مضامین

خبر پہ شوشہ “چائے ایک دام انیک” 

کے این واصف

“عالمی یوم چائے” کے موقع پر چائے سے متعلق روزنامہ “سیاست” میں ایک دلچسپ تحریر شائع ہوئی۔ جس میں دیگر معلومات کے علاوہ بتایا گیا تھا کہ حیدرآباد کا چائے سے ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ یہاں ہر “چرچہ” چائے پر ہی ہوتی ہے نیز مشروبات میں سب سے زیادہ پی جانے والی چیز چائے ہی ہے۔ چائے ٹھیلے بنڈی سے ہائی فائی رسٹورنٹ میں ملتی ہے جس کے دام 7 روپئے سے 1000 روپئے تک بتائے گئے ہیں آج کل چائے کے اقسام بھی انگنت ہیں۔

 

 

حیدرآباد میں چائے کثرت سے پی جاتی ہے شاید ایسی لئے یہاں 1/2 یعنی ایک کپ میں دو آدمی شیئر کرنے کا طریقہ عام ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں میں یہ طریقہ ہے جسے Cutting چائے کہتے ہیں۔ معروف شاعر جون ایلیا نے ایک کپ چائے کی تقسیم پر بڑا اچھا شعر کہا تھا آپ بھی سنئے۔

اک چائے دو کپون میں برابر سی بانٹ کر

اکثر کیا ہے فرض کہ تنہا نہیں ہوں میں

 

 

از راہ مزاح ایک کپ چائے کی تقسیم پر اپنا ذاتی تجربہ پیش کرکے شوشہ تمام کرتے ہیں۔ حیدرآباد میں سن 1970 کی ابتدائی دہائی میں چائے صرف 15 پیسے میں ملتی تھی۔ اسی دور میں ہم نے رسٹورنٹ میں چائے پینے کی جسارت کی تھی۔ کالج سے نکل کر جب ہم قریب کی رسٹورنٹ میں بیٹھتے تو دو ساتھیوں میں ایک چائے منگواتے اور 15 پیسے کی ادائیگی طریقہ یہ ہوتا کہ کپ میں پینے والے 8 پیسے اور طشتری میں پینے والا 7 پیسے شیئر کرتا۔ 😄

متعلقہ خبریں

Back to top button