مضامین

اشرف العرفان کانفرنس: ادبی و صحافتی تاریخ کا ایک روشن باب

محمد سرفراز عالم قاسمی
ایم ٹی ٹی کالج، مدھےپور، مدھوبنی۔
کسی بھی قوم کی دینی، علمی، ادبی، صحافتی، سماجی اور سیاسی شعور و فکر ایسے ہی نہیں بیدار ہوتی اور پراون چڑھتی ہے، یقينا اس کے پیچھے ان کے بڑے بزرگوں کی قربانی اور جدوجہد کار فرما ہوتی ہے۔ جو کھیتی موسم بہار میں فصلوں سے لہلہاتی اور سبزہ زار نظر آتی ہے اس کے پیچھے کسانوں کی محنت سے کی گٸ سینچاٸ اور تخم ریزی پنہاں ہوتی ہے۔
شمالی بہار کے ضلع دربھنگہ کے مشرق میں کملا اور کوسی ندی بیچ اور قرب و جوار میں آباد اور بستیوں کی دینی، تعلمی، سیاسی، تہذیبی، تاریخ بھی ایسے ہی بے لوث کسانوں کی دین ہے جو علم و ادب ایسی فصل بو گۓ جس سے پورا علاقہ سرسبز و شاداب ہے۔ مولانا ڈاکٹر محمد اویس عالم کی تصنيف ”تذکرہ مولانا محمد عثمان“ نہ صرف شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عثمان صاحب رحمة اللہ علیہ کی سیرت و سوانح ہے بلکہ پورے اس پورے خطے اور علاقے کی علمی، دینی خدمات کی مستند تاریخ کہی جاسکتی ہے۔
اسی ضمن میں اس خطے میں ادب و صحافت کے فروغ کے میں 1970 کا اشرف العرفان کانفرس کا اہم حصہ ہے۔ یہ کانفرنس کس قدر معنی خیز رہا ہوگا ؟ جس میں دہلی، لکھنو، کلکتہ اور پٹنہ کے نامور معروف صحافیوں کی جماعت شریک ہوٸ ہونگی۔ جب کہ دوسری طرف ایوان سیاست سے نصف درجن کے زائد وزراء حکومت، ایم پی کے علاوہ وزیراعلی کو بھی دعوت دی گٸ تھی اور ان کی شرکت کی بھی غالب توقع بتائی گٸ تھی۔ یقینا اتنے علمی، ادبی، صحافتی اور سیاسی ہستیوں ایک چھوٹے سے گاٶں میں اکٹھا کرنا کوٸ آسان نہیں رہا ہوگا۔ آج کے درو میں فاٸیو اسٹار ہوٹلوں میں فروغ اردو سیمینار کرکے سامعین کی کمی کا شکوہ کرنے والے بھی بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں، مگر جب شخصيت حضرت مولانا حکیم عبدالمنان صاحب صدیقی ہرسنگھ پوری جیسا بے لوث اور صاحب جذبہ ہو تو کوٸ بعید نہیں ہے۔
حضرت مولانا حکیم عبدالمنان صاحب صدیقی ہرسنگھ پوری رحمة اللہ علیہ (1979-1920) جید عالم دین، بہترین صحافی، کامیاب مدرس، دست شفا والے طبیب تھے۔ قطب عالم حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہرسنگھ پوری رحمة اللہ علیہ کے تیسرے صاحبزادہ تھے، مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب الہ بادی نوراللہ مرقدہ کے مرید اور سراج الامت حضرت مولانا شاہ سراج احمد صاحب امروہوی قدس سرہ کے خلیفہ و مجاز تھے۔ فراغت کے بعد سرکاری شفاخانے میں ملازمت اختیارکی مگر اس علاقے کی دینی تعلیمی پسماندگی کو دیکھ کر نوکری چھوڑ دی اور اشاعت تعلیم کے لۓ سرگرم ہوگۓ۔ پہلے ”جھگڑوا“ میں ہی کچھ عرصے ان کا قیام رہا اور یہں ایک دینی ادارہ قاٸم کرنے کا خواہش مند تھے۔ مگر شاید قدرت نے منتخب کسی اور جگہ کو کیا تھا۔ لہذا قرعہ نیک فال ”پوہدی“ کے حق میں نکلا۔
حضرت حکیم صاحب 1950 میں بھگوان دت یادو ہاٸ اسکول پوہدی بیلا، ضلع دربھنگہ میں اردو و فارسی کے استاد کے مقرر ہوۓ اور پھر اسی جگہ کو اپنی علمی، تدریسی، صحافتی، طبی، سماجی اور اصلاحی خدمات سے اس قدر رونق بخشی کہ شمالی بہار کا وسیع تر محور و مرکز بن گیا۔
حضرت مصلح الامت رحمہ اللہ کے ایما سے حکیم الامت حضرت تھانوی کے اصولوں پر 1954 میں مدرسہ اشرفیہ عربیہ پوہدی بیلا، دربھنگہ کی بنیاد رکھی اور پھر 1960 میں ادبی، صحافتی اور اصلاحی تنظیم ”اشرف العرفان“ کے نام سے قاٸم کیا اور اس کے تحت جون 1968 میں ایک رسالہ ماہنامہ اشرف العرفان جاری کیا اور 1970 میں اسی تنظيم کا ایک عظیم الشان کامیاب کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس کی میزبانی شرف ترقیات سے کوسوں دور ایک پسماندہ گاٶں جھگڑوا، دربھنگہ کو بخشا۔
جھگڑوا ضلع دربھنگہ کے کرت پور بلاک میں واقع ایک کثیر مسلم آبادی والا گاٶں ہے، یہ مستقل ایک پنچایت ہے، یہاں پوسٹ آفس بھی ہے، اس کا تھانہ جمال پور اور وایا گھنشیام پور ہے، جب کہ ماضی میں اس کا تھانہ بہیڑہ اور بیرول بھی رہ چکا ہے اور اس وقت یہ اہل علم کی ایک خاص بستی ہے۔
پوہدی بیلا بھی ضلع دربھنگہ کے گھنشیام پور بلاک میں واقع علاقے کی ایک مشہور بستی ہے، پوہدی میں پوسٹ آفس بھی ہے جب اس کا تھانہ ”وایا“ بھی گھنشیام ہی ہے پہلے اس کا ”وایا“ بھی کرسوں ندیامی تھا۔
دونوں بستیوں کے بیچ تقریبا اٹھارہ بیس کیلو میٹر کا فاصلہ ہوگا جو آج کے وقت میں تو کم محسوس ہوسکتا ہے مگر صرف ایک دہائی قبل جب کملا اور کوسی ندی پر پل کا کوٸ تصور نہیں تھا، آمد ورفت کی جدید سہوليات محروم، اس پسماندہ علاقے کا سفر کرنا کوٸ آسان کام نہیں تھا۔ روڈ سڑک اور کھیت میں فرق کرنا مشکل تھا، خشکی میں بیل گاڑی اور سیلاب کے زمانے میں کشتی کے علاوہ کوٸ سورای نہیں ہوتی تھی۔ سوچتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ کیسے عظیم لوگ تھے جو ایسے پچھڑے علاقے کو علم و ادب کے فروغ کے لۓ منتخب کیا اور ایسی بیج بو گۓ جہاں آج سبزہ ہی سبزہ ہے۔
ماہنامہ اشرف العرفان مٸی 1970 کے شمارے میں درج تفصیل کے مطابق اس کانفرنس کی صدارت حضرت مولانا سید نوراللہ صاحب رحمانی صدر جمعیت علماۓ بہار نے فرماٸ اور خطبہ افتتاحیہ قطب عالم حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہرسنگھ پوری رحمة اللہ علیہ کے دوسرے صاحبزادے حضرت مولانا لطف الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری رحمہ اللہ نے پیش کی۔ اور مدعوین خصوصی میں سے مولانا سید اسعد مدنی ناظم عمومی جمعیت علماۓ ہند و ایم پی، مولانا سید محمد حسنی مدیر ”بعث الاسلامی“ و ”تعمیرحیات“ دارالعلوم ندوة العلما لکھنو، مولانا سعیدالرحمن اعظمی استاذ دارالعلوم ندوة العلما لکھنو، مولانا سید محی الدین ندوی اڈیٹر ”روزنامہ صداقت“ پٹنہ، ایم اے نصیر صاحب اڈیٹر ”تحریک ملت“ کلکتہ، ریاض عظیم آبادی اڈیٹر ”ہفت روزہ مساٸل“ پٹنہ، مرغوب احمد صاحب اڈیٹر ”صداۓ عام“ پٹنہ، شماٸل نبی صاحب اڈیٹر ”راہ رو“ پٹنہ، قیوم خضر صاحب اڈیٹر ”اشارہ“ پٹنہ، بیتاب صدیقی، بیدل عظیم آبادی، جناب یونس سلیم ناٸب مرکزی وزیر قانون، حکومت ہند، جمنا پرشاد صاحب ایم پی، داروغہ پرشاد راۓ اور ریاست بہار کے چھ سات وزراء شریک ہوۓ۔ جب کہ وزیراعلی بہار نہیں آسکے تھے۔
یہ دو روزہ کانفرنس کل پانچ نشستوں پر مشتمل تھی، نشست اول کو تلاوت، حمد و نعت اور افتتاحی خطبہ کے لۓ، نشست دوم حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ کا بصیرت افروز بیان اور دیگر علماۓ کرام کی تقریں، نشست سوم معزز صحافيوں کی صحافتی تقریریں اور ”اشرف العرفان“ کے اہل علم متوسلین سے تحریری مشورہ، نشست چہارم وزراء حکومت کے بیانات اور سپاس نامے اور نشست پنچم کو غیر طرحی نعتہ و بزم مشاعرہ کے لۓ مختص کیا گیا تھا۔
ملک و ملت کے ہونہار فرزندوں اور علم و ادب کی تشنگی رکھنے والوں سے خصوصا اور ان تمام لوگوں سے جو اردو ادب سے محبت رکھتے ہوں سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت فرماکرکانفرنس کو کامیاب بنانے کی گزارش کی گٸ تھی۔ گاٶں چشم دید لوگ بتاتے ہیں کہ کانفرنس عیدگاہ کے وسع و عریض احاطے میں منعقد ہوٸ تھی اور مہمانوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ انتظامات کے علاوہ ہر گھر میں پانچ دس مہمان قیام پذیر تھے، باشندگان کا جذبہ ضیافت دیدنی تھا، ہر اجنبی شخص کو سب اپنے ہی گھر ضیافت کی کوشش کرتے، بچے، جوان، بوڑھے، عورت، مرد سبھوں میں ایک عید کا سماں تھا۔
مدرسہ رحمانیہ سوپول شریک میزبان تھا، دور سے آنے والے مہمانوں کو دربھنگہ سے بذریعہ بس ایک روز قبل ہی سوپول آنے کو کہا گیا تھا اور رات میں مدرسہ میں قیام و طعام کا نظم کیا گیا تھا اور پھر وہاں بیل گاڑی کے ذریعہ مہمانوں کو جلسہ گاہ تک لانے کا نظم کیا گیا تھا۔
حضرت مولانا محمد عثمان صاحب شیخ الحدیث و مہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول، حضرت حکیم صاحب کو بہت عزیز رکھتے تھے، انہیں اپنا مشیر کہتے تھے، حضرت حکیم صاحب بھی اپنے یہاں ان کی بغیر اجازت اور وقت کے کوٸ جلسہ اور پروگرام نہیں رکھتے تھے، سالانہ جلسہ سیرت النبی آپ مہمان خصوصی ہوا کرتے تھے۔ لہذا ان دونوں حضرات کی عظیم شخصيت سے قیاس کرنا عین ممکن ہے کہ اس قدر علمی سطح کے بڑے کانفرنس میں علاقے کے دیگر ممتاز مدارس جیسے جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر، مدرسہ امدادیہ لہیریا سراۓ، دربھنگہ، مدرسہ فرقانیہ بگھیلا، دربھنگہ کے علما کی شرکت کثیر تعداد میں ضرور رہی ہوگی۔
ماہنامہ اشرف العرفان جون، جولاٸ 1970 کا شمارہ دستیاب نہیں ہوسکا، اگر دستیاب ہوجاۓ تو ممکن ہے کہ اس میں کانفرنس کے بعد کی رپورٹ، تجاویز اور قرارداد قدرے تفصیل سے درج ہو۔ سوچتا ہوں تو دل ان کی عظمتوں سے سرشار ہوجاتاہے کہ کیسے مخلص اور اہل جنوں تھے جو صحرا میں تشنگی بجھانے کی سبیل لگا گۓ، جہاں آج بھی جدید مادی وسائل کی ترقی کی رفتا ناگفتہ بہ ہے، جب کہ علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی بلندٸ افکار کی رفتار قابل ذکر ہے، یقینا اس میں ان سبھوں کا حصہ ہے۔ بے ساختہ دل سے دعائيں نکلتی ہے۔ اللہ رحم کرے کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گۓ۔

متعلقہ خبریں

Back to top button