گھروں مساجد کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھیں ہم مسلمان صرف جمعہ جمعہ کو نماز اداکرنے کے لےء جوو درجوق مساجد کا رخ کرتے ہیں کاش کہ یومیہ پنج وقتہ نمازوں میں ہمارا یہی طرز عمل ہوتا اسی فکر ولگن کے ساتھ ہم مساجد کو جاتے اور یہی مظاہرہ کرتے تو سوچیں کہ آج مساجد کی کیا حالت ہوتی اور ہم مسلمانوں کا ملی شیرازہ کتنا متحد ہوتا اور ان فرقہ پرست طاقتوں پر کیا غیبی اثرات مرتب

ان سب سے ہٹ کر ایک مسلمان کا مذہبی حق اورایمانی تقاضہ ہیکہ وہ نمازوں کا اہتمام کریں اپنی زندگیوں میں صالح انقلاب پیدا کریں

باری تعالی توفیق عمل نصیب فرماے. . . . . . .

آمین بجاہ سید المرسلین

متعلقہ خبریں

Back to top button