جنرل نیوز

ملک میں نفرت کا ماحول در اصل بین المذاہب مکالمہ اور باہمی تبادلہ خیال کی کمی کے سبب

ریڈ اینڈ لیڈ فاؤنڈیشن کی جانب سے "ہم بھارت کے لوگ" عنوان کے تحت مذاکرہ 

اورنگ آباد 27 مئی/ ملک میں اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے وہ دراصل ایک دوسرے سے دوری، باہمی گفتگو، تبادلہ خیال اور مکالمہ کی کمی کے سبب ہے. پوری دنیا میں بھارت ایک ایسا واحد ملک ہے جہاں مختلف مذاہب و ادیان کے لوگ اپنی جداگانہ تہذیب و تمدن، اپنے مذہب اور زبان کے ساتھ رہتے آ ئے ہیں

ریڈ اینڈ لیڈ فاؤنڈیشن اورنگ آباد کے زیر اہتمام سواد اور سمواد کے زیر عنوان مہارانا پرتاپ سنگھ گارڈن کناٹ پیلس اورنگ آباد میں "ہم بھارت کے لوگ” پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔  اس موقع پر مرزا عبدالقیوم ندوی نے پروگرام کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جو نفرت، اور انسان دشمنی کی فضا بن رہی ہے دراصل وہ باہمی تبادلہ خیال کی کمی ، ایک دوسرے کے مذاہب ان کی مذہبی، سماجی، اصلاحی تحریکوں اور ان کی شخصیات کے کارناموں سے نا واقفیت کی بنا پر ہے. انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس پروگرام میں ہم نے شہر کے تعلیمی، سماجی، مذہبی اور مختلف میدانوں میں کام کرنے والے افراد کو مدعو کیا ہے جس کا واحد مقصد باہمی تبادلہ خیال اور گفت و شنید کو فروغ دینا اور انسانیت کی بنیاد پر ہم بھارت کے لوگوں کی حیثیت سے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے.

پروگرام میں مشہور و معروف مراٹھی اسکالر پروفیسر پرلہاد لولیلکر نے کہا کہ پچھلے کچھ سالوں سے خصوصاً 2014 کے بعد سے معاشرے میں باہمی تبادلہ خیال اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے رابطہ کو روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہے خاص کر مسلمانوں کے تعلق سے تو زبردست پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے. سنئیر صحافی سو سو کھنڈالکر نے کہا کہ بات چیت کا عمل ختم ہوتا جارہا ہے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ جھوٹی خبروں کو پھیلا کر معاشرے کو زہر آلود کیا جا رہا ہے۔ یہ ملک کے اتحاد اور امن کے لیے بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔

پروفیسر راجن سانے نے مسلمانوں سے اپنے تعلقات و روابط کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح انہوں نے مسلمانوں کے بیچ رہ کر اسلام کے بنیادی تعلیمات کو جانا پڑھا اور سمجھا. ہم جب تک ملک کے مختلف مذاہب کو صحیح طور پر جاننے کی کوشش نہیں کریں گے اور ان کے ماننے والوں سے تعلقات قائم نہیں کریں گے ہم نفرت کی آگ میں جلتے رہیں گے.

لہٰذا ملک کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے باشعور شہری اکٹھے ہوں اور مکالمے کے عمل کو ازسرنو شروع کریں اسے زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کریں۔اس موقع پر پروفیسر پرہلاد لولیکر، پروفیسر راجن سانے ، نوشاد عثمان،مجاہد شیخ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں باہمی میل جول، تبادلہ خیال وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہ کام ہم بخوبی "ہم بھارت کے لوگ” کے عنوان کے تحت کرسکتے ہیں. پروگرام میں مولانا نثار کاشفی،مولانا یوسف ملی، خان جمیل احمد اور شیخ ذاکر الدین موجود تھے۔ مولانا مرزا نے حاضرین کو تیقن دیا کیا کہ آئندہ بھی ایسے پروگرام منعقد ہوتے رہیں گے۔ امباداس رگڑے، وشنو وکھرے، سندیپ گھوڈکے، تھور کاکا، کنچن تائی، کریتی لتا پیڈکر وجے وانکھیڑے اور دیگر معززین موجود تھے۔

پروگرام کی نظامت مولانا عبدالقیوم ندوی نے کی جب کہ تمام ہی حاضرین شیرخرمہ سے لطف اندوز ہوئے۔ مولانا کی اس کاوش کو ہر طرف سراہا جا رہا ہے۔ پروگرام کے منتظم مولانا محمد صادق ندوی باغبان ایجوکیشن ٹرسٹ نے اظہار تشکر ادا کیا اور مرزا ابوالحسن مرزا ہارون بیگ، ریڈ اینڈ لیڈ فاؤنڈیشن کے شیخ عبدالستار، محمد مہذب ندوی حا فظ فضیل نے پروگرام کی کامیابی کے لیے محنت کی.

 

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button