جنرل نیوز

تلنگانہ اسٹیٹ حج کمیٹی اور جامعتہ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد کے اشتراک سے احاطہ جامعۃ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد میں حج سمینار برائے خواتین کا انقعاد

تلنگانہ اسٹیٹ حج کمیٹی اور جامعتہ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد کے اشتراک سے احاطہ جامعۃ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد میں حج سمینار برائے خواتین کا انقعاد عمل میں آیاجامعتہ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد کے ممتاز اسکالر اورمفتیات خواتین عالمات نے دوران سفر حج کے تفصیلات سے آگہی کرواتے ہوئے عازمین حج کو شرعی رہنمائی بھی کی گئی مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد مستان علی قادری ڈائریکٹر اینڈ فاؤنڈر جامعتہ المؤمنات مغلپورہ حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآبادنےپس پردہ انتظامات کی کی نگرانی کرتے ذرائع ابلاغ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتلایا کہ دراصل بیت اللہ وہ مرکز امن و سلامتی ہے جہاں مسجد حرام اور اس کے اردگرد کے وسیع علاقے کو حرم قرار دیا گیا ہے۔ یہاں نہ جنگ کرنا جائز ہے اور نہ کسی جانور یا انسان کا خون بہایا جاسکتا ہے۔ کعبۃ اللہ کی اس حرمت نے اسے دینی و دنیاوی فیوض و برکات کی جاہ بنادیا ہے۔ زائرین کے قافلے تمام سال اور خاص طور پر ایام حج میں کسی ڈر اور خوف کے بغیر اس مقامِ رشد و مسکن ہدایت کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ عرشِ عظیم کا رب لاکھوں فرزندانِ توحید کو اپنے آغوشِ سلامتی اس طرح رکھ لیتا ہے کہ دنیا اس کے جاہ و جلال اور بندوں کی بے لوث عبدیت کے نظاروں پر محو حیرت رہتی ہے۔ بیت اللہ کی امن و سلامتی کا ذکر کرتے ہوئے ارشادِ ربانی ہے:’’ اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔‘‘اس آیت مبارکہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حج کے بیشتر مناسک مثلاً طوافِ کعبہ رکوع و سجود و اعتکاف اور اس کے علاوہ مقام ابراہیمی، چاہ زمزم اور سعی کوہ صفا و مروہ دراصل سنتِ ابراہیمی سے ہی مستعار لیے گئے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام سے محمد رسول اللہ ﷺ کے دور تک آتے آتے حج و عمرہ میں جو مشرکاہ عقائد و رسومات شامل ہوچکے تھے محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں ان کا خاتمہ کیا اور 10 ہجری کو وہ تاریخی حج مبرور ادا کیا جس میں مسلمانوں کو سنتِ ابراہیمی اور حج کے اسلامی مناسک کی تعلیم دی۔ یہ حضور ﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا۔ اسی لیے اسے ’’حجۃ الوداع‘‘ کہا جاتاہے اور ابلاغِ اسلام کی بنا پر ’’حج الاسلام‘‘ اور ’’حج البلاغ‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتاہےدراصل قرآن حکیم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو مومنین کے لیے ایک مثال کی حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ اسی میں حج کی تعلیمات کا نچوڑ بھی ہے اور درس بھی پوشیدہ و پنہاں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عشقِ الہیٰ نے وہ بلند حوصلہ عطاکیاکہ بقول اقبال بے خطر کود پڑا آتش نمرودمیں عشق۔ ان کے اسی عشق و جنوں کے صدقے اللہ رب العزت نے دہکتی ہوئی آگ کے شعلوں کو ٹھنڈا فرمادیا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم ربی کی تکریم میں بے آب و گیاہ صحرا میں طویل اورکٹھن مسافت کے بعد شریک حیات بی بی حاجرہ اور پیرانہ سالی میں حاصل اولاد شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایمان و یقین کے سائبان میں مکے کی وادی غیر ذی زرع میں تنہا چھوڑ کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ آخر آپ کی شفقتِ پدری حکم ربانی کی تعمیل میں سرخرو قرار پاتی ہے۔ صحرا میں شیر خوار بچے کی شدتِ پیاس اسے ایڑیاں رگڑنے پر مجبورکرتی ہے جو ماں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتاہےا ور وہ پانی کی تلاش میں کوہ صفا اورکوہ مروہ کے درمیان سعی کرتی ہے۔ مامتا کی اس تڑپ اور والہانہ محبت پر رحمت الہٰی جوش میں آتی ہے اورمعصوم بچے کی ایڑیوں تلے ایسے پانی کا چشمہ جاری ہوجاتاہے جو آج دن تک غذا بھی ہے، دوا بھی ہے اور شفا بھی ہے۔ یہی آب زم زم شفاعتِ الہٰی میں کوثر و سلسبیل کے مماثل قرار پاتاہے اور اس گھرانے کا عہد وفا رب العزت کو اس قدر عزیز ٹھہرتا ہے کہ قیامت تک صفا و مروہ کے درمیان سعی حج کا لازمی رکن قرار پاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button