قومی سطح پر اردو اخبار اور ٹی وی کی شدید ضرورت ـ سوشیل میڈیا کو جوابدہ بنانا ضروری
صحافی " جناب نسیم عارفی" کی یاد میں منتخب صحافیوں کو ایوارڈس ـ سرینواس ریڈی ' سید بشارت علی ' عامر اللہ خان اور ایم اے ماجد کا خطاب

حیدرآباد 13- اپریل ( پریس نوٹ) موجودہ حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق "قومی سطح پر اردوکے اخبار اور نیوز چیانل کی بہت ضرورت ہے – کوششیں ہوں تو یہ کام ناممکن نہیں” اردو زبان پھلتی پھولتی جارہی ہے اس کے مایوس مستقبل کی باتیں غیر دانشمندانہ وغیر صحتمندانہ ہیں اردوزبان دنیابھر میں بولی وسمجھی جانے والی شیریں زبان ہے اردو والوں کو چاہئے کہ بول چال اور لکھنے پڑھنے میں اردوکا کثرت سے استعمال کریں سوشیل میڈیا کے ذریعہ بھی اردو کے بولنے ‘ سننے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں بھاری اضافہ ہواہے لیکن بے لگام اور غیر ذمہ دارانہ سوشیل میڈیا کو مقامی ‘ علاقائی ‘ قومی وبین الاقامی سطح پر باقاعدہ بنانا اور اسے جوابدہ بنانا حد سے زیادہ ضروری بھی ہو گیا ہے
پریس کلب بشیر باغ حیدرآباد میں 12- اپریل کو منعقدہ ” نسیم عارفی اردومیڈیا ایوارڈس ” تقریب سے خطاب کرتے ہوۓ مقررین اور ایوارڈ یافتگان نے مجموعی طور پر ان خیالات کااظہار کیا جناب نسیم عارفی کا 19- اگست 2023 ء کو انتقال ہوا تھا روزنامہ سیاست ‘ روزنامہ منصف اور روزنامہ اعتماد میں انہوں نے ذمہ دارانہ خدمات انجام دیں تھیں اردو صحافت کی بلند پایہ شخصیات میں ان کا شمار ہوتا تھا سی ای ٹی آئی فاؤنڈیشن نے اس تقریب کا اہتمام کیاتھا ڈاکٹر رشدہ شاہین ( نئی دہلی ) ‘ ایم ڈی زکریا ( مدہوبنی ـ بہار ) ‘ محمد ارشد (حیدرآباد ) ‘ جناب سجادالحسنین ( حیدرآباد )کو سالانہ ایوارڈ اور جناب قربان علی ( نئی دہلی ) کو ” نسیم عارفی ” کارنامہ حیات ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا جناب سرینواس ریڈی صدرنشین میڈیا اکیڈیمی تلنگانہ کے ہاتھوں یہ ایوارڈس دئیے گئے یہ تقریب تلنگانہ اسٹیٹ یونین آف ورکنگ جرنلٹس یونین کے اشتراک سے منعقد ہوئی ـ
ابتداء میں فاؤنڈیشن کےٹرسٹی جناب سید بشارت علی نے بتایا کہ اردو صحافیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی انتھک محنتوں کے اعتراف کی غرض سے اس ایوارڈ کا آغاز کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد اردو صحافت کے سنہرے دور کو زندہ کرنا ہے جناب نسیم عارفی اس دور میں اردوصحافت سے وابستہ ہوئے تھے جب شہر ہو یا دیہات ‘ عام معلومات کا سہارا اردو اخبارات ہی تھے ایرانی ہوٹلوں میں دن بھر لوگوں کے ہاتھ میں اخبارات ہوا کرتے تھے سیاسی اور دیگر باتوں پر لوگ گھنٹوں میں مباحث میں مصروف دیکھے جاتے تھے جناب نسیم عارفی نے اردواخبارات میں بڑی عرق ریزی سے کام کیا اور اردو اخبارات کی دنیامیں ایک انقلاب برپا کیا جناب سرینواس ریڈی صدرنشین تلنگانہ میڈیا اکیڈیمی نے اپنے خطاب میں جناب نسیم عارفی مرحوم کی صحافتی خدمات کو بھر پُور خراج عقیدت پیش کیا اور ایوارڈ یافتگان کو مبارکباد پیش کی انہوں صحافت کے ابتدائی دور سے لیکر موجودہ دور کے حالات منظر اورپس منظر کا جائزہ لیا جناب عامر اللہ خان رکن ریاستی پبلک سرویس کمیشن نے کاروائی چلائی مہانوں اور ایوارڈیافتگان کا تعارف کرایا اور جناب نسیم عارفی کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا
جناب بلال احمد بھٹ ( ای ٹی وی بھارت اردو) نے بتا کہ ہمارا ٹی وی 13 زبانوں بشمول اردوزبان ‘ عوام کی خدمت کررہا ہے انہوں نے کہا کہ یہ ہندوستان کاسب سے بڑا قومی چینل ہے جو عوام کاحقیقی ترجمان ہے اور یہ عوام کی آواز کو حکومتوں اور ذمہ داران تک موثر انداز میں پہنچا تا ہے انہوں نے ذمہ اران ای ٹی وی بھارت اردو کی جانب سے اس بات کا بھر پور یقین دلایا کہ حالات چاہے جو بھی ہوں’ ہم اس ٹی وی کی خدمات کو بدستور برقرار رکھیں گے اس سلسلہ میں اردو والوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں انہوں نے اردو صحافت کو ڈیجٹل اندازمیں آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا انہوں نے انتظامیہ کا پیام بھی پڑھ کر سنایا جناب سوما شیکھر نے جناب نسیم عارفی کی صحافتی خدمات کو یاد کیا اور جناب عابدعلی خان سے لے کر جناب عطامحمد مرحوم’ جناب محمد شفیق الرحمٰن مرحوم اور پروفیسر احتشام و پروفیسر مصطفیٰ علی سروری کی صحافتی خدمات کا تذکرہ کیاممتاز ومعروف سینئیر صحافی و سابق رکن قانون ساز کونسل تلنگانہ جناب سید امین الحسن جعفری نے جناب نسیم عارفی
کی یاد میں دئیے جانے والے ایوارڈس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جناب نسیم عارفی کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے انہوں نے کہا کہ اردوصحافت کا سفر بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ھے ریڈیو ‘ ٹی وی کے بعد ڈیجٹل پلیٹ فارمس بہت آگئے ہیں پہلے اردوزبان سے تحریری واقفیت بہت ضروری تھی لیکن ریڈیو اور ٹی وی کی وجہ سے صرف سننے سے بھی اردو کے چلن میں کافی اضافہ ہوگیا ہے انہوں نے اس بات پر شدت سے زور دیاکہ سوشیل میڈیا کے اس بڑھتے دور میں سوشیل میڈیا کو باقاعدہ اور جوابدہ بنانے کی بڑی ضرورت ہے غیر سنجیدہ ‘ اور ذہنی شعوروفکر اور وقت حالات کا صحیح تجزیہ نہ کرنے اور کسی بھی بات کو بِلا تحقیق پیش کردینے سے کب کیا ہوجاۓ اس کا کسی کو اندازہ نہیں ھے انہوں نے اردو والوں کو جھنجھوڑتے ہوۓ کہا کہ اپنی گفتگو میں دوسری زبانوں کے غیر ضروری استعمال سے گریز کریں جناب امین الحسن جعفری نے مولانا آزاد یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں صدرنشین کُل ہند اردو تعلیمی کمیٹی جناب جلیل پاشاہ مرحوم کی انتھک کوششوں کا تذکرہ بھی کیا جناب امین الحسن جعفری نے ملک کے بعض معاملات میں دورخی قوانین اور رویوں پر افسوس کا اظہارکیا اور کہا کہ جمہوریت میں سب ہی شہریوں کے مساویانہ حقوق ہونے چاہئیے سینئر صحافی سابق رکن پریس کونسل آف انڈیا جناب ایم اے ماجد نے نسیم عارفی یادگار ایوارڈ کےلئے جناب سید بشارت کے اقدام پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ صحافیوں کی خدمات کا کوئی بدل نہیں ہوتا لیکن تحسین اور ستائش سے کام کرنے والوں کے حوصلوں میں نئی امنگ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے
ڈاکٹرفاضل حسین پرویز ایڈیٹر ہفت روزہ گواہ و میڈیا پلس آڈیٹوریم نے کہا کہ یہ محض ایک غلط پروپگنڈہ اور وہم ہے کہ اردوزبان ختم ہورہی ہے یا اس کا وجود خطرہ میں ہے انہوں نے مثال دیکر سمجھایا کہ اردوصحافت غیر یقینی صورتحال سے دوچارہوتی یا غیر منفعت بخش ہوتی تو ممبئی سے جاری ہونے والا روزنامہ انقلاب سابقہ انتظامیہ سے موجودہ انتظامیہ کے ہاتھوں میں نہ ہوتاانہوں نے کہا کہ اردو کی مقبولیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ روزانہ 15 سے 20 سے زیادہ مقامی وعلاقائی اور دیگر مقامات کے اردو اخبارات واٹس ایپ پر پڑھے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ آن لائن ایڈیشنس کے سبب اردودنیا میں زبردست انقلاب پیدا ہوا ھے اردو پڑھنے والوں کی تعداد کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے جو عالمی سطح تک پھیل چکی ہے انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں اردو کی نئی نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں انہوں نے تجویز رکھی کہ دینی مدارس کے طلباء کو اردو کی ترقی وترویج کے کاموں سے جوڑا جاۓ دینی مدارس کے فارغین کو اردو کمپیوٹر کی تربیت سے واقف کرایا جاۓ یہ طلباء کافی ذہین بھی ہوتے ہیں انہیں صحافتی پیشہ وارانہ مہارت سے متعلق تربیت فراہم کی جاۓ تو اس کے دوررس نتائج حاصل ہوسکتے ہیں نوجوان صحافی جناب محمدعبدالباسط میڈیا اڈوائزر پبلک ڈپلو میسی سکشن یوایس کونسلیٹ جنرل حیدرآباد نے جناب نسیم عارفی مرحوم کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا اور صحافت کے میدان میں ان سے ملی رہنمائی اور مفید مشوروں کو یاد کرتے ہوۓ ان کو ایک عظیم صحافی قرار دیا
انہوں نے کہا کہ سوشیل میڈیا کے بڑھتے دور میں اب صحافت عام ہاتھوں میں چلی گئی ہے اس پر بہت زیادہ غور وفکر کی ضرورت ہے صحافتی اصولوں کا معیار ان کا لحاظ اور اس کو برتنے کا انداز سیکھنا ضروری ہے صحافتی آزادی کو اگر چہ کہ خطرہ نہیں لیکن اس میدان میں غیر صحتمند افراد کا داخلہ لمحہ فکر ہے انہوں نے صحافتی اقدار کو مزید بلند سے بلند ہونے کی ضرورت پر زور دیاسینئر صحافی جناب سجادالحسنین نے اردو کے قومی چیانل کی ضرورت کی تجویز کی تائید کرتے ہوۓ کہا کہ وسائل کی کمی کے باجود سابق میں اردو کے چیانل کے قیام کی کوششیں کی گئیں انہوں نے ای ٹی وی اردو کے قیام کے لئیے محب اردو جناب راموجی راؤ کی مخلصانہ کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ9- ستمبر2001ء ( 9/11) کو امریکہ میں سانحہ پیش آیااور اس سے قبل 15- اگست کو ای ٹی وی اردو شروع کیا گیا تھا 9/11 کے بعد پیدا ہونے والے عالمی حالات پر ای ٹی وی اردو نے گہری نظر رکھی اور لمحہ بہ لمحہ کے حالات سے ناظرین کو جانکاری دی گئی اس وجہ سے ناظرین کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہواتھا جس پر جناب راموجی راؤنے بھی اردو والوں کی اردو خبروں سے دلچسپی پر اظہار اطمینان کیا تھا اس موقع پر جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ اعتماد جناب عزیز احمد’ پروفیسر امیتابھ کنڈو ‘ جناب خواجہ وراحت علی ‘ جناب کے این واصف ( ریاض ـ سعودی عرب ) ‘ جناب شوکت علی خان یوسف زئی ‘ جناب شہاب الدین ہاشمی ‘ جناب ایف ایم سلیم ( ہندی ملاپ)،جناب غوث ارسلان ‘ جناب محمد حسام الدین ریاض’ جناب سید غوث محی الدین ( آئی این ڈی ٹوڈے ) ‘ جناب اعظم علی خان ( 4 ٹی وی ) جناب محممدحسام الدین متین (4 ٹی وی) ‘ جناب سید احمد جیلانی ( منصف ٹی وی ) ‘ جناب صغیر احمد ( منصف ٹی وی ) ‘ جناب جناب سید بصیر ( منصف ٹی وی )
‘جناب فیصل علی ‘جناب امجد علی ( ایچ وائی ٹی وی ) ‘ سید عظمت اللہ شاہ ( ایچ آر ٹی وی) ‘ جناب تجمل علی خان ‘ وسیم احمد ( روز نیوز ) ‘ جناب مجاہد محی الدین ‘ ڈاکٹر ناظم علی ناظم ‘ جناب مختار احمد فردین کے علاوہ جناب نسیم عارفی کے فرزند جناب راشد فرحان غوری ‘جناب سید شعیب محی الدین ‘ جناب سید شفیع مرحوم کےدختران اور صحافیوں و دیگر معززین کی کثیر تعداد شریک تھی