مضامین

باسط بھائی… قابل فخر حیات، قابلِ رشک موت

از: محمد‌منظور احمد

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

محترم سید عبدالباسط انور صاحب جنہیں خلق باسط بھائی سے جانتی ہے اس عارضی دنیا سے ابدی دنیا کی طرف رخصت ہوگئے ۔ دنیا میں جو بھی آتا ہے اُسے رخصت ہونا ہے یہ ایک مسلسل عمل ہے ۔ لیکن خوش نصیب ہے وہ انسان جس نے آخرت کی فکر میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور خاتم النبیین کی ہدایات کی روشنی میں زندگی بسر کی اور مسکراتے ہوئے موت کو گلے لگایا ۔

 

 

کوئی ۰۴ سال سے محترم باسط بھائی سے میرے خوشگوار اور قریبی تعلقات رہے ہیں ۔ اس دوران حلقہ طلبہ SIO, SIU ، امیر جماعت اسلامی ہند آندھرا پردیش و اڑیسہ، مرکزی سکریٹری پھر سکریٹری تربیت حلقہ تلنگانہ کی مختلف ذمہ داریاں و ہ نبھاتے رہے لیکن تعلقات میں کبھی بھی کمی نہیں آئی ۔ کبھی اپنے گھر بلوالیتے اور کبھی غریب خانہ کو زینت بخشتے، گھر آتے تو والد بزرگوار سے ضرور ملتے۔ اہل و عیال کی خیریت دریافت کرتے اور ہمیشہ مختلف اُمور پر بہترین مشورے عطا کرتے ۔ باسط بھائی ایک رفیق کے علاوہ ایک سرپرست بھی تھے۔ خود مجھ سے مصروفیات کا حال چال معلوم کرتے اور وقت کی قدر کرنے اور مصروفیات کو مفید بنانے اور منظم کام کرنے کی طرف توجہہ دلاتے ۔ اہم پروگراموں میں مجھے ساتھ ساتھ رکھتے۔ خاص کر معززین شہر سے ملاقاتوں، میڈیاں سے روابط اور دیگر تنظیموں خاص کر طلبا تنظیموں کے ذمہ داروں سے ملاقاتوں پر ضرور ساتھ رکھتے۔

 

 

ان تمام مواقعوں پر باسط بھائی کا مسکراتا چہرہ، خندہ پیشانی سے ملاقاتیں انتہائی عجز وانکساری کے ساتھ علماءودیگر قائدین سے ملاقاتیں ناقابل فراموش ہیں ۔ باسط بھائی نے سینکڑوں اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور دعوتِ دین اور تنظیم وتحریک کے مقاصد سے واقف کروایا، ہوسکتا ہےکہ بہت کم لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا یا تعاون عمل پیش کیا لیکن یہ گواہی ہر کوئی دے سکتا ہے کہ باسط بھائی جس شخصیت سے بھی ملاقات کئے اُسے اپنی شخصیت کا گرویدہ بنادئیے۔یہی دعوتِ دین کی پہلی سیڑھی بھی ہے ۔ مخاطب دعوتِ دین کی تشریح اور فہمائش سے زیادہ فرد کے اخلاق وکردار سے پہلے متاثر ہوتا ہے ۔ بعدازاں وہ دعوت کے سلسلہ میں غور کرتا ہے ۔ باسط بھائی کا داعیانِ دین اور فقائے تحریک کو پہلا پیغام یہی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں میں اولاً اعلیٰ اخلاق و کردار پیدا کریں ۔ عجز وانکساری، سادگی اور مسکراہٹ کے ساتھ دعوت ملاقاتیں کریں ۔

 

 

باسط بھائی جہد مسلسل کی عملی تصویر تھے ۔ شہر میں ہوتے تو منتخب رفقاءسے ملاقاتیں، شہر کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں یا پھر مختلف اداروں کا دورہ ورنہ وہ مسلسل اضلاع کے دورے کرتے۔ متحدہ آندھراپردیش کے (23) اضلاع اور طویل مسافتیں انہیں کبھی بھی سست گام نہیں کرسکیں “۔ شوگر کا مرض بھی انہیں جہد و عمل سے روک نہ سکا ۔ زندگی کی آخری سانس تک اجتماعیت سے جڑے رے اور رفقاءکی تربیت کے لئے فکر مند اور کوشاں رہے ۔

 

 

یوں تو باسط بھائی کی زندگی کئی ایک کارناموں سے بھری پڑی ہے لیکن جماعت کے Assets کی حفاظت کا جو کام انہوں نے کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے ۔ مہیشورم، لکڑ کوٹ کے علاوہ وادی¿ ہدیٰ کی وسیع و عریض اراضی کی حفاظت ان کا دورس کارنامہ ہے ۔ مرحوم انوارالحسن صاحب باسط بھائی کے انتہائی باعتماد رفیق تھے اسی طرح جناب محمد اظہر الدین صاحب موجودہ معاون امیر حلقہ کا شمار بھی ان کے قریبی رفقاءمیں ہوتا ہے ۔

 

 

باسط بھائی ہر چھوٹے بڑے اہم موقع پر ناچیز کو یاد کرتے رہتے تھے اور بڑی ہی محبت اور خلوص کے ساتھ ”بابو“ کہا کرتے تھے ۔ بیرون ممالک کے مہمان ہوں یا ملکی سطح کی اہم شخصیات عموماً ان کے استقبال کے علاوہ قیام و طعام کی ذمہ داری میرے حوالے کرتے تھے ۔ باسط بھائی کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ رفقاءکی کمزوریوں کے مقابلے میں خوبیوں پر نظر رکھتے تھے اور ہر رفیق کے ساتھ بے پناہ محبت و خلوص سے پیش آتے۔

 

 

باسط بھائی آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن جاتے ہوئے انہوں نے رفقاءکو یہ پیغام دیا کہ تحریک رفقاءکی زندگی میں مقدم رہے ۔ تحریک کی خدمت کے لئے ہر قسم کی قربانی دی جانی چاہیے ۔ اور آخری سانس تک تحریک کی خدمت کرتے رہنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ ہمارے اندر اخلاص، جذبہ عمل اور مطلوبہ کردار پیدا کرے۔ محترم باسط بھائی کو انبیاءو شہداءکی صحبت نصیب فرمائیے اور پسماندگان کو صبر جمیل و حوصلہ عطا فرمائیے ۔ آمین

متعلقہ خبریں

Back to top button