جنرل نیوز

غربت کی انا ،خودی اور ظلم و جبر کی داستان کو معاف نہ کرنے کے جذبے کا اظہاریہ ہے ’رُلدو پاتشاہ‘ : پروفیسر شہزاد انجم افسانہ ’رلدوپاتشاہ ‘ موجودہ وقت کے حکمرانوں کے طرز عمل پربھی صادق آتا ہے: ڈاکٹر مجاہد الاسلام

بازگشت آن لائن ادبی فورم کے پروگرام میں رتن سنگھ کے منفرد افسانے ’رُلدو پاتشاہ‘ کی تفہیم

 حیدرآباد/لکھنئو ( ۲۱ جنوری ؍ شاہد حبیب) رتن سنگھ کے افسانے ’رلدو پاتشاہ‘ میں ایک پر اسرار فضا نظر آتی ہے۔شروع میں روایتی فضا بندی کی گئی ہے اورراجہ رانی والے قصوں کی طرح ہی اس کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن بہت دور تک چلنے کے باوجود پتہ نہیں چلتا کہ افسانہ کہاں جائے گا اور کس طرح جائے گا۔ آخری سطروں میں جا کر کھُلتا ہے کہ یہ افسانہ، دراصل حکمرانوں کا اپنی رعایا کے تئیں لاپرواہی کو موضوع بنا کر لکھا گیا ہے ۔ ایسے لاپرواہ حکمرانوں کے لیے رعایا کے دل میں کس طرح کے جذبات جنم لیتے ہیں، اس کا ایک اشاریہ ہے رتن سنگھ کا یہ افسانہ۔ ان خیالات کا اظہار آج بازگشت آن لائن ادبی فورم کے ہفتہ واری پروگرام میں رتن سنگھ کے منفرد افسانے ’رُلدو پاتشاہ‘ کی تفہیم کے سلسلے میں منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر شعبہ ٔ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر شہزاد انجم نے کیا۔
پروفیسر شہزاد انجم نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ رتن سنگھ نے اپنے اس افسانے میں خودکلامی، ڈائیلاگ اور اسلوب کے تنوع کو بخوبی برتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس افسانے میں قرأتیت (Readabilty ) ہمیں مکمل طور پر نظر آتی ہے۔ ایک بار افسانہ پڑھنا شروع کر دیجئے تو پھر افسانہ خود کو مکمل پڑھوا ہی لیتاہے۔انھوں نے افسانے میں مکالمے سے انصاف کرتے ہوئے ہندی الفاظ کا بھی خوبصورت استعمال کیاہے اور جس طرح سے اکھاڑے میں پہلوان اپنے داؤں پیچ بدلتا ہے ، اسی طرح سے ہمارا فن کاربھی اپنے متن اور اسلوب کو ہر منٹ بدلتا ہوا نظر آتاہے ۔ یہی خوبی ان کے فکشن کو کمال تک پہنچاتی ہے۔غربت میں بھی ایک انا ہوتی ہے، ایک خودی ہوتی ہے اور ایک ظلم و جبر کی داستان کو آسانی سے معاف نہ کرنے کا جو انتقامی جذبہ ہوتا ہے، اس کی ایک مثال ہے رتن سنگھ کا یہ افسانہ، اور یہی اس افسانے کی روح ہے۔
 مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبۂ اردو کی استاد، پروفیسر مسرت جہاں نے رتن سنگھ کا بھرپور تعارف پیش کیا۔ جبکہ افسانہ ’رلدو پاتشاہ‘ کے متن کی قرأت مانو لکھنؤ کیمپس کے ریسرچ اسکالر اور سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ کے معاون مدیر شاہد حبیب فلاحی نے نہایت دلچسپ اور دلنشیں انداز میں کی۔
افسانے کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے معروف ناقد، افسانہ نویس اور مانو لکھنؤ کیمپس کے استاد ، ڈاکٹر مجاہد الاسلام نے کہا کہ رتن سنگھ کی شخصیت بہت ہی سیدھی سادی تھی۔انہوں نے تعلیم بھی کوئی خاص حاصل نہیں کی تھی ، بڑی مشکل سے باضابطہ تعلیم آٹھویں تک حاصل کی تھی۔ بعد میں انہوں نے کچھ ڈگریاں فاصلاتی ذر یعہ تعلیم سے حاصل کی ۔یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے افسانہ نگاری کی شروعات کی تو اس میں جو اسلوب اختیارکیا وہ بہت ہی زیادہ سیدھا سادا اور سامنے کا تھا جو زیر نظر افسانے سے بھی مترشح ہوتاہے ۔
ڈاکٹر مجاہد نے کہانی کی بنت کی بات کرتے ہوئے کہا کہ افسانے کی ایک کمزوری یہ سمجھ میں آتی ہے کہ رُلدو کے زمانے کے حکمراں کو کہانی کار نے شروع میں ایک ظالم و جابر حکمراں کے طور پر پیش کیا ہے لیکن جب رُلدو نے ان کی تھیلیوں کو لینے سے انکار کر دیا تو اس ظالم حکمراں نے اس کے خلاف کوئی ایکشن یا کارروائی نہیں کی بلکہ چپ چاپ واپس ہو گیا۔ اگر یہاں پر تھوڑی کشمکش دکھائی گئی ہوتی تو کہانی کی دلچسپی میںمزید اضافہ ہوتا اور ظالم حکمراں کے کردار کے ساتھ انصاف بھی۔ لیکن کہانی کار نے سپاٹ انداز اختیار کرکے کہانی کو ایک عام سی کہانی بنا دیا۔
ڈاکٹر مجاہد نے کہانی میں پیش کی گئی فکر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں مواد و اسلوب کے لحاظ سے سچا اور اچھا ادب وہی ہوتا ہے جس کو کہ ہر زمانے اور ہر وقت کا قاری اپنے حالات و واقعات پر منطبق کرلے،اس لحاظ سے رتن سنگھ کا یہ افسانہ بڑے ہی خاصے کی چیز ہے اور موجودہ وقت کے حکمرانوں کے طرز عمل پر صادق بھی آتا ہے۔
گوگل میٹ کے ذریعے منعقد اس تقریب میں رتن سنگھ کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا اور پروگرام کی پیشکش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر گل رعنا (صدر شعبۂ اردو، تلنگانہ یونیورسٹی، نظام آباد )نے کی اور شکریے کی رسم ادا کی ڈاکٹر فیروز عالم، استاد شعبۂ اردو مانو حیدرآبادنے۔ڈاکٹر معین الدین عثمانی، ڈاکٹر نورالامین، ڈاکٹرجاوید اختر(دبئی)، ڈاکٹر صفیہ حسن (سڈنی)، ڈاکٹر اشتیاق عالم،ڈاکٹر عشرت ناہید،ڈاکٹر زنیرا علی، ڈاکٹر مشرف علی (بی ایچ یو)، ڈاکٹر ریشماں پروین ، ڈاکٹر صوفیہ شیریں کے بشمول ۷۰ سے زائد شرکاء کی باوقار موجودگی اور تاثرات نے تقریب کی معنویت میں اضافہ کیا اور اگلے ہفتے پھر کسی بڑے فنکار کے ساتھ مل بیٹھنے کے وعدے کے ساتھ پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button