تلنگانہ

میرا کسی بھی اسکام سے کوئی تعلق نہیں۔جھوٹی خبریں نشر کرنے والے میڈیا اداروں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ درج کرنے کا اعلان ۔افتخار شریف کی پریس کانفرنس

حیدر آباد – ہندوستان اور امریکہ کی دوہری شہریت کے حامل جناب افتخار شریف نے بعض الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پلیٹ فارم سے ان کے خلاف چلائے جانے والی گھناؤنی مہم کی مذمت کرتے ہوئے تردید کی کہ ان کا کسی بھی اسکام سے کوئی تعلق ہے۔ انہوں نے ان ٹی وی چیانلس اور میڈیا اداروں کے خلاف قانونی کاروائی کا اعلان کیا۔ پریس کلب سوماجی گوڑہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب افتخار شریف نے بتایا کہ ایک تلگو ABN‘ چیانل نے غیر ذمہ دارانہ طور پر ایک من گھڑت خبر نشر کرتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ ان کا ( افتخار شریف کا) شراب اسکام سے تعلق ہے۔ اس من گھڑت خبر کو بعض دوسرے الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے اداروں نے تصدیق اور تحقیق کے بغیر نشر اور شائع کیا جس سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اس سے ان کے ارکان خاندان پر بھی نفسیاتی طور پر منفی اثر ہوا ہے۔

جناب افتخار شریف نے بتایا کہ وہ گزشتہ 40 برس سے امریکہ میں ہیں تاہم ان کی پیدائش اور پرورش شمس آباد میں ہوئی جو کبھی ایک چھوٹا سا گاؤں تھا اور آج بین الاقوامی شہر بن گیا ہے۔ ان کا تعلق ایک قدامت پسند محب وطن اور سادگی پسند گھرانے سے ہے۔ اور ان کا کسی بھی سیاسی جماعت س کسی قسم کا الحاق نہیں ہے۔ تاہم انفرادی طور پر وہ ہندوستان اور امریکہ میں اپنی کمیونٹی کی خدمات کا جنون رکھتے ہیں۔ اس جنون اور جذبے کو دیکھتے ہوئے ان کے ہم وطن ساتھیوں نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ہندوستانی تنظیموں اور تارکین وطن سے متعلقہ اداروں کے لئے سرگرم عمل رہیں ۔ وہ ہند دوستان اور امریکہ کے درمیان ایک تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ مادر وطن کے سچے سپوت کی حیثیت سے انہوں نے دونوں ممالک کے سیاسی اور ثقافتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے محنت کی۔

این آر آئیز کے مسائل کی یکسوئی کے لئے حکومت امریکہ کے ساتھ کام کیا چاہے وہ امریکہ کا دورہ کرنے والے ہندوستانی طلبہ کے مسائل ہوں یا نئے ایمیگر فیس یا ہندوستانی شہریوں کو در پیش چیالنجس کا معاملہ ہو ۔ جناب افتخار شریف نے بتایا کہ وہ فیڈریشن آف انڈین اسوسی ایشن کے صدر رہے جسے امریکہ اور ہندوستانی تارکین وطن نے تسلیم کیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی تلک تنظیموں جیسے ATA اور TANA جیسے اداروں سے بھی وابستہ رہے۔ انہوں نے ہندوستانی تہذیب، ثقافت کو فروغ دیا۔ ایک بزنس مین کی حیثیت سے انہوں نے مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں سے وابستگی اختیار کی۔ مقامی امریکی مندوبین اور ہندوستانی اہم شخصیات کی میز بانی کی جن میں کھلاڑی، بیروکریٹس، مذہبی ، روحانی شخصیات شامل ہیں۔

جناب افتخار شریف نے بتایا کہ انہیں وزیراعظم منموہن سنگھ نے پہلے اوور سیز سٹیزن آف انڈیا کا کارڈ عطا کیا تھا۔ انہیں وزیراعظم مسٹر نریندر مودی، آنجہانی پرنب مکرجی ، سابق صدر وینکیا نائیڈو، سابق وزیراعظم منموہن سنگھ، محترمہ سونیا گاندھی ، راہول گاندھی کابینی وزراء، کئی چیف منسٹرس جن میں وائی ایس آر اور موجودہ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر قابل ذکر ہیں  گورنرس اور ججس سے شخصی طور پر تبادلہ خیال کا اعزاز حاصل ہے۔ امریکہ میں بھی انہیں موجودہ صدر بائیڈن، سابق صدر بارک اوباما اور بل کلنٹن ، سابق اسپیکر نینسی پلوسی اور کئی اسٹیٹ گورنرس سے تبادلہ خیال کا موقع ملتارہا۔ سیاست شخصیات، پولیس آفیسرس، مذہبی قائدین، روحانی پیشوا جن میں ایس ایس روی شنکر اور رام دیو بابا شامل ہیں ان سے روابط رہے جس کا مقصد امریکہ اور ہندوستانی برادری میں سماج خدمات ہے۔

جناب افتخار شریف نے کہا کہ وہ کبھی بھی کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں یا اسکامس میں ملوث نہیں رہے۔ بعض میڈیا اداروں کی گمراہ کن خبروں نے ان کی 40 سالہ سخت محنت اور بیدار امیج کو متاثر کیا ہے۔اس سے انہیں ذہنی اذیت پہنچی ہے۔ یہ میڈیا اداروں کو وہ بلا تحقیق اس قسم کی من گھڑت خبر شائع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی لیگل ٹیم نے 100 کروڑ اور 50 کروڑ کے ہتک عزت کے مقدمات دائر کر دیے ہیں۔ جناب افتخار شریف نے کہا کہ ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی جی مرکز اور ریاستی حکومتیں تارکین وطن کو ہندوستان میں بزنس اور عوامی فلاح و بهبود، ریاست اور ملک کی بہتری کے لئے ادارے قائم کرنے کی ترغیب دیتی ہے تو دوسری طرف ایسے میڈیا ادارے من گھڑت خبروں سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ جناب افتخار شریف نے کہا کہ ABN نیوز نے محض اپنی ٹی آر پی کے لئے یہ خبر بھی نشر کی کہ ان کے پاس پرائیویٹ جیٹ طیارے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ امریکی شہری ہیں اور دوبئی میں رہنے والے این آر آئی نہیں جیسا کہ ABN نے دعویٰ کیا ہے۔ وہ اپنا ٹکٹ خود خریدتے ہیں اور زیادہ تر ایرانڈیا سے سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ABN کی اس من گھڑت خبروں کے پیچھے کیا محرک ہے اس کا پتہ چلنا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button